ایک مرد جو پرہیز گار نہیں، محتاط تھا


وبا کیا پھیلی، پور ے ملک میں اداسی چھا گئی۔ فیکٹریاں بند اورکاروبار ٹھپ ہو گئے۔ بازاروں میں دھول اڑنے لگی۔ روزگار کے مواقع کم ہوتے ہوتے ناپید ہو گئے۔ گھروں میں بھوک پنپنے لگی۔ بدحال گھروں کی بدحالی بڑھتے بڑھتے جنجال بن گئی۔ دکانوں سے کھانے پینے کی اشیا اٹھ کر تہہ خانوں میں دفن ہو گئیں۔ اجناس کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگیں اور انسان کی قیمت گرنا شروع ہو گئی۔ گلابو اور اس کا خاوند دونوں ہی دیہاڑی دار مزدور تھے۔ دونوں کو گھر میں بیٹھے ایک مہینہ ہو گیا تھا۔ بچہ بھوک سے بلک رہا تھا۔

شہر میں جگہ جگہ خیرات بانٹی جا رہی تھی لیکن پورا دن دھکے کھانے کے بعد کبھی کوئی ایک آدھ چیز مل جاتی ورنہ سارا دن سڑکوں پر گزار کر گلابو اور اور اس کا خاوند تھکن اور بھوک سے بد حال واپس آکر سو جاتے۔ رمضان بھی سر پر تھا۔ ان دونوں نے کبھی روزے نہیں چھوڑ ے تھے۔ ایسی بھوک میں روزے بہت مشکل لگ رہے تھے۔ رات کو گلابو نے سوچا کہ وہ اپنے پرانے مالک کے پاس واپس جا کر نوکری کی بات کرے گی۔ اس کا بہت بڑا اجناس کا سٹور تھا۔ پہلے بھی وہ اس کے پاس کام کر چکی تھی۔ آج کل وہ راشن بھی بہت بانٹ رہا تھا۔ یہ سوچ کروہ سونے کے لئے لیٹ گئی۔ لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس کے دماغ میں وہ دن گھوم رہا تھا جب وہ پہلی بار اس کے پاس گئی تھی۔

وہ اپنے دفتر میں بیٹھا تھا۔ خشخشی سی داڑھی، ہاتھ میں تسبیح اور سر پر سبز رنگ کی ٹوپی۔ وہ جب کمرے میں داخل ہوئی تو اس کو دیکھ کر میاں صاحب نے گردن جھکا کر تیزی سے تسبیح کے دانے گرانے شروع کر دیے۔

زیرلب وہ استغفراللہ استغفراللہ گنگناتا جا رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ مولوی صاحب نے نمازعشا کے بعد درس دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ عورت شیطان کے روپ میں سامنے آتی ہے اور شیطان کے روپ میں واپس لوٹتی ہے۔ گلابو جب اس کے دفتر میں آئی تو شیطان بھی اس کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا تھا۔ پتلا سا تیکھی ناک والا۔ ”اتنا خوبصورت!“ اس نے لاحول پڑھی۔ وہ دروازے سے بھاگ گیا۔ بے روزگاری بہت بڑھ گئی تھی۔ عملہ اس کے پاس پہلے ہی زیادہ تھا۔ وہ اسے کام پر نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ جب گلابو نے اپنی بپتا سنائی تو آنسو دیکھ کر اس کے دل کو ٹھیس پہنچی۔

لال سرخ گال جو رونے سے اور بھی گلاب ہو گئے اور ان پرٹپ ٹپ گرتے ہوئے موتیوں کی لڑی، وہ انکار نہ کر سکا۔ شیطان کھڑکی سے اندر جھانک رہا تھا۔ جب وہ گودام جانے کے لئے واپس مڑی تو پھر اس نے نظریں اٹھائیں۔ وہ کھڑکی پھلانگ کر اندر آگیا۔ پتلی سی کمر، موٹی سی چوٹی جس میں لمبا شیشے جڑا پراندہ بندھا ہوا تھا۔ لچکیلی کمر سرکتے ہوئے قیامت ڈھا رہی تھی۔

جب وہ قدم اٹھاتی وزنی پراندہ مخالف طرف کے کولہے سے ٹکراتا۔ کولہوں کی تھرکن، ان سے الجھتے ہوئےوزنی پراندے کے گوٹا کناری اور تلے کے رنگ برنگے پھول، دماغ کے گول طبلے پر ماہر فنکار کے ہاتھ زور سے ٹکرا رہے تھے۔ کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف۔ طبلہ نواز کی انگلیاں تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔ شیطان اس کے سامنے اپنی پسندیدہ کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ بہت سے سماجیوں نے سارنگی ہارمونیم کا لہرا بجانا شروع کردیا۔ لا حول ولاقوۃ۔ اس نے تسبیح تیزی سے گھمانی شروع کر دی۔

تسبیح کی حرکت ذرا سی تھمی۔ اس نے گلابو کو ہلکی سی آواز میں پکاراتھا، ”بات سنو! تم روزانہ جاتے وقت میرے کمرے کی صفائی بھی کرتے جایا کرو۔ اس نے اپنے دفترسے ملحق دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔“ شیطان مسکراتا ہوا کمرے کادروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ خوبصورت اور غریب عورت لڑکپن سے جوانی تک شیطان سے اتنی آشنا ہو جاتی ہے کہ اسے ہر حلیے میں پہچان لیتی ہے۔ لیکن بھوک شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

میاں جمعہ کی نماز پڑھ کر سیدھا اپنے گودام میں آیا۔ گودام میں کافی عورتیں کام کرتی تھیں۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ عورتوں کے کام کے دوران وہ ادھر نہ جائے لیکن شیطان اسے کہتا کہ وہ کام میں غفلت برتتی ہیں اور دالوں کی صفائی میں کوتاہی سے اس کی دکانداری پر حرف آتا ہے۔ اس لئے بار بار چکر لگانا پڑتا تھا۔

اس نے مزدوروں کو پورے ہفتہ کی مزدوری دینا تھی۔ جب ملازموں کو پتاہو کہ مالک آنے ہی والا ہے اور اس دن انہیں مزدوری بھی ملنی ہو تو وہ کام اور بھی تندہی سے کرتے ہیں۔ گلابو کمر جھکائے چاول چھٹ رہی تھی۔ اس کے بائیں طرف پنکھا چل رہا تھا۔ جس کی تیز ہوا کپڑوں کو ساتھ اڑا کر لے گئی تھی۔ جھکا ہوا جسم جادو جگا رہا تھا۔ کمر میاں جی کو ٹیڑھی کھیر لگ رہی تھی۔ کمر سے نیچے بھاری گوشت جمع ہو کر محراب سی بن گیا تھا۔ وہ سیدھی ہوئی توپسینے سی بھیگی قمیض کمر کے ساتھ جڑی ہوئی تھی جس سے کولہے اور نمایاں ہو گئے تھے۔ ساری کشش ان میں آگئی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ہرنی کے اس پُٹھے پر شیر کی طرح جھپٹ کر پنجے گاڑ دے۔ دل دھک دھک بج رہا تھا۔ آج ہی خطبہ جمعہ میں مولوی صاحب نے فرمایا تھا، ”انسان کی آنکھیں زنا کرتی ہیں۔“ آنکھیں بند کر لیں لیکن نظروں کے سامنے بھاری سرین ہی تھرک رہے تھے۔

وہ واپس چل پڑا، ”آج تنخواہ دفتر سے ملے گی۔ ایک ایک کر کے سب اُدھر آ جائیں۔“

گلابو نئی نئی آئی تھی۔ اس کا نام سب سے آخر میں آیا۔ تنخواہ کے ساتھ اضافی رقم دے کر بولا، ”کمرے کی صفائی کی اضافی اجرت۔“

اتنے دنوں میں وہ جان چکی تھی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ کہنے لگی مجھے ایک فیکٹری میں جاب مل گئی ہے۔ میں کل سے نہیں آؤں گی۔ وہ تقریباً بھاگتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی۔

چھ ماہ گزر چکے تھے اس بات کو۔

اب وہ پھر بے روزگار تھی اور کہیں کوئی امید بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔

وہ دفتر کے اندر پہنچی تو میاں صاحب ویسے کے ویسے ہی نظر آئے لیکن آج منہ پر ماسک پہنے ہوئے۔ اسے بہت سا راشن مل گیا۔ کہنے لگا، ”آج کل کام زیادہ ہے، اجناس بھی بہت گندی آرہی ہیں تم کل سے کام پر آجانا۔ دیکھو منہ پر ماسک پہنا کرو اور لوگوں سے بھی دور دور رہا کرو۔ یہ بہت خطرناک بیماری ہے۔“

اس دن شیطان کہیں نظر نہیں آیا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ شاید اس بار بیماری کے خوف سے وہ اپنے گھر میں رمضان آنے سے پہلے خود ہی قید ہو گیا ہے۔

ایک دن وہ کمرے کی صفائی کر رہی تھی کہ وہ اسے بیڈ پر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ یک دم واضح ہو گیا کہ یہی تو اس کا گھر ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو میا ں صاحب کھڑے تھے۔

گلابو خوفزدہ ہو کر کہنے لگی، ”میاں صاحب میں لوگوں میں بغیر ماسک کے گھلی ملی رہتی ہوں۔ آپ خود کو خطرے میں مت ڈالیں مجھے کرونا بھی ہو سکتا ہے۔“

”تم کو پتا ہے کہ کرونا سانس کے راستے ناک، منہ اور آنکھوں میں جاتا ہے۔ تم منہ نیچے کر لو۔“ ساتھ ہی اس نے گلابو کی گردن دبا کر اس کو بیڈ پر گرا دیا۔

تھوڑی دیر کے بعد واپس جاتے ہوئے بولا، ”یہ بیڈ کی چادر بھی ساتھ لیتے جانا اس میں تمہاری ناک اور منہ کی رطوبت ہوگی، کہیں اس سے مجھے کرونا نہ لگ جائے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments