جب خفیہ والوں سے واسطہ پڑا


1985ء کا سال تھا۔ میں ان دنوں بی اے کا امتحان دے کر فارغ تھا۔ وقت گزاری کے لیے واحد مشغلہ مقامی لائبریری سے نسیم حجازی کے ناول ختم کرنے کے بعد اب اگلی منزل رومانوی ناول تھے۔ محلے میں ہی رہائش پذیر میرے ایک دوست ندیم بی.ایس۔ سی کا امتحان دے کر فارغ ہوئے تھے۔ ہم دونوں کو اپنی انگریزی، خصوصاً انگلش گرائمر مزید درست کرنے کا بھوت سوار ہو گیا۔ اس ٹاسک کوعملی شکل جامہ پہنانے کے لیے شہر کے ایک معروف انگلش پڑھانے والے استاد سے ٹیوشن بھی پڑھنی شروع کر دی.

ان دنوں جون جولائی کے دن تھے۔ اور اوپر سے روزے بھی چل رہے تھے۔ ندیم ہر روز میری طرف آ جاتے اور ہم بیٹھک میں بیٹھ کر پائپ سے فرش پر پانی چھوڑ دیتے۔ فرش پر جب پانچ چھ انچ پانی کھڑا ہو جاتا تو ہم ٹھنڈے پانی میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ جاتے تاکہ روزہ بھی نہ لگے۔ اور ساتھ ساتھ انگلش کی پریکٹس بھی شروع ہو جاتی.

 درخواستیں اور خطوط لکھنے کی پریکٹس کی جاتی۔ میرے دوست کے ماموں اسلام آباد میں کسی سرکاری محکمے میں ملازم تھے۔ وہیں سے انہیں پاکستان میں موجود بیرون ممالک کے سفارت خانوں کے ایڈریسز پر مشتمل ایک ڈائریکٹری ملی۔ جو ان سے ہوتے ہوتے میرے مزکورہ دوست کے ذریعے مجھ تک پہنچ گئی.

 اب تو ہمارے ہاتھ انگریزی پکی کرنے کا نیا مشغلہ آ گیا۔ مل کر لئٹر ڈرافٹ کیا جاتا۔ ایمبیسی کا ایڈریس لکھ کر اسے پوسٹ کرتے۔ اور تھوڑے بہت ردوبدل کے وہی خط دوسرے، پھر تیسرے اور بعد ازاں ایک ایک کر کے ابتدائی طور پر کوئی تیس کے قریب سفارت خانوں کو خطوط ارسال کر دئیے گئے.  ان ممالک میں زیادہ تر یورپی ممالک شامل تھے۔ اور خاص طور پر وہ ممالک بھی جہاں زیادہ تر کمیونزم رائج تھا۔ اور وہ بعض حوالوں سے روس کے زیرِ اثر تھے. (واضح رہے کہ ان دنوں افغانستان میں روس، مجاہدین اور امریکہ برسرِ پیکار تھے)۔

جیسے پولینڈ، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ، ہنگری، آسٹریا وغیرہ بھی شامل تھے۔ مزکورہ خطوط کے متن میں ان ممالک کے ایجوکیشن سسٹم، کلچر، معاشیات اور سیاحت سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

کوئی تین ہفتے کے بعد مختلف سفارت خانوں کی جانب سے خطوط کی صورت میں رسپانس آنے لگے۔ اور اکثر نے مختلف بک لئٹس، کتابچوں اور میگزینز کی صورت میں چھپا اپنا لٹریچر بھجوانا شروع کر دیا۔

ہمارے علاقے میں سال ہا سال سے تعینات ہردلعزیز پوسٹ مین اختر شاہ صاحب ، جو محلے کے ایک ایک گھر کے پتے پر آنے والی ایوریج میل سے بخوبی واقف تھے۔ وہ الگ سے حیران تھے کہ اچانک نارمل خطوط کے علاوہ کہاں کہاں سے اس ایڈریس پر میل آنا شروع ہو گئی ہے۔ ایک دن ملاقات ہوئی تو شاہ صاحب پوچھے بنا نہ رہ سکے کہ ” خیریت تو ہے؟

ایمبیسوں سے اتنے زیادہ خطوط”۔

میں نے بھی کہا کہ

” شاہ صاحب خیریت ہے، فکر مندی والی کوئی بات نہیں”

(اللہ بخشے۔ شاہ صاحب چند سال پہلے وفات پا چکے ہیں)

میرا مشاہدہ رہا کہ اکثر ڈاکیے اپنے اپنے علاقوں میں ڈاک کے حوالے سے ہونے والی کسی بھی غیرمعمولی تبدیلی یا بات کو فوراً بھانپ لیتے تھے۔ چونکہ وہ اکثر گھروں کے سربراہوں سے بائی نیم اچھی علیک سلیک رکھتے تھے۔ اچھے اور شرم حیا رکھنے والے ڈاکیے اپنے تئیں ایک طرح سے نوجوان لڑکوں کی تربیت کے حوالے سے ان پر گہری نظر بھی رکھتے تھے۔ اب تو ایسا بالکل بھی نہیں رہا۔

بقول شوکت واسطی

شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا

ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا

اس زمانے میں سوشل رابطے کے لیے چونکہ خطوط لکھنے کا رواج عام تھا۔ ٹیلی فون کے ذرائع کم کم تھے۔ بلکہ پورے محلے کے دو چار گھروں میں ہی لینڈ لائن ٹیلی فون ہوتے تھے۔ جن پر اکثر محلے داروں کی انتہائی ہنگامی نوعیت کی بُک کی ہوئی ٹرنک کالز آتی تھیں۔ اور وہ بھی اکثر کسی حادثے یا کسی کی موت کی اطلاع دینے کے لیے۔ ورنہ ڈاک ہی رابطے کا واحد ذریعہ تھی۔ یا کسی ہنگامی صورت حال میں کوئی کوئی تار بھی بھیج دیتا تھا۔

اکثر ڈاک باہر کے ممالک اور وہ بھی خصوصاً مڈل ایسٹ کے ملکوں میں کام کرنے والوں کے خطوط اور بنیک ڈرافٹس کی صورت میں ہی آتی تھی .

پوسٹ مینوں کا مشاہدہ اور ان کی انٹیلی جنس بڑی تیز ہوتی تھی۔ سرخ اور بلیو رنگت باڈر لگے خطوط کو نظروں ہی نظروں میں تُول کر اندازہ کر لیتے تھے کہ کس کس میں ڈرافٹ ہے۔ اور پھر گھر والوں کو یہی کہتے تھے کہ آپ کا ڈرافٹ آیا ہے.

 اسی زمانے میں روایت کے مطابق اکثر گھر والے اپنے عزیز کا ڈرافٹ آنے کی خوشی میں ڈاکیے کو بھی پانچ دس روپے چائے پانی کے لیے دیتے تھے ۔

اس زمانے میں مجھے یاد ہے کہ امریکن اور جرمنی کے پاکستان میں سفارت خانے اپنے ممالک کے کلچر اور دیگر سرگرمیوں کی ترویج اور پبلسٹی کے لیے منتھلی اردو میگزین بھی شائع کرتے تھے۔ جو ڈاک کے ذریعے پاکستان میں اس کے ممبران کو فری بھجوائے جاتے تھے ۔

امریکی سفارت خانے کے میگزین کا نام “خبر و نظر” اور جرمن ایمبیسی کے میگزین کا نام “معلومات جرمنی” تھا۔ معلوم نہیں کہ اب یہ میگزین شائع ہوتے ہیں یا نہیں۔ تاہم “خبر ونظر” کا ڈیجٹل ایڈیشن تو اب بھی دستیاب ہے۔

یہ دونوں میگزین اُن دنوں باقاعدگی سے مجھے بھی آتے تھے۔ اب دیگر سفارت خانوں سے بھی گاہے بگاہے یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ تو ہم وقت گزاری کے لیے ان کا مطالعہ کرنے لگے۔ بعض ایسے کتابچے ہوتے جن کو محض دیکھنے پر ہی اکتفا کرتے۔

1985 کے ان دنوں چونکہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے عروج کا زمانہ تھا۔ ہمیں اپنی انگلش درست کرنے کی اس مشق یا شغل کو شروع کیے کوئی ڈیڑھ دو مہینے ہو چکے تھے۔ جولائی کا آخری یا اگست کا پہلا ہفتہ ہو گا۔

جب ایک دن دوپہر کے وقت ڈور بیل بجی۔ میں ہی باہر گیا تو دیکھا کہ دروازے پر سانوے رنگ اور درمیانی عمر کے دو اجنبی آدمی کھڑے ہیں۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے میرا ہی نام پکار کر پوچھا کہ ان سے ملنا ہے۔ میں نے اثبات میں جواب دیا کہ  “فرمائیے، میں ہی ہوں”.

گلی میں کھڑے دونوں مجھے ایک ہی انداز سے سر سے پاؤں تک گھورتے بلکہ تاڑتے ہوئے سپاٹ لہجے میں گویا ہوئے کہ  “کیا کہیں بیٹھ کر آپ سے بات ہو سکتی ہے”.

میں یہی سوچتے ہوئے کہ اس وقت یہ کون ہو سکتے ہیں؟ واپس مڑا اور بیٹھک کا دروازہ کھول کر انہیں اندر بٹھایا۔ اس سے پہلے کہ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھتا۔ گرمی کی شدت کا احساس کرتے ہوئے گھر کے سامنے دکان سے دو بوتلیں لا کر انہیں پیش کیں۔ چند لمحے خاموشی طاری رہی۔ پھر ان میں سے ایک نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام آباد سے ایک خفیہ ادارے کی جانب سے آئے ہیں۔ اور دوسرے صاحب یہاں مقامی ایس ایس پی آفس کی “سپیشل برانچ” سے ہیں۔ انکے یہ ابتدائی کلمات سننے کے بعد شدید گرمی کے باوجود بھی مجھے جسم میں سردی کی ایک لہر سی محسوس ہوئی۔ اور کسی انجانے خطرے کے خوف کے باعث گلہ خشک ہوتا ہوا محسوس ہوا۔

اس ابتدائی تعارف کے بعد انہوں نے مجھ سے سیدھا یہ سوال کیا کہ

“کیا میں نے پچھلے عرصے میں کسی ایمبیسی کو کوئی خط لکھا ہے؟

اب ساری بات میری سمجھ میں آنی شروع ہو گئی کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔

 اپنی اور دوست کی اس خطوط نویسی پر مبنی بیوقوفی پر پیدا ہونے والی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے میں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا کہ

” سر ایک نہیں بلکہ تیس کے قریب خطوط لکھے ہیں”۔

میرا جواب سن کر وہ چند لمحے تک حیران رہے۔ پھر توقف کے بعد بولے کہ

“کون کون سی ایمبیسی کو خط لکھے ہیں، اور کیوں لکھے ہیں؟

میں نے سچ بولتے ہوئے یہی بتایا کہ بی اے کا امتحان دینے کے بعد فارغ ہیں۔ کہیں سے سفارت خانوں کے ایڈریسز کی لسٹ مل گئی اور محض وقت گزاری اور انگلش درست کرنے کے لیے یہ مشق کی گئی ہے۔ اور کوئی ایسا ویسا مقصد نہیں تھا۔

انہوں نے سفارت خانوں کی تفصیل پوچھی۔ جو میں نے ایک ایک کر کے بتا دی۔

اس کے بعد انہوں نے مجھے کہا اگر میرے پاس سفارت خانوں کی جانب سے کوئی مواد آیا ہے تو وہ لا کر انہیں دکھاؤں۔ میں اندر گیا اور بجائے کسی اور ایمبیسی کی جانب آئے لٹریچر کے دینے کے۔ میں نے امریکن اور جرمن ایمبیسز کی جانب سے آئے کتابچے انہیں لا کر دکھائے اور باقیوں کے بارے میں کہا کہ وہ ضائع کر دیے ہیں۔

اس کے بعد وہی آفیسر مجھ سے میری کالج میں سرگرمیوں کے متعلق پوچھتے رہے کہ کس سٹوڈنٹ تنظیم کے ساتھ میرا تعلق ہے۔ اور کب سے ہے؟

ان سوالوں کے جواب نفی میں آنے کے بعد ان کا رویہ میرے ساتھ قدرے خوشگوار ہو گیا۔ اور وہ قدرے دوستانہ ماحول میں بقیہ گفتگو کرنے لگے۔

خفیہ ایجنسی کے اس آفسر نے جس اب تک سارے سوال جواب کیے تھے۔ زیرِ لب مُسکراتے ہوئے مجھے کہنے لگے کہ ہم تو تمہاری اس “سفارتی کارستانی” پر دل میں یہ امید لے کر آئے تھے کہ آج کوئی بڑا “مرغا” ہاتھ لگے گا۔ مگر تم تو شریف آدمی نکلے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انکا اپنا بیٹا بھی ایف ایس سی کا طالب علم ہے۔ اور میں تمہیں ایک ایجنسی کے اہل کار نہیں ایک باپ کی حیثیت سے کہنا ہوں کہ ایسی سرگرمیوں میں پڑنے کی بجائے اپنی تعلیم پر دھیان دیں۔ پڑھائی کے دوران کسی بھی سٹوڈنٹس تنظیم کے ساتھ تعلق نہ رکھیں۔

انہوں نے کہا کہ اب وہ میرے کالج جائیں گے اور وہاں پرنسپل سے میرے کریکٹر سے متعلق مزید اپنی تسلی کریں گے۔

ہمارے گورنمنٹ سر سید ڈگری کالج گجرات میں ان دنوں پرنسپل اردو کے معروف استاد پروفیسر رانا صفدر علی تھے۔ جو مجھے شکل سے تو پہچان سکتے تھے۔ مگر شاید نام سے نہیں۔ اس وجہ سے میں نے انہیں پیش کش کی کہ میں بھی ان کے ساتھ چلتا ہوں۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ ایسے سارے طالب علم پرنسپل اور کالج انتظامیہ کے نوٹس میں ہوتے ہیں جو کسی بھی سٹوڈنٹس تنظیم میں متحرک ہوں۔ اگر تم نہیں ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

خفیہ والے جب جانے کے لیے اٹھنے لگے تو میں نے ماحول خوشگوار دیکھ کر ان سے درخواست کی کہ مجھے اتنا تو بتاتے جائیں کہ میرے لکھے گئے خطوط کا معاملہ ان کے علم میں کیسے آیا؟

میرا سوال سن کر وہی سنیر آفسر مسکرائے اور کہا کہ

“کیا کریں گے جان کر”؟

میں نے کہا بس ایسے ہی، اپنی تسلی کے لیے پوچھ رہا ہوں۔

انہوں نے کہا عام طور پر ایسی باتیں ہم بتاتے نہیں ہیں۔ مگر اب چونکہ بہت حد تک ہماری تسلی ہو گئی ہے۔ اس لیے اتنا بتا دیتا ہوں کہ جب تمہارے بہت زیادہ تعداد میں خطوط مختلف سفارت خانوں کو جانے لگے تو متعلقہ جنرل پوسٹ آفس (جی پی او) جس کا اپنا بھی ایک انٹیلی جنس یونٹ ہوتا ہے۔ کو یہ غیر معمولی ایکٹیوٹی نظر آئی کہ ایک ہی جوابی ایڈریس سے بہت سارے خطوط مختلف ایمبیسوں کو جا رہے ہیں۔ جن میں اکثر ایمبیسیاں ایسی بھی ہیں۔ جہاں کمیونزم رائج ہے۔ اور یہ ممالک روس کے انتہائی قریب ہیں۔ اس بنا پر متعلقہ جی پی او کی جانب سے یہ معاملہ ہمارے علم میں لایا گیا۔ اور ہم ایسے افراد یا تنظیموں پر خصوصی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جو ایسے ممالک کے ساتھ ایک حد سے زیادہ رابطے میں ہوں۔

یہی میرا خفیہ والوں سے پہلا اور آخری واسطہ تھا۔ پھر کبھی ایسی مڈبھییڑ کی نوبت نہیں آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments