اقبال کا اقبال بلند ہو


‏بچپن سے ابا کو اپنے آئیڈیل کے روپ میں دیکھا۔ وہ کیسے بات کرتے ہیں، کیسے اٹھتے بیٹھتے ہیں، کیا پڑھتے ہیں کیا دیکھتے ہیں۔ سب گھر والے یہاں وہاں اور ہم ابا کے ساتھ کبھی دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں طارق عزیز کا سلام لے رہے ہیں تو کبھی تجارتی خبروں میں کپاس کے نرخ اور دس گرام سونے کا بھاؤ ذہن نشین کر رہے ہیں۔ کبھی ابا کو حبیب ولی محمد، مہدی حسن اور استاد امانت علی خان کی غزلوں پر سر دھنتے دیکھ خوش ہو رہے ہیں تو کبھی کلام اقبال سنتے اور پڑھتے ان کی آنکھوں کی نمی دل کو پسیج رہی ہے۔

‏نو بجے کے خبرنامہ سے پہلے پانچ منٹ کبھی شوکت علی ”خودی کا سر نہاں“ گا رہے ہیں تو کبھی مادام نور جہاں جوش وخروش سے مومن کی نئی آن اور شان کے بارے میں رطب اللسان ہیں۔

‏یہ اقبال سے تعارف کی ابتدا تھی۔ پھر پتہ چلا کہ انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ اور یہ کہ وہ شاعر مشرق ہیں، ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے، ایک عظیم فلسفی اور اس سے عظیم مسلمان ہیں۔ انہوں نے شاعری سے مسلمانوں میں نئی روح بھی پھونکی۔ ہر تقریری مقابلہ ان کے دھاپڑ دھاڑ دلوں کو گرمانے والے اشعار کے بغیر گویا نامکمل۔ ابا کی کتابوں میں موجود بال جبریل اور ضرب کلیم پڑھی کچھ شعر بہت اچھے لگے اور اکثر سر سے گزر گئے۔

‏بڑے ہوتے گئے اور اقبال کے بارے میں مزید انکشافات ہوتے رہے۔ ان کے افکار کھوکھلے اور بودے، سر کا خطاب دراصل ان کی ملکہ برطانیہ سے عقیدت اور خوشامد کا مرہون منت، ان کے مذہبی رحجانات سے لے کر پاکستان کے قیام میں ان کے کوئی کردار نہ ہونے تک سب کچھ کھدیڑ ڈالا گیا۔ حتی کہ ان کے پوتے کی سیاسی بصیرت اور غلطیاں بھی ان کے کھاتے میں ڈال دی گئیں۔

وہی اقبال جو حکیم الامت تھے اب معتوب الامت ٹھہرے۔ دانشور حضرات کے نزدیک ان کی ہر کاوش غیر معیاری اور چربہ سازی اور منافقت کی علامت ٹھہری۔ کسی ادبی محفل سوشل میڈیا یا فورم پر اقبال کا نام تو لیں، دانشور حضرات آپ کو شدید تمسخر اور حقارت سے نہ دیکھیں تو ہمارا نام بدل دیجیے۔

‏ہم تو بس دیکھا کیے اور سنا کیے۔ نا ہم ادیب، نا فلسفی، نا دانشور اور نا ہی مصلح قوم۔ ایک عام انسان اور بس تھوڑا بہت ادب اور شاعری سے محبت کرنے والے۔ غالب نے شکوہ کیا تھا فرشتوں کے لکھے پر پکڑے جانے کا اور ہمیں یہ شکوہ کہ دوسروں کے کہے، لکھے اور مطالعہ پاکستان نے ایک اچھے بھلے شاعر کو معتوب بنا دیا۔ افکار کو غلط ثابت کرنے کے چکر میں شاعری کی معراج کو بھی ہم نے آسانی سے مٹی میں ملا دیا۔

‏یوسفی نے کہا تھا جو اپنے ماضی کو یاد نہیں کرنا چاہتا وہ یقیناً لوفر رہا ہو گا، اور یہاں یہ حال کہ جو اقبال کو پسند کرتا ہے وہ یقیناً ذہنی پسماندہ اور ڈفر رہا ہو گا۔ مگر جناب چوری چوری ”مکالمہ جبریل و ابلیس“ اور ”شکوہ“ ”جواب شکوہ“ پڑھتے اور سر دھنتے ہم نے اس ادبی قرنطینہ سے باہر آنے اور اپنی پسند پر نہ شرمانے کا فیصلہ کر لیا۔ افکار کی بحث کریں دانشور، کردار اور ذاتی زندگی کا پوسٹ مارٹم کریں تاریخ دان، ہم تو شاعری پڑھنے والے اور ”کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر“ پر سر دھننے والے۔

ہم تو اقبال کی اس سادگی پر بھی مرتے ہیں جس سے وہ عشق کی انتہا چاہتے ہیں۔ اس منہ زوری کو بھی سراہتے ہیں جو خدا سے کہتی ہے کہ ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں۔ اور ابلیس کا اپنی ذات پر وہ غرور اور طنطنہ تو مثالی ہے جس کے آگے تو خضر اور الیاس دونوں ہی بے دست و پا۔ بھلا کیا کسی شاعر نے اس خوبصورتی سے وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ بھرا؟

ہم تو مغربی مفکرین اور شعراء کی سوچ اور شاعری سے متاثر ہونے کے الزام کے باوجود بہت خوش کہ ہم اور ہمارے جیسے کئی اہل زبان اور عام قاری جن کا مغربی ادب سے براہ راست کوئی تعلق نہیں اقبال کی بدولت ہم تک وہ افکار اور خیالات ایک بہترین اور متاثر کن طریقے سے پہنچ سکے۔

عقل کو تو تنقید سے فرصت ہی نہیں۔ تو جناب! پوچھنا یہ تھا کہ پاسبان عقل کو تھوڑی دیر تنہا چھوڑ کر اقبال کی صرف شاعری سے دل لگانے کی اجازت ہے؟

ڈاکٹر عظمیٰ قدرت
Latest posts by ڈاکٹر عظمیٰ قدرت (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments