آپ نے کبھی فرعون دیکھا ہے؟


آپ نے فرعون دیکھا ہے؟ یقینا نہیں دیکھا ہو گا۔ ۔ لیکن میں وہ بدقسمت انسان ہوں جس نے فرعون کے گھر میں جنم لیا۔

جمعے کی تقریر میں جب بھی مولوی غوث بخش لہک لہک کے فرعون کا قصہ سناتا تو مجھے یوں لگتا تھا جیسے وہ ابا کی باتیں کر رہا ہے

”او مسلمانو۔ اللہ کے پیارو، میرے بزرگو، نوجوانو، بات مختصر ہو گی مگر پراثر ہو گی۔ حکم الہی ہوا کہ اے میرے کلیم لگا اس سمندر کو سوٹا۔ کلیم کو سوچ میں ڈوبتے دیکھ کر آسمانوں سے رب کلیم کی پرجوش آواز آئی۔ اٹھ مار ڈنڈا، کیا ڈرتا ہے؟ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔ تو مسلمانو شمع توحید کے پروانو۔ مارا میرے کلیم نے سمندر پر سوٹا۔ ہوا پانی دو ٹکڑوں میں تقسیم اور اللہ کا نبی اپنی امت اور خاص حواریوں کو لے کر پار اتر گیا۔ پیچھے آرہا تھا فرعون لعین اپنی لاکھوں کی فوج لے کر موسیٰ کی نقل میں اس نے بھی ڈال دیا اپنا گھوڑا سمندر میں۔ جونہی درمیان میں پہنچا آسمان سے آوازآئی اے میرے سمندر، اے میرے سوہنے تے طاقتور سمندر، اے میرے حکم کے غلام سمندر، کر دے اپنا کام سمندر۔ بس آنی تھی صدا اور دونوں پانی ایسے ملے جیسے سالوں کے بچھڑے ملتے ہیں اور ایسے آیا شکنجے میں فرعون جوں ویلنڑے وچ گنا ….

اس موذی کو اپنے ظلم کی ایسی سزا ملی کہ آج تک مصر کے موذیم میں رکھا ہوا ہے۔ موذیم جانتے ہو کیا ہوتا ہے؟ نہیں؟ میرے پیارو! اصلی مولوی وہ ہے جو امت کو آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کا علم بھی دے۔ تو پھر مسلمانو اللہ کے گھر کے مہمانو سنو۔ موذیم وہ جگہ ہے جہاں فرعون جیسے موذیوں کی لاشوں کو مصالحے لگا کر رکھ دیا جاتا ہے، اسی لئے اسے موذیم کہتے ہیں۔ میرے اللہ نے اس لئے موذیم میں فرعون کی لاش رکھی ہوئی کہ خلقت آئے، دیکھے اور عبرت پکڑنے کے بعد اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے۔ نماز کو نہ جانے دے رمضان کے سارے روزے پکڑے۔ اللہ کے گھر کا خیال رکھے۔

او مسلمانو مسجد کے نلکے کی ڈبی ختم ہو گئی ہے اس لئے پانی نہیں اٹھا رہا، پانی کی بجائے ریت دے رہا ہے کیونکہ جالی بھی پھٹ گئی ہے۔ سبحانی لوہار کل ہی دیکھ کے گیا ہے۔ ڈانگ کو ٹانکے لگنے ہیں جالی تبدیل ہونی ہے وہ دیکھو وضو خانے میں سارا نلکا لاوارث لاش کی طرح کھلا پڑا ہے۔ ہے کوئی اللہ کا پیارا جو اس نلکے کی ذمے داری لیکر جنت میں اپنا نلکا لگوائے۔ قیامت کے دن موسیٰ کلیم اللہ کا ہمسایہ بنے نہ کہ دوزخ میں اس فرعون مردود کا۔ اس ظالم نے ہزاروں بچے قتل کرائے، خدائی کا دعویٰ کیا اور میرے اللہ نے اسی کے گھر میں موسیٰ کی پرورش کرا کے اسی کے ہاتھوں اس کو خوار کیا۔ یہ مولوی غوث بخش کا نہیں، اللہ کا قانون ہے کہ جو ظلم کرے گا، اس کی اس جہان میں بھی پکڑ ہو گی اور اُس جہان میں بھی “

مولوی غوث بخش کی ایسی باتیں سنتے سنتے میں اپنے آپ کو موسیٰ کلیم اللہ اس لئے بھی سمجھنے لگا تھا کہ میں نہ صرف اللہ کے اس نبی کا ہم نام تھا بلکہ ابا ظلموں کے معاملے میں فرعون کا ہم پلہ تھا۔ بلکہ مجھے تو یہ بھی یقین تھا کہ جوان ہونے پر مجھے ولایت بھی ملے گی اور پھر میں اسی ولایت کے زور پر ابا کی ساری ناانصافیوں کے بدلے لوں گا۔ اور تو اور میں یہ بھی سوچ رکھا تھا کہ ولی اللہ بنتے ہی اپنے تین خاص دوستوں منظور، طارق اور شنو جھولے کو (جو عمر میں تو مجھ سے بڑا تھا لیکن پھر بھی میرا دوست تھا) اپنے خاص حواریوں کا درجہ دے کر ان کا بھلا بھی کر دوں گا

غصے کے علاوہ ابا سارے بنیادی انسانی جذبات سے آزاد ایک ایسا وجود تھا جسے کبھی کسی نے نہ ہنستے دیکھا نہ روتے اور نہ ہی مسکراتے۔ میں نے تو ہر وقت اسے غصے میں ہی دیکھا۔ نہ وہ زیادہ بولتا تھا اور نہ ہی کسی دوسرے کو اپنے سامنے بولنے دیتاتھا۔ اسے خوش رہنا ہی نہیں آتا تھا، خوشی کے ہر موقعے کو وہ اپنے غصے سے روند کے آگے نکل جاتا تھا۔ خدا گواہ ہے۔ میں نے اسے ساری زندگی عید کے علاوہ کوئی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ اس کی عید کا دن بھی سوگواری سے شروع ہوتا تھا۔ عید نماز کے بعد جب ساری خلقت عید کی مبارک بادی کے لئے ایک دوسرے کے گھر آ جا رہی ہوتی تھی، ابا کی منزل وہ قبرستان تھا جہاں اس کے خاندان کا ایک آدمی بھی دفن نہیں تھا۔ وہ وہیں اجنبی قبروں کے درمیان آدھا دن گزارنے کے بعد اس وقت گھر آتا جب عید بھی آدھی باسی ہو چکی ہوتی اور وہ کسی کو عیدکی مبارک باد دئیے لئے بغیر کھانا کھا کے قیلولے کے لئے لیٹ جاتا۔

میں جب بھی کوئی شرارت کرتا تو وہ مجھے بہت مارتا لیکن رونے نہ دیتا۔ مارتے مارتے جوں ہی اسے محسوس ہوتا کہ میری آنکھیں چھلکنے والی ہیں تو اپنی گرجدار آواز میں حکم صادر کرتا ”رانا رونے کی حرمزدگی نہ کرنا ورنہ استنجے کا ڈھیلا بنا دوں گا۔ لیکن آنسو تو آنسو ہیں، نکل ہی پڑتے ہیں، آنکھ سے نہ سہی، شلوار سے ہی سہی۔ میں اپنی پوری کوشش کرتا کہ میرے آنسو نہ آنکھ سے نکلیں نہ شلوار سے بلکہ کوئی تیسرا راستہ تلاش کر لیں۔ پسینہ بن کر بہہ نکلیں یا پھر ناف سے ابل پڑیں تاکہ میری بے بسی کا کچھ تو بھرم رہ جائے۔ ایک بار تو برف توڑنے والے سنبھے سے اپنی بند ناف کھولنے کی کوشش بھی کر بیٹھا تھا اس پر بھی مجھے مار پڑی تھی۔

ابا نے مجھے کبھی بھی” میرا بیٹا ‘ میری جان‘ میرا چیتا “جیسے القابات سے نہیں نوازا وہ ہمیشہ مجھے ”رانا “کہتا تھا۔ راجپوت تھا ناں جس کا راج تو بٹوارہ لے گیا اب صرف ایک پوت ہی باقی رہ گیا تھا جسے وہ آتے جاتے رانا کہہ کر شاید اپنی اس پرمپرا کو آواز دیتا تھا جو ہجرت کے وقت بلوائیوں کے برچھوں کا شکار ہو گئی یا کسی سکھ کا تخم پیٹ میں سنبھالنے کی بجائے کنویں میں ڈوب مری تھی۔ اس تقسیم میں ابا کے حصے میں پتیل کی ایک تختی ہی آئی تھی جو انگریز سرکار نے اس کے پردادا کو کسی میم کی عزت بچانے پر عطا کی تھی۔ دس انچ کی اس بیضوی تختی پر بڑے بڑے الفاظ میں سب سے اوپر ”امین العزت رانا بندے علی خان راجپوت“ لکھا ہوا تھا اور نیچے فارسی اور انگریزی میں بھی کچھ تحریر تھا۔ پاکستان آنے کے بعد ابا نے اپنے زور بازو سے ایک ہندو کے خالی مکان پر حق جتایا اور خاموشی سے تقسیم کے زخم چاٹنے لگا۔ حالات جب معمول پر آئے تو اس نے وہ تختی اسی گھر کے سامنے کچی سڑک پر سیمنٹ کا ایک پکا چبوترہ بنوا کے اس میں لگوا دی تاکہ آس پاس کے لوگوں کو بھی معلوم ہو جائے کہ اس گھر میں چوہدریوں کا کھیت ٹھیکے پر لے کر کاشت کرنے والا کاشتکار نہیں بلکہ زمین کا سینہ چیر کے اپنا حق لینے والا راجپوت رہتا ہے۔ وہ اس تختی کے بارے میں بہت حساس تھا آخر کیوں نہ ہوتا انگریز سرکار نے اس کے پردادا کو یہ اعزاز کتے خصی کرنے پر نہیں، ایک مجبور میم کی آبرو بچانے پر عطا کیا تھا۔

ہمارے گھر سے آٹھ گھر چھوڑ کے خادم میراثی کا گھر تھا۔ جو اپنے لمبے مگر سفید بالوں کو خضاب لگاتا نہیں بلکہ پلاتا تھا۔ جتنی اس نے خضاب کی ڈبیاں خالی کیں، اتنی ہی اولاد پیدا کی۔ گاﺅں میں مشہور تھا کہ جس طرح فوجی چھاونی میں بگل بجا کر سپاہیوں کو اکٹھا کر کے ان کی گنتی کی جاتی ہے، اس طرح خادم بھی شام کو ڈھول بجا کے اپنی آل اولاد کو جمع کرتا ہے پھر ان کی گنتی ہوتی ہے اور نفری پوری ہونے کا اطمینان ہو جانے پر ہی گھر کا دورازہ بند کیا جاتا ہے۔ بلا شبہ یہ گاﺅں والوں کی ایک گپ تھی اس بے چارے کے اتنے زیادہ بچے بھی نہیں تھے ہاں لیکن اتنے ضرور تھے جو کسی شریف آدمی کے نہیں ہوتے۔

ایک دن انہی لاتعداد بچوں میں سے ایک نے کھیلتے کھیلتے ابا کے پردادا والی تختی پر کند چاقو سے الٹی سیدھی لکیریں کھینچ دی اگلی صبح ابا اپنے پرکھوں کی سمادھی کا بگڑا چہرہ دیکھ کر ہتھے سے اکھڑ گیا۔ ادھر ادھر سے سن گن لی تو سب نے خادم میراثی کے بیٹے کا نام لیا۔ وہ فوراً گھر آیا اپنی بارہ بور کی بندوق نکالی اور جا کے اس کے گھر کے سامنے دو فائر کھول دئیے۔ دوسروں کے در پر ڈھول بجانے والا خادم اپنے دروازے پر بندوق بجتی سن کر اوسان خطا کر بیٹھا اور چارپائی کے نیچے چھپ کر یا علی مشکل کشا، مدد کو آ کا ورد کرنے لگا۔ اس کے گھر کی عورتیں روتی پیٹتی باہر نکلیں اور اپنے دوپٹے ابا کے قدموں میں ڈال دئیے۔ ننگے سر دیکھ کر راجپوت تھر تھر کانپنے لگا۔ بندوق پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ اس نے اپنے سر سے پگڑی اتاری، اسے خادم کی بیوی کے سر کا آنچل بنا کے یہ کہتا، واپس اپنے گھر میں گھس گیا ”اپنے لونڈوں کو سمجھاﺅ، ہمیں ایسی حرمزدگی اچھی معلوم نہیں ہوتی “ میراثیوں کا کنبہ راجپوت کے جلال کی تاب نہ لاسکا اور گاﺅں چھوڑ کر چلا گیا ۔

انہی چھوٹی بڑی حرمزدگیوں میں وقت پرلگا کر اڑ گیا اور ایک دن ہمارے گاﺅں میں بھی ترقیاتی کام شروع ہو گئے۔ بجلی کے کھمبے زمین میں گڑنے لگے۔ نالیاں اور گلیاں پختہ ہونے لگیں۔ لیکن جب یہ پختگی ہمارے دروازے تک پہنچی تو درمیان میں امین العزت والا چپوترہ سینہ تانے کھڑا تھا۔ میونسلپٹی والے بسم اللہ پڑھ کر اس کی جڑوں پر کدال چلانے ہی والے تھے کہ ایک بار پھر وہی ہنگامہ شروع ہو گیا جو خادم میراثی کے ساتھ ہوا تھا۔ لحافوں والے صندوق سے ابا کی دو نالی بندوق نکلی اور اس نے مزدوروں پر اسے تانتے ہوئے کہا میونسپلٹی نے جو حرمزدگی کرنی ہے، شہر میں جا کے کرے۔ کسی نے اس چبوترے کو ہاتھ لگایا تو بدن چھلنی کر دوں گا۔ مزدوروں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ بھیا گلی پکی کر کے دوبارہ اسی جگہ چبوترہ بنا دیں گے لیکن ابا نے کہا جو ایک بار کہیں سے اکھڑتا ہے دوبارہ نہیں جڑتا، میں یہ چبوترہ نہیں اکھڑنے دوں گا۔ کام بند ہو گیا اور اگلے دن شہر سے میونسپلٹی کے کلرک صاحب اس قضیئے کے حل کے لئے بلائے گئے

کلرک بہادر دو ڈنڈا بردار سپاہیوں کے ساتھ ہماری گلی میں وارد ہوئے اور چبوترے کی بغل میں کھڑے ہو کر یہ اعلان فرمایا کہ کار سرکار میں جو بھی مداخلت کرے گا، سرکاری مہمان بنے گا۔ اس کے ساتھ آئے سپاہیوں میں سے ایک اپنے ڈنڈے سے پیتل کی تختی کو ٹھکورے دیکر کلرک بہادر کی بات پر تصدیق لگانے لگا۔ اس وقت شاید ابا کو محسوس ہوا کہ وہ سپاہی تختی کو نہیں اس کے پردادا کی پسلیوں کو ٹھکورے دے رہا ہے اس لئے اس نے بغیر سوچے سمجھے دو ہوائی فائر کھول کے سرکار کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ درختوں پر بیٹھے کوے کائیں کائیں کرتے گاﺅں کے آسمان میں پھیل گئے۔ جب یہ کائیں کائیں تھمی تو کلرک بہادرآہستہ آہستہ ابا کے قریب آئے اور اگلے لمحے گلی میں موجود سارے مجمعے نے ایک زناٹے دار تھپڑ کی آواز سنی۔ ابا کے سر کی پگڑی گرنے سے پہلے ہی مزدوروں کے کدالوں نے اپنا کام شروع کر دیا مجھے یوں لگا جیسے وقت رک سا گیا ہو۔ ابا اپنے گال پر ہاتھ رکھے باولوں کی طرح کبھی اپنی خالی بندوق کو دیکھتا کبھی مجمعے کو۔ کلرک نے چبوترے کے ملبے سے وہ تختی اٹھائی اور ابا کے برف ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولا ”رانا مدد علی یہ گلی سرکار کی ہے، تمہارے باپ کی جاگیر نہیں۔ چاہوں تو سرکاری اہلکاروں کو اسلحے کے زور سے دھمکانے پرگرفتار بھی کرا سکتا ہوں۔ لیکن معاف کر رہا ہوں۔ جاﺅ عیاشی کرو “

وقت اور مجمع اپنے اپنے راستے پر چل پڑا۔ میں خوش ہو رہا تھا کہ جس نے ساری زندگی مجھے رلایا ہے، آج وہ روئے گا۔ میں اس انتظار میں تھا کہ کب اس کی آنکھیں چھلکیں اور میں اسے روتا دیکھ کر تالی بجاﺅں۔ لیکن وہ نہ رویا اس نے اپنی پگڑی اٹھائی اور سر جھکا کے گلی سے باہر نکل گیا۔ میں بھی اس کے تعاقب میں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ ابا کا رخ دریا کی طرف تھا۔ وہاں پہنچ کروہ کنارے پر بیٹھ گیا اور میں اس کی پشت پیچھے جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ وہ کافی دیر تک گود میں رکھی اس تختی کو دیکھتا رہا، پھر اس نے اسے اپنی پگڑی کا کفن پہنا کے دریا برد کر دیا اور ایسی چیخ ماری جو اس کی بندوق کے فائر سے زیادہ مہیب تھی۔ میں خوش ہو گیا کہ اس چیخ کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کے روئے گا اور میں جھٹ باہر نکل کے اسے کہوں گا ”رانا مدد علی، اب رونے کی حرمزدگی تم بھی نہ کرنا“۔ چند لمحے کے انتظار کے بعد بھی اس کے رونے کی آواز میرے کانوں تک نہیں آئی تو میں دبے پاﺅں جھاڑیوں سے نکلا تاکہ سامنے سے اس کے بہتے آنسو دیکھ سکوں۔ میں اس کے قریب پہنچنے ہی والا تھا کہ وہ اچانک اٹھا اور مڑا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ایک لمحے کے لئے چونکے۔ میری آنکھیں اس کی پتھر آنکھوں پر تھیں جن میں ایک آنسو بھی نہیں تھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا میری آنکھیں جھکیں اور میں نے دیکھا کہ ابا کے آنسو آنکھ کی بجائے شلوار کے راستے سے نکل رہے ہیں۔ پتھر آنکھوں والے ابا نے میرے سر پر اپنا برف ہاتھ رکھا، کرب میں لتھڑی ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی اور اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی

غوطہ خوروں نے سارا دریا چھان مارا لیکن کسی کو اس فرعون کی لاش نہیں ملی۔ جو ملی تو وہی امین العزت والی تختی۔ اس دن مجھے یوں لگا جیسے میرا فرعون نہیں ڈوبا، میری ولایت ہی ڈوب گئی ہے ۔

جاتے جاتے آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ ابا کو تھپڑمارنے والا کوئی اور نہیں، خادم میراثی کا وہی بیٹا تھا جس کی ماں کے سر پر ابا نے اپنی پگڑی کا آنچل ڈالا تھا اور میں نے جسے اپنا خاص حواری بنانے کا سوچ رکھا تھا۔۔۔ وہی شنو جھولا ۔۔۔

آپ نے کبھی فرعون دیکھا ہے؟

یقینا نہیں دیکھا ہو گا۔ لیکن یہ تو بتا سکتے ہیں کہ ہم میں سے فرعون ہے کون؟

ابا …. شنو جھولا…. یا پھر میں؟

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments