علامہ زبردست کے ساتھ ایک مختصرنشست



جمعرات کی شام میرے دفتر میں اچانک علامہ زبردست وارد ہوئے۔ چونکہ آج کل ہر دو آدمیوں کی مجلس کا محور کورونا وائرس ہوتا ہے یوں باتوں باتوں میں ہم نے بھی کورونا وبا ہی کو موضوع سخن بنا لیا۔ علامہ زبردست نے اس عالمگیر وبا کے بارے میں مجھ سے کئی باتیں شیئر کیں، تاہم سوائے ایک آخری بات کے باقی سب باتوں پر میں نے ان سے اتفاق کر لیا۔ علامہ صاحب نے پہلی بات یہ کہی کہ چین سے اٹھنے والی کورونا کی حالیہ وبا کو ایک فتنہ اور الٰہی عذاب ہے۔

ان کی اس بات سے میں نے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ اس نوع کی بے شمار الٰہی آفات کی مثالیں بھی میں ان کے سامنے پیش کر دیں۔ علامہ کا مزید فرمانا تھا کہ ایسی آفات سے ہمیں بہرصورت سبق سیکھنا چاہیے کیونکہ یہ قدرت کی طرف سے بندوں کے لئے ایک تادیبی اقدام ہے ”۔ ان کی اس بات کو بھی میں نے یہ کہتے ہوئے تسلیم کیا کہ بیشک قدرتی آفات سے سبق نہ لینے والوں کا انجام ہمیشہ برا نکلتاہے اور میرا ایمان ہے کہ اس طرح کے ہٹ دھرم لوگ مشکلات سے دو چار ہوں گے ۔

علامہ نے تیسری بات یہ کہی کہ میراخیال ہے کہ یہ وبا دراصل کفاراور مشرکین کو سبق سکھانے کے لئے قدرت نے نازل فرمائی ہے اور مسلمان اس سے محض جزوی طور پر متاثر ہوں گے۔ میں نے علامہ سے اس کی وجہ پوچھی توان کا استدلال تھا کہ کفار اور مشرکین نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دی ہے۔ بوجہل، ابولہب، عتبہ اور شیبہ کی یہ اولاد اسلام جیسے سلامتی والے دین کی حقانیت کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اسلام کو قبول نہیں کرتے۔

ان کی اس دلیل سے اختلاف کرتے ہوئے مجھ سے رہا نہ گیا اور کہا؛ علامہ صاحب! ہم عصرحاضر کے مسلمان کون سے دودھ کے دھلے ہیں کہ آسمانی آفات ہم پر ٹھنڈی ہواوں کی طرح گزر جائیں گی؟ یہ سن کر علامہ طیش میں آگئے۔ کفار کی برائیوں کو بیان کرتے کرتے وہ اتنے جذباتی ہوگئے کہ کفار اورمشرکین کو کتوں اور پھر خنزیروں سے تشبیہ دے کرخاموش ہو گئے۔ میں نے کہا؛علامہ صاحب! امریکہ، اٹلی، برطانیہ، اسپین اور فرانس کے کفار کتے اور سُور ہی سہی لیکن آپ کو یہ بھی تو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم مسلمانوں کی مثال اونٹ جیسی ہے۔

یہ سن کر علامہ صاحب کہنے لگے“ اللہ کے بندے اونٹ تو ایک مبارک جانور ہے، بار برداری اورسواری کے علاوہ اس کا دودھ پیا جاتا ہے اور گوشت کھایا جاتاہے۔ سو مسلمان اگر اونٹ کی مانند ہیں تو اس میں آخر قباحت کیا ہے؟ اپنی اس مثال کی تصریح کرتے ہوئے میں نے علامہ سے کہا کہ اونٹ بلاشبہ ایک مبارک اور حلال جانور ہے تاہم اس کی بناوٹ پر آپ نے کبھی غور کیاہے کہ یہ کتنی عجیب مخلوق ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ کیسے؟ اپنی دلیل کو مزید واضح کرنے کے لئے میں نے ان کے سامنے سورۃ غاشیہ کی وہ آیت تلاوت فرمائی جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے اونٹ کی تخلیق پر غور کرنے کا کہا ہے کہ ”کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے ہیں“؟

اس آیت کے بعدمیں نے پشتو زبان کی ایک کہاوت بھی علامہ صاحب کے سامنے پیش کردی کہ ”ایک دفعہ اونٹ کو کسی نے اس کی ٹیڑھی گردن کا طعنہ دیا جس پر اونٹ نے ہنس کر کہا “اوئے بے وقوف! آپ تو صرف میری ٹیڑھی گردن کی بات کررہے ہواور حال یہ ہے کہ میرے پورے بدن میں سرے سے سیدھا عضو ہی نہیں ہے۔ میری ٹانگیں پر نظردوڑائیں، پیچھے والی لمبی ہیں تو فرنٹ والی ٹانگیں لمبائی میں کم۔ میرے ابھرے ہوئے کوہان کو ذرا دیکھ! ۔ ارے کیا تمہیں میرے ایک فٹ دم اور چمگادڑ جیسے کان نظرنہیں آتے وغیرہ، وغیرہ ”۔

اونٹ کے بارے میں میری زبان سے یہ مثالیں سن کر علامہ صاحب کہنے لگے“ تو کیا آپ کامطلب ہے کہ مسلمان بھی اونٹوں کی طرح ٹیڑھے پیڑھے ہیں؟ میں نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے بتایا کہ آپ ہی بتا دیجیے، اس موجودہ عصرمیں وہ کون سی کج رخی اور کرتوت باقی بچا ہوا ہے جو ہم مسلمانوں میں موجود نہیں ہے؟ کرپشن میں ہم لاثانی اور ملاوٹ میں اپنی مثال آپ۔ جھوٹ کو تو ہم اپنے پَر سمجھتے ہیں اور جب معمولی مفاد کی بات آجائے تو ہم ان پَروں کو لگا کر اڑان بھرتے ہیں۔

چند پیسوں کی خاطر پراکسیز بن کر ہم نے ہمسایہ ملک افغانستان کا کیا بنایا؟ فرقہ پرستی کو دوسروں کی ایما پر ہوا دے کر کیا ہم نے شام، یمن اور عراق میں اپنے ہی بھائیوں کو نہیں کاٹا؟ اس کے بعد میں نے علامہ صاحب کے سامنے میں ستاون اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کی ایک لمبی فہرست رکھ دی اور کہا ”آپ خدا کو حاضر ناظرجاں کر بتادیں کہ سوائے ایک آدھ کے کس حکمران نے قابل تقلید مثال قائم کی ہے؟ میرا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ نے میرے اس مدعا کو غلط ثابت کر دیا تو میں اپنا موقف واپس لے لوں گا۔

ایک لمبی سانس لینے کے بعد علامہ صاحب نے میرے اعتراضات کے جواب میں مرحوم علامہ محمد اقبال کی نظم“ شکوہ ”کے اشعار سنانا شروع کیے اور کہا جناب! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں سے پہلے اس دنیا کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ اور قابل رحم تھی۔ کہیں بڑے بڑے پتھر وں اور چٹانوں کو لوگ پوجتے تھے اور کہیں پر درختوں کی عبادت کی جاتی تھی۔

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود َ شجر

علامہ نے مزید فرمایاکہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے اللہ تعالی کے نام کو بلند کیا اور دنیا کو توحید کی طرف راغب کیا۔

تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام تیرا
قوت بازوئے مسلم نے کیا کام تیرا

انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا: یاد رکھو ؛ دنیا سے باطل کو ہم مسلمانوں ہی نے مٹایا، کعبے کو جائے سجود بنانے والے اور قرآن کو سینے سے لگانے والے توہم ہی تھے۔

صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

آخرکار میں نے اقبال ہی کے فقط دواشعار کی مدد سے علامہ زبردست کے ان سب دعووں کی پوری عمارت کو ہڑام سے گرادیا اور یوں مجلس برخاست ہوگئی،

وہ تو تھے تو وہ تمہارے آبا، تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments