اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کیا حرج ہے؟


\"salim اقوام متحدہ اپنے اہداف میں کلی طور پر کامیاب نہ سہی، مگر یہ اقوام عالم کا ایک جرگہ ضرور ہے، جس کی ہر دور میں ضرورت رہی ہے۔ اگرچہ اس کے بعض رکن ممالک ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کرتے، مگربہرحال، دنیا کے نقشے پر موجود، ہر ملک اس کی رکنیت کا اہل ہے۔ اس معاملے میں، میری معلومات میں، اب تک دو مثالیں ایسی ہیں جو عجیب لگتی ہیں۔ ایک ہے کسی ملک کا کسی دوسرے ملک کی رکنیت کے خلاف دیوار بن جانا اور دوسرا ہے کسی ملک کا اقوام متحدہ کی طرف سے ازخود درخواست کے باوجود اس کی رکنیت لینے سے انکار کرنا۔

پہلی مثال افغانستان کی ہے۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو صرف افغانستان نے پاکستان کے وجود کی نفی کی اور اقوام متحدہ میں اسے نمائندگی دینے کی مخالفت کی۔ دوسری مثال بھی افغانستان کی ہے۔ جب طالبان حکومت کو رکنیت کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے انکار کردیا۔

پاکستان کی رکنیت کے اگلے برس اسرائیل کی ریاست قائم ہوگئی تو عربوںکے اتباع میں، پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور تب سے ہمارا اسرائیل سے سفارتی بائیکاٹ چل رہا ہے۔ (ہمارے تسلیم نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ملک اب کرہ ارض پر کوئی وجود ہی نہیں رکھتا۔ )

ارضِ فلسطین کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ فلسطینی آبادی تین حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ، غزہ کی پٹی ہے۔ یہ قدامت پسند لوگ ہیں جو حماس کے کنٹرول میں ہیں، ان کو آپ ہماراصوبہ خیبر پختونخواہ سمجھ لیجئے۔ پھر اس سے الگ، ایک آبادی ہے جسے ’ویسٹ بینک‘ کہتے ہیں، وہ ذرا لبرل آبادی ہے جو یاسر عرفات والی پی ایل او کے زیر انتظام ہے(اب محمود عباس اس کا صدر ہے)۔ فلسطینی آبادی کا تیسرا حصہ اسرائیل کے شہری ہیں جنہیں وہاں سب شہری حقوق حاصل ہیں۔ یہ تقریباً 15 لاکھ کی آبادی ہے جن کے پارلیمنٹ میں ارکان بھی ہیں(اسرائیلی کابینہ میں منتخب مسلمان وزیر بھی رہا ہے۔ )

اس قضیئے کے شروع میں لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں نے ہجرت کی جن میں اکثر، اردن اور مصر میں جا کر آباد ہوئے۔ برس ہا برس ان کو کیمپوں میں رکھنے کے بعد، اردن نے اکثر فلسطینیوں کو شہریت دے دی لیکن باقی کسی عرب ملک کو یہ حوصلہ نہیں ہوا۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان واحد آڑ، اردن کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے’عقبہ‘۔ سنا ہے کہ پہلے یہ سعودی عرب ہی کا حصہ تھا۔ بعد میں اسے ازخود انہوں نے اردن کو دے کراسرائیل کی ہمسائیگی سے جان چھڑا لی۔

بہرحال، ہم نے اسرائیل پراخلاقی دباو ¿ دینے کے لئے، اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اب رات گئی بات گئی۔ دنیا بدل رہی ہے، عالم عرب میں سے، مصر نے اور عالم اسلام میں سے، ترکی نے اسرائیل میں سفارت خانہ کھول دیا ہے ت وپاکستان کو اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لئے، کیا ’ حرمین شریفین‘میں استخارہ درکار ہے؟

کیا اسرائیل سے سفارتی بائیکاٹ کی وجہ اس کا ارضِ فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے؟ تو بھائی، جس ملک نے ہمارے موقف کے مطابق کشمیر پہ ظالمانہ اورغاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، اس ملک کے ساتھ تو ہمارے سفارتی تعلقات موجود ہیں۔

یہ بہلاوہ کسی اور کو دیجئے گا کہ ہم مظلوم فلسطینیوں کی محبت میں بری طرح گرفتار ہیں۔ 1970 ءمیں اردن کے مہاجر کمیپوں میں مقیم فلسطینیوں نے ناگفتہ بہ حالات کے پیش نظر، احتجاج کیا جو اردن کے ہاشمی بادشاہ حسین کی طبیعت پہ ناگوار گذرا اور اس نے وہاں مقیم پاکستانی بریگیڈئر کو یہ’شورش‘کچلنے کا حکم دیا۔ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری فوج کا ایک معتدبہ حصہ، ہر وقت ، اردن، بحرین وغیرہ جیسے ممالک میں ان کے شاہی خاندانوں کی صوابدید پر تعینات رہا کرتا ہے)۔ بہرحال، اس پاکستانی بریگیڈئر نے کتنے ہی فلسطینی بھون دیے تھے اور شاہی اعزاز پایا تھا۔ آپ جانتے ہیں وہ بریگیڈئر کون تھا؟ وہ بعد، میں مرد مومن، مرد حق، جناب جنرل ضیا الحق کہلایا۔ ( یہ محبت والا سودا، افسانوں میں ہی میں بکا کرتا ہے)۔

بجا کہ اسرائیل ہمارا دشمن ملک ہے مگر ہمارا دشمن کون نہیں ہے؟ اسی ایک خوبی میں تو ہم نے ترقی کی ہے کہ انڈیا، افغانستان یا ایران تو ایک طرف، اب دبئی بھی ہمارے مخالفین کی پناہ گاہ بلکہ مہمان خانہ بن گیا ہے۔

پھر یہ کوئی آج کی بات تھوڑی ہے؟ بھٹو دور میں عراقی سفیر کو ملک بدر کیا گیا تھا کہ عراقی سفارت خانے سے روسی اسلحہ برآمد ہوا تھا جو بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو دیا جانا تھا۔

اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس ڈر کی وجہ سے ہیں کہ پھر ان کی خفیہ ایجنسیاں ہمارے ہاں کارروائیاں کریں گی تو یہ بات ہمارے اداروں کی اہلیت پر چوٹ ہے۔ پروفیشنل مقابلے میں میدان چھوڑ دینا کیا بات ہوئی بھلا؟

ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔ طالبان کی حکومت کو اقوام عالم نے نہیں تسلیم کیا تھا مگر ہم نے تسلیم کرلیا۔ پھر اسی مسلمان پڑوسی ملک پر(جس کو ہم قانونی طور پر تسلیم کرچکے تھے)، آگ برسانے کے لئے ہم ہر اول دستہ بن بیٹھے اور عذر یہ کہ دنیا کے 134 ملکوں کا اتحاد ہے تو ہم کیونکر تنہا رہ سکتے ہیں؟ بھائی ، اگر عالمی برادری کا ساتھ دینا مجبوری ہے تو اسرائیل کو بھی تو عالمی برادری نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ یہاں ہمارا موقف کیوں بدل جاتا ہے؟

عوام کو کافی عرصہ یہ بہلاوا دیا جاتا رہا کہ یہود سے اللہ کی خاطر دشمنی ہے۔ درجنوں یہودی مصنوعات تو پاکستان میں دھڑلے سے درآمد ہورہی ہیں، للہی بغض پتہ نہیں کیا ہوتا ہے؟

خاکسار کا یہ خیال ہے کہ یوں تو اقوام عالم کی برادری میں ، ہر ایک کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ ہونا چاہیے لیکن خاص طور پر، جس غیر مسلم ملک میں مسلمان بستے ہوں، اس ملک کے ساتھ مسلمان ممالک کو ضرور سفارتی تعلقات رکھنا چاہیئں تاکہ بوقتِ ضرورت، وہاں کی مسلمان رعایا کی اخلاقی و مالی مدد کے قابل ہوں۔

چونکہ میں علمائے دیوبند کی سیاسی بصیرت اور عالمی امور پر ان کی عمیق نظر کا معترف ہوں تو خاص طور پر مولانا فضل رحمان سے پوچھنا چاہوں گا کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے میں شرعاً کیا ممانعت ہے؟

علما اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ کفار کے ساتھ دوستی اور’ ورکنگ ریلیشن شپ‘ میں کتنا بڑا فرق ہے؟ خود سرکارِ مدینہ ﷺ کے یہود کے ساتھ معاہدات کو چھوڑیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ جنگ قادسیہ میں سعد بن ابی وقاص کی فوج کا ایک دستہ عرب عیسائیوں اور یہودیوں پر مشتمل تھا؟ویسے بھی عقیدہ توحید وغیرہ میں یہود مسلمانوں کے زیادہ قریب ہیں۔ حال ہی میں جرمنی میں مسلمانوں اور یہودیوں نے ختنہ کے حق میں مشترکہ مظاہرہ کیا کہ یہ انہی دونوں مذاہب کے امتیازی شعائر کا حصہ ہے۔

یہاں ایک لطیف نکتے کی طرف بھی اشارہ کردوں۔ یہود، مغضوب من اللہ قوم ہے۔ بعض مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ یہودیت، انسانوں کے کسی گروہ کا نام نہیں بلکہ ایک صفت ہے جو’ سازش، بخل اورنسلی تفاخر‘کا مجموعہ ہے۔ اگر بات یوں ہے تو نئے سرے سے سوچنا پڑے گا کہ اصل یہودی کون ہیں جن سے بائیکاٹ کیا جائے؟

آخری بات یہ عرض کرتا ہوں کہ سعودی عرب میں اہل تشیع کو امام بارگاہ اور تہران میں اہل سنت کوجامع مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے مگراسرائیل میں احمدیوں کی ایک بڑی مسجد اور تبلیغی جماعت کے پانچ مراکز ہیں۔ (ظاہر ہے وہ احمدیوں کو مسلمانوں ہی کا گروہ سمجھتے ہیں۔ ) بات پیچیدہ ہوتی جاتی ہے۔ مختصراًعرض ہے کہ ہمیں اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ جی ہاں! ہم جمہوری لوگ ہیں اور اگرہماری پارلیمنٹ، کسی خاص ملک کے ساتھ تعلقات کے حق میں نہیں تو بسر و چشم تسلیم۔ ہم نے اپنی رائے، پارلیمنٹ کے ملاحظے کے لئے ہی پیش کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
14 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments