کورونا وائرس: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پر پابندی سے کون متاثر ہوسکتا ہے؟


صدر ٹرمپ

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امیگریشن پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے اور انھوں نے اس فیصلے کو کورونا وائرس کے خلاف جنگ اور نوکریوں کے تحفظ سے جوڑا ہے۔

لیکن ان کے اس اعلان سے یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس اقدام کا حقیقتاً کیا مطلب ہے اور اس پر کب عملدرآمد ہو گا۔ اور آیا امریکی صدر اس پر مکمل عملدرآمد کروا بھی سکتے ہیں یا نہیں۔

ناقدین کے مطابق امریکی حکومت اس عالمی وبا کو امیگریشن روکنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

ٹرمپ نے کیا کہا؟

امریکی صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’دکھائی نہ دینے والے دشمن کے حملے کے پیش نظر اور عظیم امریکی شہریوں کی نوکریوں کے تحفظ کے لیے میں ایک صدارتی حکم کے تحت امریکہ میں امیگریشن پر عارضی پابندی عائد کرنے کا اعلان کروں گا۔‘

https://twitter.com/realDonaldTrump/status/1252418369170501639

لیکن ٹرمپ نے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب وائٹ ہاؤس کے مطابق مشکل وقت گزر چکا ہے اور اب ملک میں کام واپس بحال ہوسکتا ہے۔

لوگوں کی نقل و حرکت پر رکاوٹوں نے امریکی معیشت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ گذشتہ چار ہفتوں کے دوران دو کروڑ شہری بے روزگار ہوگئے ہیں۔ یہ گذشتہ ایک دہائی میں کمپنیوں کی جانب سے بھرتی کیے گئے افراد جتنی تعداد ہے۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں اس وقت کووڈ 19 کے 787,000 مصدقہ متاثرین ہیں اور 42 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

کورونا بینر

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

کورونا وائرس: وینٹیلیٹر کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟

کیا ماسک آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟

کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟


امیگریشن روکنے کی تجاویز پر عملدرآمد کیسے ہوسکتا ہے؟

فی الحال یہ واضح نہیں کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے سے کون متاثر ہوگا یا یہ کب نافذ ہوگا۔ وائٹ ہاؤس نے تاحال اس پر بیان جاری نہیں کیا۔

اخبار نیو یارک ٹائمز نے اس منصوبے سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد کے بیان حاصل کیے ہیں۔ ان کے مطابق اس کی عملدرآمد کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک عارضی حکم کے ذریعے نئے گرین کارڈ اور ورک ویزا جاری ہونے سے روک دیے جائیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انتظامیہ تارکین وطن کی جانب سے امریکہ میں دائر کردہ رہائش یا کام کے اجازت نامے منظور نہیں کرے گی اور یہ ایک مخصوص وقت تک جاری رہے گا۔

گذشتہ ماہ امریکہ نے عالمی وبا کی وجہ سے تقریباً تمام ویزوں کی جانچ پڑتال روک دی تھی۔

امریکہ نے پہلے ہی کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ سرحدی پابندیوں اور غیر ضروری سفر کو کم از کم مئی کے وسط تک بڑھا دیا ہے۔

سخت سفری پابندیاں چین اور یورپ کے لیے بھی ہیں تاہم عارضی ویزے پر کام کرنے والے اور کاروبار کے لیے سفر کرنے والے اس سے مستثنیٰ ہیں۔

پیر کو امریکہ نے کہا کہ وہ کم ازکم ایک ماہ کے لیے میکسیکو کی سرحد کے ساتھ تارکین وطن کو بے دخل کرنے کا عمل جاری رکھے گا۔

حالیہ ہفتوں کے دوران میکسیکو کے ساتھ امریکی سرحد پر ایسے تارکین وطن کو بے دخل کیا گیا ہے جن کے پاس دستاویزات نہیں۔ انھیں بے دخل کرنے کے لیے ایمرجنسی اختیارات استعمال کیے گئے ہیں۔ عوامی صحت کے لیے کیے گئے اقدامات کی مدد سے امیگریشن کے قوانین کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور بے دخل کرنے کے عمل کو مزید تیز کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ میں گذشتہ سال 10 لاکھ افراد کو مستقل رہائش کی حیثیت دی گئی تھی۔ ان میں سرفہرست ممالک میں میکسیکو، چین، انڈیا، ڈومینیکن ریپبلک، فلپائن اور کیوبا شامل ہیں۔

امیگریشن

امریکہ میں کووڈ 19 کے سب سے زیادہ متاثرین ہیں

ان میں سے نصف سے زیادہ ایسے افراد تھے جن کی امریکہ میں رہائش کی حیثیت پہلے تبدیل کی جاچکی تھی۔ اس سے مراد ہے کہ وہ پہلے سے امریکہ میں موجود تھے۔ صرف 459,000 افراد بیرون ملک سے آئے تھے۔

ان میں سے دوسرا گروہ وہ ہے جو امیگریشن پر پابندی سے ممکنہ طور پر متاثر ہوسکتا ہے۔

جہاں بات تارکین وطن کی آتی ہے تو سنہ 2019 میں امریکہ نے 30 ہزار افراد کو داخل کیا تھا۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق کانگو، میانمار، یوکرین، اریتره، افغانستان اور شام شامل ہیں۔

اعلان پر ردعمل

صدر ٹرمپ کے اس اعلان پر دونوں طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے۔

پابندی پر تنقید کرتے ہوئے ڈیموکریٹک سینیٹر کمالہ حارث نے کہا ہے صدر ٹرمپ اپنا امیگریشن مخالف مؤقف دکھانے کے لیے اس وبا کا استعمال کر رہے ہیں۔

https://twitter.com/SenKamalaHarris/status/1252433848949866498

لیکن ریپبلکن پارٹی نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان میں کانگریسمین پال گوشر شامل ہیں۔

https://twitter.com/RepGosar/status/1252420280296763392

سب سے زیادہ نقصان کسے ہوگا؟

بی بی سی کے نامہ نگار برائے کاروبار جسٹن ہارپر کے مطابق امیگریشن پر پابندی سے سب سے زیادہ نقصان تیزی سے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کی صنعت کو ہوسکتا ہے۔

تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد، خاص طور پر ایشیا سے، کام کرنے کے لیے امریکہ کی سیلیکون ویلی جاتی ہے۔ میکسیکو اور چین کے علاوہ انڈیا سے ایک بڑی تعداد کارکنان کی نئی آبادی میں شامل ہوگئی ہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے عارضی پابندی کے بعد یہ ختم ہوسکتا ہے۔ ان کے فیصلے کا مقصد وائرس کا پھیلاؤ روکنا اور امریکیوں کی نوکریاں بچانا ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق امریکہ میں ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ تارکین وطن آتے ہیں۔ تاہم یہ اعداد و شمار گذشتہ برسوں کے دوران کم ہوگئے ہیں۔

سنہ 2017 میں نوکریوں کے لیے دوسرے ممالک میں سے سب سے زیادہ افراد انڈیا سے آئے تھے۔ انڈیا کے بعد فہرست میں میکسیو، چین اور کیوبا شامل ہیں۔

امیگریشن سے متعلق کمپنی نیولینڈ چیز میں لاتھا اولاوتھ کا کہنا ہے کہ: ’اس سے امریکہ کے آئی ٹی کے شعبے میں انڈیا اور چین سے آنے والوں کی امیگریشن کے لیے نقل و حرکت متاثر ہوگی۔ دنیا بھر میں ان دو ممالک کے پناہ گزین بڑی تعداد میں موجود ہیں۔‘

’چین اور انڈیا دوسرے شعبوں میں بھی شامل ہیں اور ان کی امریکہ داخلے پر پابندی سے تجارت اور معیشت متاتر ہوسکتی ہے۔‘

سوشل میڈیا

پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق آدھے سے زیادہ تارکین وطن صرف تین امریکی ریاستوں میں رہتے ہیں۔ ان میں نیویارک، ٹیکساس اور کیلیفورنیا شامل ہیں۔ کیلیفورنیا میں سیلیکون ویلی ہے جس میں گوگل، فیس بک اور سسکو جیسی بڑی کمپنیاں موجود ہیں۔

چین میں مارکیٹ ریسرچ گروپ سے منسلک شوان رین کے مطابق ’ٹرمپ کی جانب سے امیگریشن پر پابندی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر اثرانداز ہوگی جس سے وہ بہتر کام اور نئی سوچ رکھنے والے باصلاحیت لوگوں کو نوکری پر نہیں رکھ سکیں گے۔‘

’امریکہ میں رہنے اور یہاں ٹیکنالوجی کی صنعت کو بڑھانے کے بجائے یہ باصلاحیت افراد اپنے وطن واپس چلے جائیں گے اور وہاں نئی چیزیں بنا کر انھیں طاقتور بنائیں گے۔‘

امریکی کمپنیاں چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں سے مدمقابل ہیں۔ وہ علی بابا اور بائٹ ڈانس جیسی کمپنیوں کے ساتھ نئی چیزیں متعارف کرانے کی دوڑ میں ہیں۔

شوان ریڈ کہتے ہیں کہ: ’اب امیگریشن پر پابندی کے بعد چین، انڈیا اور دیگر ملکوں کے باصلاحیت افراد سیلیکون ویلی کے بجائے دوسرے عالمی مراکز میں نوکریاں تلاش کریں گے جیسے شینزین، سیول اور بنگلور۔ وہ سافٹ ویئر، ہارڈ ویئر اور سیمی کنڈکٹرز میں نئی ایجاد اور نئی سوچ کو فروغ دیں گے۔‘

جب صدر ٹرمپ نے سات مسلمان اکثریت والے ممالک کے لیے سفری پابندیوں کا اعلان کیا تھا تو ٹیکنالوجی کی کمپنیوں نے اس کی مذمت کی تھی۔

اس وقت ایپل کے سربراہ ٹِم کُک نے کہا تھا کہ: ’امیگریشن کے بغیر ایپل کا وجود ختم ہوجائے۔‘

اس میں ان کا ساتھ ایمازون کے بانی جیف بیزوس سمیت دیگر کمپنیوں کے سربراہان نے بھی دیا تھا جنھوں نے سفری پابندیوں کی مخالفت کی تھی۔

منگل کو اس اعلان سے قبل امریکی حکومت اس حوالے سے سوچ رہی تھی کہ کیسے تارکین وطن کے ملازمین کو عارضی ایچ ٹو بی پروگرام کے تحت کام کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

پالیسی سازوں پر دباؤ بڑھ رہا تھا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے امریکی شہریوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہوچکی ہے۔

ایگزیکٹو آرڈر جو عارضی طور پر تمام امیگریشن روک دیتا ہے اس میں کھیتی باڑی اور صحت کے شعبوں سے منسلک کارکنان شامل نہیں ہیں۔

ان میں وہ تارکین وطن بھی شامل نہیں ہوں گے جو پہلے سے امریکہ میں موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp