متحدہ پنجاب کی تقسیم اور قادیانی۔۔ ایک اختلافی نوٹ


\"_60770811_pak_jinnah_afp\" محترم مظہر برلاس کے روزنامہ جنگ میں مضمون (7اکتوبر، 2016) کے جواب میں \” قیام پاکستان اور جماعت احمدیہ۔۔۔ مظہر برلاس کے آدھے سچ کی تصحیح\” کے عنوان سے میرا جواب \” ہم سب\” پر شائع ہوا۔ وجاہت مسعود نے بھی ایک مضمون \”مظہر برلاس ،گورداسپور اور جماعت احمدیہ\” تحریر کیا۔ اس کے جواب میں محترم ڈاکٹر عمر فاروق احرار صاحب کا مضمون بھی \”متحدہ پنجاب کی تقسیم اور قادیانی\” اسی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ جس میں بعض \”تاریخی حوالوں\” کی مدد سے ایک رائے دی گئی۔ اب کچھ ہم بھی عرض کردیتے ہیں۔ قارئین کا حق ہے کہ وہ جس رائے کو چاہیں، درست سمجھیں۔

ڈاکٹر عمر فاروق صاحب نےسر ظفر اللہ کی باونڈری کمیشن میں \”خدمات\” کے بارے میں لکھا کہ \”وجاہت مسعود صاحب نے اپنے مضمون میں کسی مستند ماخذ کی بجائے خود ظفر اللہ خان ہی کی خود نوشت \’تحدیث نعمت\’کے طویل اقتباس نقل کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ظفر اللہ خان پر اعتراضات کی صفائی میں ان کی اپنی گواہی کی بجائے کسی غیر جانبدار ماخذ کی مدد سے اپنے کیس کو مضبوط کیا جاتا\”۔ بظاہر بڑی معقول بات ڈاکٹر عمر فاروق صاحب نے کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص خود موقع کا گواہ ہو اور معاملہ تاریخی حقائق سے تعلق رکھتا ہو، اور اس کے بیان کی واقعاتی شواہد سے تردید میسر نہ ہو تو اس کی بات کو قبول کیوں نہ کیا جائے؟

تاہم ڈاکٹر عمر فاروق صاحب کی تسلی کے لئے ایک غیر جانبدار گواہی پیش کر دیتے ہیں۔ سابق سفیر اور وزیر سید احمد سعید کرمانی باونڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے والے سنئیر وکیل سر محمد ظفر اللہ خان کے معاون وکلا میں شامل تھے ایک انٹرویو کے دوران احمد سعید کرمانی صاحب ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں۔

\”شیخ بشیر احمد وکیل تھے احمدیوں کے۔ پھر جج ہائی کورٹ میں رہے۔ وہ احمدی جماعت کے امیر تھے۔ وہ باونڈری کمیشن میں احمدیوں کی طرف سے پیش ہوئے۔انہوں\"jinnah-with-zafrullah-khan\" نے جم کے سپورٹ کیا پاکستان کو۔

سوال:باونڈری کمیشن کے سامنے؟

جواب: ہاں انہوں نے میمورنڈم پیش کیا۔ اس میں تائید کی ہوئی ہے پاکستان موومنٹ کی۔ اور کہا ہے کہ مسلمانوں کا یہ مطالبہ ٹھیک ہے۔ میں موجود تھا وہاں۔ یہ فیکٹ آف لائف ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ لیکن احمدیوں نے قیام پاکستان کی تحریک کاساتھ دیا۔ میں احمدی نہیں ہوں۔

(از انٹرویو سعید احمد کرمانی مطبوعہ قومی ڈائجسٹ اگست2002صفحہ29۔30)

ڈاکٹر عمر فاروق صاحب نے اپنے مضمون میں تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ سر ظفر اللہ خان کی وکالت عمدہ نہیں تھی ۔ اس حوالے سے مذکورہ انٹرویو میں ظفر اللہ خان صاحب کی وکالت کے بارہ میں کرمانی صاحب نے کہا کہ \”چودھری صاحب نےجو پھر بحث کی ،ایڈوکیسی کی ہسٹری میں، انڈیا کی نہیں، انگلینڈ کی نہیں، امریکہ کی نہیں، پوری دنیا میں اس کی ایک مثال نہیں۔ اور سیتل واڈا جو بعد میں انڈیا کا اٹارنی جنرل بنا وہ انڈیا کی طرف سے پیش ہو رہا تھا کانگریس کی طرف سے، اس نے کہا کہ اگر اس مقدمے کا فیصلہ دلائل کی بنیاد پر ہونا ہے توظفر اللہ خان جیت چکے ہیں۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اچھے آرگومنٹس مسلم انڈیا کی طرف سے کوئی پیش کر سکتا ہے ۔\”

ڈاکٹر عمر فاروق صاحب، احمد سعید کرمانی صاحب کی اس غیر جانبدار گواہی میں کانگریس کے حریف وکیل کی گواہی بھی شامل ہے۔

چلیں ایک اور گواہی ملاحظہ فرمالیں۔ محترم حمید نظامی صاحب مدیر نوائے وقت لکھتے ہیں

\”حد بندی کمیشن کا اجلاس ختم ہوا۔۔۔۔ کوئی چار دن سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلل ،نہایت فاضلانہ اورنہایت معقول بحث کی۔ کامیابی بخشنا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ مگر جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ ان کی طرف سے حق و انصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقہ سے ارباب اختیار تک پہنچا دی گئی ہے۔سر ظفر اللہ خان صاحب کو کیس کی تیاری کے لئے بہت کم وقت ملا، مگر اپنے خلوص اور قابلیت کے باعث انہوں نے اپنا فرض بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلا لحاظ عقیدہ ان کے اس کام کے معترف اور شکر گزار ہوں گے۔ \”  (نوائے وقت یکم اگست1947)

اس اداریے کی اشاعت کے 38 برس بعد ستمبر 1985 میں سر ظفراللہ کو انتقال ہوا تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ اس کے باوجود نوائے وقت نے اپنی \"sir-muhammad_zafarullah_khan\"3 ستمبر 1985 کی اشاعت میں ایک اداریہ لکھا۔ مجید نظامی تب نوائے وقت کے مدیر تھے اور جنرل ضیا الحق کا مارشل لا نافذ تھا۔ ستمبر 1974 کی آئینی ترمیم کو گیارہ برس گزر چکے تھے۔ اپریل 1984 کا قادیانی مخالف آرڈیننس جاری ہو چکا تھا۔ ان حالات میں نوائے وقت نے اپنے اداریے میں لکھا

\”سر محمد ظفراللہ خان طویل علالت کے بعد 93برس کی عمر میں وفات پاگئے ہیں اورانہیں آج ربوہ میں سپردِ خاک کر دیا جائے گا۔ قطع نظر اس بات کے کہ اُن کا تعلق قادیانی جماعت سے تھا اپنی طویل زندگی میں اُن کی ترقی و عروج اورخدمات و کارکردگی کے اظہارواعتراف میں تامّل و بخل سے کام لینا مناسب نہیں ہوگا۔ انگریزوں کے زمانہ میں وہ پنجاب اسمبلی، وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل اور وفاقی عدالت کے رکن رہے اور قیامِ پاکستا ن کے بعد قریبًا سات برس تک وزیرِ خارجہ رہے۔ اور اس دوران میں انہوں نے اقوامِ متحدہ میں بھی پاکستان کے مندوبِ اعلیٰ کے طور پرفرائض ادا کئے ۔ وہاں جنرل اسمبلی کی صدارت کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے علاوہ فلسطین اور کئی عرب ملکوں (مراکش، تیونس، لیبیاوغیرہ) کے حق آزادی و خود مختاری کی وکالت میں پاکستان کا نقطہ ء نظر جس انداز میں پیش کیا اُسے عرب ملکوں میں اب تک سراہا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صدرِ محترم کے علاوہ سعودی سفیر بھی اُن کی عیادت کے لئے گئے تھے۔ وزارتِ خارجہ کی سربراہی سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ عالمی عدالتِ انصاف کے رکن بن گئے اور دوسری میعاد کے لئے منتخب ہونے کے بعد اُس کے صدر بھی رہے ۔ اس دوران میں وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر بھی منتخب ہوئے ۔ قادیانی ہونے کی نسبت سے پاکستان میں اُن کے خلاف اعتراض و احتجاج کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا لیکن قاعداعظم اور پھر لیاقت علی خاں مرحوم نے انہیں بہت اہم ذمہ داریاں سپرد کیں۔ ۔۔۔ 1953ء کی اینٹی قادیانی تحریک سے قبل اسلامیانِ ہند کے قومی معاملات میں سر آغاخان کی طرح ، سر محمد ظفراللہ خاں کا حصہ و کردار بھی بہت نمایاں رہاتھا۔ 1930ء میں وہ مسلم لیگ کے صدر بھی بنائے گئے تھے اور 1931ء میں اور بعد کی گول میز کانفرنسوں میں وہ علامہ اقبال ، قائداعظم اور دوسرے اکابر کے ساتھ مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر شامل ہوتے رہے\” (اداریہ نوائے وقت 3 ستمبر1985ء)

اپنے مضمون میں ڈاکٹر عمر فاروق صاحب لکھتے ہیں، \”قادیانیوں کا روحانی مرکز قادیان بھی گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کا ایک قصبہ تھا۔قادیانی چاہتے تھے کہ قادیان ہندوستان میں شامل رہے۔\” معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب کو یہ اطلاع کس نے دی ہے کہ احمدی قادیان کو ہندوستان میں رکھنے کے خواہشمند تھے۔  National Documentation Centre Lahore نے ایک کتاب شائع کی ہے۔  The Partition of Punjab 1947 , Volume II اس کتاب کے صفحہ 240 پر باونڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کے نمائندہ وکیل شیخ بشیر احمد کا پہلا جملہ ہی یہ ہے

میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی معروضات اس معین معاملہ تک ہی محدود رکھوں یعنی قادیان کا خصوصی دعوی او ر موقف کہ اس بستی کو مغربی پنجاب { یعنی پاکستان – ناقل} میں شامل کیا جائے۔

آگے چل کر شیخ بشیر احمد کہتے ہیں ۔\"zafar-iqbal\"

قادیان اسلامی دنیا کا ایک فعال بین الاقوامی یونٹ بن چکا ہے ۔اس لئے اس یونٹ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہندوستان میں شامل ہونا چاہتا ہے کہ پاکستان میں اور ہم نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صفحہ 251

ڈاکٹر عمرفاروق صاحب نے اپنے مضمون میں جسٹس منیر کے آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ جسٹس منیر حیران رہ گئے کہ\”گورداسپور کے متعلق احمدیوں نے اس وقت ہمارے لئے سخت پریشانی پید ا کر دی\”۔ جسٹس منیر صاحب 1953کے فسادات کی تحقیقاتی عدالت کے سربراہ تھے، اس رپورٹ میں وہ خود لکھ چکے تھے۔

\”احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزام لگائے گئے ہیں کہ باونڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفر اللہ خان نے جنہیں قائد اعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیا تھا خاص قسم کے دلائل پیش کئے۔ لیکن عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خان نے گورداسپور کے معاملہ میں کی تھی۔ یہ حقیقت باونڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس معاملے میں دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے ۔چوہدری ظفر اللہ خان نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں۔ ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 209)

پاکستان ٹائمز میں چھپنے والے مضمون کے حوالے سے جسٹس منیر صاحب سے دریافت کی اجانا چاہیے تھا کہ انہوں نے 1953 میں احمدیوں پر مجلس احرار وغیرہ کے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرنے والی اپنی رائے سے کس بنیاد پر انحراف کیا۔ تاہم قارئین کے افادے کے لئے عرض ہے کہ اس حوالے سے 8 جولائی 1964 کو پاکستان ٹائمز میں جسٹس منیر صاحب کے مضمون کے بعد چوہدری محمد ظفر اللہ خان اور شیخ بشیر احمد کے وضاحتی خطوط بھی شائع ہوئے۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خان نے احمدیوں کے علیحدہ محضر نامہ پیش کرنے کے حوالے سے لکھا کہ\” اس وقت غیر مسلموں کی جانب سے پراپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ چونکہ بعض مسلمان احمدیوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے، اس لئے مسلمان اس دعوے میں سچے نہیں ہیں کہ ضلع گورداسپور میں وہ اکثریت میں ہیں کیونکہ احمدیوں کو مسلمانوں میں شمار نہ کرنے کی صورت میں ضلع گورداسپور میں مسلمان اکثریت میں نہ رہتے۔\”

باونڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کے وکیل شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے خط میں لکھا \”سکھوں کی طرف سے پیش کردہ میمورنڈم میں یہ استدلال پیش کیا گیا تھا کہ \"zafarullah-khan-faisal\"چونکہ گورو گوبند سنگھ کی جائے پیدائش گوبند گورداسپور میں واقع ہے اس لئے اس خاص امر کا لحاظ رکھنے سے مسلمانوں کی ایک اعشاریہ چار کی اکثریت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔۔۔۔ اس دعوی کو بے اثر کرنے کی غرض سے اس کے بالمقابل دعوی پیش کرنے کے لئے مسلم لیگ نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت احمدیہ کو علیحدہ محضرنامہ پیش کرنا چاہئے۔۔۔۔\”

قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ باونڈری کمیشن میں 23میمورنڈم داخل کرائے گئے تھے جن میں مسیحی برادری بھی شامل تھی۔ ملاحظہ فرمائیے

 صفحہ 474۔475The Partition of Punjab 1947 , Volume I

مسلم لیگ بٹالہ نے بھی ایک میمورنڈم کمیشن میں پیش کیا تھا جس میں سکھوں کے مقدس مقامات کی بناپر ضلع کو ہندوستان میں شامل کرنے کی دلیل کو رد کرنے کی غرض سے یہ حقیقت واضح کی گئی کہ اگر مقدس مقامات کی بنیاد پر کسی علاقے کے پاکستان یا انڈیا میں شامل ہونے کا فیصلہ ہونا ہے تو قادیان میں مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے اور اس کے مقدس مقامات وہاں موجود ہیں اور وہاں کے احمدیوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔حوالے کے لئے ملاحظہ فرمائیے

صفحہ 472The Partition of Punjab 1947 , Volume I

ان حوالہ جات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ احمدیوں نے جو الگ میمورنڈم داخل کرایا تھااس کی وجہ یہ تھی احمدیوں کو مسلمان آبادی کے ساتھ شمار کیا جائے اور اگر سکھوں کے مقدس مقامات کو زیر غور لانا ہے تو پھر گورداسپور میں احمدیوں کے مقدس مقامات بھی فیصلہ کرتے ہوئے زیر غور لائے جائیں۔

ان حوالہ جات سے یہ وضاحت ہو گئی ہو گی کہ باونڈری کمیشن میں سر ظفر اللہ خان نے جو وکالت کی اور جس بنیاد پر جماعت احمدیہ نے اپنا میمورنڈم پیش کیا ان معاملات کی بنیاد پر پٹھان کوٹ یا دوسرے علاقوں کو انڈیا میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا کہ تقسیم کس طرح کرنی ہے۔ باونڈری کمیشن کی کارروائی ایک ڈھونگ ثابت ہوئی اور پاکستان کے ساتھ انتہائی ناانصافی کی گئی۔ تاہم باونڈری کمیشن کے فیصلے کی بنیاد جماعت احمدیہ کا موقف نہیں تھا اور نہ ہی مسلم لیگ کے وکیل سر ظفر اللہ خان پر اس حوالے سے کوئی الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments