ریوڑ کی مدافعت اور بہترین کی بقا کا اصول


ٹیکنالوجی، سرمایہ اور منڈی کے تکون پر کھڑی جدید دنیا میں انسان کی حیثیت صرف صارف کی ہے۔  معاشرہ کو یہاں منڈی کہتے ہیں جس میں وہی سب سے معتبر ہے جو ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے اور سرمایہ خرچ کرتا ہے۔  لوگوں کی تعلیم، تربیت اور ذہن سازی اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ پیسے زیادہ کمانے، خرچ کرنے اور آسائش کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کو مقصد حیات بنا لیتے ہیں۔  ٹیکنالوجی کے صارفین کی مشکلات کو کم کرنے اور ان کی زندگی کو سہل بنانے کو ترقی کہا جاتا ہے۔

سال 2020ء کا آغاز ایک چیلنج کے ساتھ ہوا جس میں انسانی زندگی اور سرمایہ میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ 2019ء کے اواخر میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی وبا کا جب تک علاج دریافت نہیں ہوتا لوگوں کو ایک دوسرے سے سماجی اور جسمانی طور پر دور رکھ کر ہی اس سے بچایا جا سکتا ہے۔  دوکان سے کارخانے اور سکول سے عبادت گاہوں تک ہر جگہ تالے لگ گئے تو سماجی اور جسمانی دوری نے طرز معاشرت ہی بدل ڈالی۔

انسان کی نقل و حرکت محدود ہوئی تو صنعت کا پہیہ رک گیا اور منڈی میں پیداوار کے بھاؤ بھی گر گئے یوں 2020ء میں کووڈ۔ 19 کہلانے والی وبا پوری دنیا کے کے لئے کیچ ٹوینٹی ٹوینٹی بن گئی ہے۔ جس وائرس کو چین کے شہر ووہان سے اپنے ملکوں میں واپس جانے والے چند ہزار لوگوں کو الگ کر کے روکا جا سکتا تھا اب پورے ملک کا لاک ڈاون کرکے بھی ممکن نہ رہا۔ بادشاہ سے فقیر تک کوئی محفوظ نہیں، اب صرف وہ بچے گا جو ڈارون کے اصول بقا کے مطابق بہترین ثابت ہوگا۔

غیر معینہ مدت تک جو مہینوں سے سالوں تک محیط ہوسکتی ہے پوری دنیا کے لوگوں کو سماجی دوری میں رکھنے کے لئے لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ انسان میں بھی دیگر جانوروں کی طرح ریوڑ کی مدافعت (ہرڈ ایمیونٹی) ہوتی ہے جس میں وہ ڈارون کے دریافت کردہ بہترین کی بقاً کے اصول پر بچ سکتا ہے۔

بہترین کی بقا کے اصول کے مطابق جو کرونا کے وائرس سے اب تک جانبر نہ ہوسکے ان میں سب سے بڑی تعداد بوڑھے بوڑھوں کی ہے۔  اولڈ ایج ہاوسز اور نرسنگ ہومز میں رہنے والے بزرگوں کی سینکڑوں کی تعداد میں اموات ہوئیں جن کی لاشوں کو بقول ایک ڈاکٹر کے ٹافی بنا کر جلا دیا گیا تاکہ دوسرے ان سے پھیلنے والے وائرس سے محفوظ رہ سکیں۔  دوسرے وہ لوگ اس وائرس کا سب سے زیادہ شکار ہوئے جو پہلے سے بیمار تھے جن میں دل کے مریض، سرطان سے لڑنے والے اور گردوں کی بیماری میں مبتلا لوگ جن کی قوت مدافعت پہلے سے کمزور تھی وہ اس وائرس کا مقابلہ نہ کرسکے۔  یوں ڈارون کے بہترین کی بقا کے اصول کو نہ صرف سب نے تسلیم کیا بلکہ اسی کو تقدیر سمجھ کر قبول بھی کیا۔

یورپ اور امریکہ سمیت ترقی یافتہ دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے لوگوں اوسط عمر میں اضافہ کردیا ہے۔  لوگ آرام سے سو سال اور اس سے بھی زیادہ عرصے تک جی سکتے ہیں۔  انسانی اعضا کی مرمت اور تبدیلی کے علاوہ سرطان، دل، جگر، گردہ اور پھیپھڑے کی بیماری اب موت کی وجہ نہیں بنتی۔ بوڑھے لوگوں کی آبادی نوجوانوں کی نسبت بڑھ گئی ہے جو سرمایہ دارانہ منڈی کی معیشت میں نہ صرف کوئی حصہ نہیں ڈالتی ہے بلکہ ان کو سرکاری وسائل اور نظام حکومت پر بوجھ بھی تصور کیا جاتا ہے۔  منڈی کی معیشت میں ایسے ایسے ناکارہ لوگوں کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔

کرونا کی وبا نے ما قبل تاریخ کے دور کی یاد دلا دی جب انسان بھی دوسرے جانوروں کی مانند ریوڑ کی شکل میں رہتے تھے جس کو کنبہ یا خاندان کا نام دیا، کنبے مل کر قبیلہ تشکیل دیتے تھے اور قبیلے بقائے باہم کے اصول کے تحت زندہ رہتے تھے یا برتری ثابت کرنے کی کشمکش میں۔  بیماری، بھوک، افلاس، غربت، حوادث اور آفات میں اپنی مدد آپ اور اپنے زور پر جو بچ گیا وہ اپنی نسل آگے بڑھا پایا اور جو مقابلہ نہ کر سکے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔

معاشرتی بے رحمی، نا انصافی اور ایک دوسرے کے ہاتھوں استحصال اور ظلم و جبر سے مایوس انسان نے دین و دھرم کو بطورراہ نجات اختیار کیا تھا۔ حضرت موسیؑ سے پیغمبر آخرالزمان تک، مہا ویر سے گوتم بدھ اور مہا دیو سے شنکر اچاریہ تک سب نے روح کی مغفرت اور اتما کی مکتی کے ساتھ دنیا میں بھی جبر و ستبداد سے آزادی کی بات کی تھی۔ اساطیر میں انسان کے بہتے آنسو کسی معبد میں یا کسی معبود کے نام پر ہی پونچھے گئے۔  کچھ ہی صدیاں پہلے تک لوگ ہزاروں میل کا سفر مہینوں اور سالوں میں طے کرکے آذر بائجان کے معبد سے اٹھنے والے کبھی نہ بجھنے والی آگ کے شعلے دیکھ کر اپنے تمام مصائب بھول جاتے تھے۔  مگر اب کے ایک ایسی افتاد پڑی ہے کہ ویٹیکن، دیوار گریہ، ہری دوار اور بیت اللہ نے بھی دروازے بند کر دیے ہیں۔

ہمارے ہاں شہر، گاؤں، گلی محلے کی مساجد اور عبادت گاہیں بند نہیں کی گئی ہیں یہاں لوگ توبہ اور آفت سے نجات کی دعائیں مانگتے رہیں گے۔  مساجد کو کھولنے کے لئے مقتدر اور متولی کے درمیان بیس نکاتی معاہدہ طے پایا ہے جس کے مطابق پچاس سال سے زائد عمر کے لوگوں کا مسجد میں آنا ممنوع قرار پایا ہے۔  مگر ایک جائزے میں معلوم ہوا کہ مسجد میں آنے والے نوے فیصد لوگ ہوتے ہی پچاس سال سے زائد عمر کے ہیں۔  مسجد میں آنے والے لوگوں کو روکنے اور ان کے صحت کی تحفظ کی ذمہ داری حکومت کی ہوگی یا مسجد کی، یہ بھی طے نہیں ہوا۔

کراچی کی میمن مسجد میں لاک ڈاون کے دوران باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے سرکاری حکم ماننے سے انکار کیا گیا۔ زمانہ طالب علمی میں بتایا گیا تھا کہ کاروباری علاقے کی اس مسجد میں سب سے پہلے لاؤڈ سپیکر کا استعمال ہوا تھا۔ ابتدا میں مخالفت کے بعد لاؤڈ سپیکر کی افادیت کے تمام مکاتب فکر قائل ہوئے اورآج کوئی چھوٹی یا بڑی مسجد لاؤڈ سپیکر سے خالی نہیں۔  قومی شناختی کارڈ کے لئے تصویر پر اعتراض اور ڈش اینٹینا کی مخالفت کے بعد آج نہ صرف ہر مذہبی گروہ اور جماعت کے اپنے ٹی وی چینل ہیں بلکہ کئی مشاہیر ہم خورما ہم ثواب کے مصداق انٹرنیٹ سے تبلیغ و ترویج کے ذریعے کروڑوں ماہانہ کماتے بھی ہیں۔

دنیا برین نیٹ کے دروازے پر کھڑی ہے جہاں تصویر اور آواز کے ساتھ احساسات اور جذبات کی بھی ترسیل ہوگی۔ روایتی مخالفت کے بعد دیر و حرم میں بھی بہت جلد ابلاغ کے لئے جدید ٹیکنالوجی استعمال میں لائی جائے گی کیونکہ بہترین کی بقا کا اصول یہاں بھی لاگو ہوتا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments