اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے


ہم خود سے دریافت کریں کہ نظریاتی طور ہر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس سے بھی پہلے یہ استفسار بنتا ہے کہ نظریہ کہاں کھڑا ہے۔ ہمیں ایک کامل اور منفرد نظریہ دیا گیا۔ اسی نظریہ کے ساتھ پیوست رہ کر ہمیں ایک آزاد اور خود مختار ملک بھی لے کر دیا گیا۔ لیکن کیا ہم نے اپنا فرض ادا کیا؟ آیا کہ ہم نے اس نظریہ کی تعمیر کی خاطر اپنے آباؤ اجداد کی پیش کردہ قربانیوں کا پاس رکھا؟ ہمارے نظریہ کی بربادی کا آخر ذمہ دار کون ہے؟ کیا کبھی اس پہ ہم نے سوچ و بچار کرنا گوارا کیا؟ 72 سالہ تاریخ میں کسی حکومت نے نوٹس لیا؟ کیا کسی عدالت نے سو موٹو ایکشن لیا؟

یہ سب سوال آج ہمیں خود سے کرنے ہیں نہ کہ کسی رشتہ دار، پڑوسی یا دوست سے۔ اور نہ ہی یہ سوالات کسی فارغ وقت کو بیتانے کا ذریعہ ہونے چاہئیں۔

لیکن نظریاتی کمزوری اور گراوٹ کے ردعمل میں نہ کبھی کوئی مارچ ہوا اور نہ کبھی کسی ادارے یا تنظیم نے بھوک ہڑتال کی۔ کیوں کریں۔ یہ تو ٹھہرا ایک قومی اور سرکاری مسئلہ۔ سرکار جانے اور سرکار کا کام۔ لیکن کیا اس کو بھی کبھی قومی مسئلے کی حیثیت دے کر ”نظریاتی کرپشن“ یا ”آئیڈیالوجیکل ٹیررازم“ جیسی اصطلاحات کے ساتھ منسوب کر کے ہنگامی بنیادوں پر کسی سرکار نے کوئی قانون سازی کرنے کا سوچا؟ بھلا کون کرے گا ایسا اور کیسے کرے گا۔

وہ سرکار جو خود بیچاری اپنے لئے پناہ کی متلاشی رہتی رہی ہے۔ حتٰی کہ نظریے اور سلطنت کے خلاف اٹھنے والی نام نہاد پلانٹڈ تحریکیں سرکار کے لئے درد سر بن کے رہ گئی ہیں۔ اور یہاں تو ملک بنانے والوں کے خلاف دھڑلّے کے ساتھ عجیب و غریب قسم کے فتوے داغ دیے جاتے ہیں تو نظریے کے ساتھ بھلا کسی کو کیا لینا دینا۔

کبھی خود سے نہیں پوچھا کہ نظریہ اور ملک تو چلو ایک طرف، میں رب کریم کے نیلے عرش تلے جس مٹی کی آغوش میں بیٹھا تحفظ اور سلامتی کی زندگی جی رہا ہوں اس کا کتنا قرض ہے مجھ پہ، اور میں نے بدلے میں اس کو کیا دیا ہے۔ دراصل یہ ساری باتیں ایک لڑی میں بڑے محتاط انداز میں پروئی ہوئی ہیں جس کی ابتداء نظریے سے ہی ہوتی ہے۔ بنیادیں اگر کمزور ہو جائیں تو ان پہ فلک شگاف عمارتیں اول تو دوران تعمیر ہی زمین پہ آن لگتی ہیں یا پھر کھڑی ہو بھی جائیں تو موسمیاتی و ماحولیاتی شدت کے سامنے زیادہ وقت قائم نہیں رہ پاتیں۔ اور فرض کریں اگر بنیاد مستحکم ہو لیکن عمارت کی تعمیر ناقص اور ناپائیدار ہو تو بھی نتائج مختلف نہیں ہوتے۔

بدقسمتی سے ہماری عادات، رویے اور فطرت کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ سنجیدہ اور توجہ طلب معاملات کی طرف جانے سے کتراتے ہیں۔ بے تُکی اور مہمل قسم کی تفریحات ہماری ذات اور زندگیوں کا سکون اور لازمی جزو بن چکی ہیں۔ آزادی کو اصلی معنوں میں جینے اور مطلوبہ معیار پہ قائم و دائم رکھنے کی بجائے ہم براہ راست اغیار کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے ہیں۔ قومیت اور وطنیت کے جذبات اور احساسات کو اب ایک اور اقبال اور سرسید کی اشد ضرورت پیش ہے۔

گمبھیر اور فکر انگیز قسم کے مسائل سے ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے پردہ کر لینے میں بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ کسی بھی غیر معمولی صورت حال میں ”بس دیکھا جائے گا“ اور ”خیر ہے“ جیسے جملوں کا سہارا لینا مسئلے کا سب سے بڑا حل جانتے ہیں۔ طویل عرصے سے ہم اسی روش کا شکار ہیں اور وقت کی سوئی کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ بہت سے حقائق اور ان کے ممکنہ نقصان دہ نتائج سے واقفیت ہونے کے باوجود بھی ہم بس ”ٹائم ٹپاؤ“ اصول پہ بڑے اطمینان کے ساتھ کاربند ہیں۔

اور پھر مزے کی بات یہ کہ کوئی خیرخواہ دوست اگر اس اصول کے ساکن بہاؤ میں بھلائی کا کنکر پھینک کر راہ مستقیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرے تو ہمیں شدید ناگوار گزرتا ہے۔ پھر ”میری مرضی، میرا اصول“ جیسے جوابات کی شکل میں ردعمل ملتا ہے۔ ”تم کون ہوتے ہو مجھے سمجھانے والے؟ “ وغیرہ وغیرہ۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ پھر اس بیچارے کی مفت میں کردار کشی کرنا بھی اپنا فرض اور حق سمجھ لیتے ہیں۔ ”ہوں۔ آیا بڑا میاں فصیحت۔ خود تو (۔ ) ہے، (۔ ) ہے“، فلاں فلاں۔ ایسی ناخشگوار جہالت سے لتھڑی مثالیں اور تیکھے رویے ہماری معمول کی زندگی میں گہرائی تک سرائیت کر چکی ہیں۔ بے شک اس سب کے پیچھے کوئی ایک وجہ نہیں ہے بلکہ وجوہات کا ایک طویل سلسلہ ہے۔

قبل کے ادوار میں جنگیں اور معرکے نیزوں، برچھوں، تلواروں اور گھوڑوں کے سہارے لڑے جاتے تھے۔ پھر تھوڑا سا آگے بڑھیں تو منجنیق کی ایجاد ہوئی۔ اور آہستہ آہستہ زمانہ ترقی کرتا گیا تو منجنیق سے بات بندوق، توپ، ٹینک اور جہازوں سے ہوتی ہوئی جدید ترین اسلحہ اور ایٹمی جنگوں تک پہنچ گئی۔ اس سارے عرصے میں قوموں اور ملکوں کی ایک دوسرے کے خلاف جنگی چالیں اور انداز بھی وقت کے ساتھ ساتھ جدت اختیار کرتے گئے۔ گو کہ جنگ کی انتہائی درجے کی تباہ کاریوں سے ہر ذی شعور بخوبی واقف ہے اور اس کو کسی طور بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

لیکن تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ماضی کا حصہ بن چکی تمام جنگیں جیسے تیسے کر کے ایک محدود دورانیہ کے بعد اختتام پذیر ہو گئیں۔ خیر، گزرے ادوار کو اپنے ان تمام مضمرات کے ساتھ بھی عام طور پر لوگ موجودہ دور کے مقابلے میں ”بھلا وقت“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ کیونکہ مضمرات محدود تھے۔ لیکن اب اگر ماضی کا زمانہ حال کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو صورت حال بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے۔ اب حالات نے ایسی کروٹ لے لی ہے کہ باقاعدہ کسی جنگ کے نہ ہونے کے باوجود بھی چار سُو ایک عجیب ہیجانی اور جنگ و جدل کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔

جدت جہاں اپنے ساتھ بے بہا آسانیاں لائی ہے وہیں بہت سارا پیچیدہ مشکلات اور خطرات کا سامان بھی لائی ہے۔ اب ان خطرات میں ماضی کی وہ سادگی اور قدیمیت نہیں رہی بلکہ ہر کام کے انداز حیران کن حد تک بدل گئے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ اب تباہ کاریوں کے طریقے بھی جدت اختیار چکے ہیں۔ اب جنگوں کی بھی مختلف قسمیں دریافت کر لی گئی ہیں۔ اب جنگ کرنے کے لئے دشمن آپ کو نہ للکارتا ہے اور نہ ہی باقاعدہ کوئی طبل بجاتا ہے۔

جی ہاں، اب جنگ زمینوں اور سرحدوں کی نہیں رہی۔ بلکہ بات بہت آگے تک جا چکی ہے۔ اب جنگ انسانی جسموں میں پہنچ کر ذہنوں اور سوچوں کی جنگ بن چکی ہے۔ جس نے دوسرے کو شکست دینی ہو اور مغلوب کرنا ہو وہ اس کے دماغ اور نفسیات پہ پہرا لگا دے۔ اس قوم کے خلاف ایسے ایجنڈے مرتب کیے جائیں جو کینسر کی مانند اس میں پنپنا شروع ہو جائیں۔ ان ایجنڈوں پہ مسلسل درپردہ رہ کر کام کیا جائے اور مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن سے ممکن تر بنانے میں تمام جائز و ناجائز حربوں کو کام میں لایا جائے۔

ہدف شدہ (Target) قوم کو اپنے عقائد، زبان، ثقافت، سماج اور معاشرتی نظام وغیرہ سے نہ صرف دور کرنا بلکہ ان سب عناصر کے لئے جذبات اور سوچ میں نفرت کا مادہ پیدا کر کے خلاف کر دینا کسی بھی دشمن کی اولین ترجیح اور مقصد ہوتا ہے۔ اس قوم میں لسانی اور مذہبی پھوٹ پیدا کر دی جاتی ہے۔ آج ہمارا یہی المیہ ہے کہ ہم اپنی اساس اور اصلیت کو کھو بیٹھے ہیں۔ ہم نے اپنی بنیادوں میں خود زہر گھول لیا ہے جو ہمارے اندر رچ بس گیا ہے۔

اپنی منفرد ثقافتی اور علاقائی پہچان کو چھوڑ کر مغرب کی پیروی کرنے میں اپنے لئے اعزاز سمجھنے لگے ہیں۔ دنیا کے بڑے ممالک تو ایک طرف، زیادہ دور نہ جائیں۔ اپنے آس پاس دیکھ لیں۔ مالدیپ، بھوٹان، نیپال جیسے ممالک اپنی قومی، نظریاتی اور ثقافتی پہچان برقرار رکھنے میں بہترین مثالیں ہیں۔ الحمداللّٰہ اللّٰہﷻ کا کروڑہا شکر ہے کہ ہمیں ایک آزاد اور ایٹمی قوت کی حیثیت سے اقوام عالم میں اعلٰی مقام نصیب ہوا ہے۔

پھر بھی ہم کیوں اپنے دشمن آپ ہی بنے ہوئے ہیں؟ اپنے لئے خود اندھا کنواں کھود رہے ہیں۔ یہ ملک حقیقتاً ایک بہت عظیم نعمت ہے۔ اس نعمت کا ادراک کرنے اور دل سے اس کی قدر کرنے کی آج اشد ضرورت ہے۔ یاد رکھئے! جو قوم اپنے بنیادی عناصر و عقائد میں خطرناک حد تک کمزور ہو جائے یا محروم ہو جائے تو اس کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ نظریاتی طور پر اس کو فوت اور مفتوح تصور کیا جاتا ہے۔ اور یہی اصل مقصد ہوتا ہے جدید جنگ کا اور دشمن کا۔ ایشیا اور افریقہ کے پسیماندہ حصوں میں ماضی کی انگریز استعماریت (Colonialism) اور سامراجیت (Imperialism) کو تاریخ ابھی تک بھولی نہیں ہے۔

پرانے وقتوں میں ملکوں کو فتح کر کے ان پہ حکومتیں کی جاتی تھیں اور اب ذہنی اور نظریاتی طور پر غلام بنایا جاتا ہے۔ یہ ہے زمانہ جدید کی جدید جنگ جس کو ”نظریاتی جنگ“ کی اصطلاح دی جاتی ہے۔ اور اب جنگیں روائیتی طریقہ ہائے کار سے بدل کر جدید ترین ”ہائبرڈ وار“ کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا ایسی جنگوں کے لئے خاص اور اہم ہتھیار ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک پہ یہ انفرادی فرض اور ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے لئے اور اپنی آئندہ نسلوں کے لئے اپنے نظریہ کی اہمیت کو حقیقی معنوں میں جانیں، اس کی قدر کو پہچانیں اور اس کی حفاظت میں ڈٹ جائیں۔ اور اپنی خوبصورت ماں دھرتی کی خدمت کا جذبہ ہمیشہ زندہ رکھیں۔ کیونکہ ہمارے نظریہ اور پاک دھرتی کا مضبوط تحفظ ہی ہمارے مجموعی تحفظ کی ضمانت ہے۔ ہمیں اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لینا ہو گا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments