مہان تخلیق کار



فنونِ لطیفہ کی عظیم دھرتی ڈیرہ اسماعیل خان نے ہر دور میں کیا کیا یگانہ روزگار ہستیاں پیدا کیں، ہر ستارہ اپنے ساتھ ایک کہکشاں لئے ہوئے ہے۔ اسی روشن کہکشاں میں عصر حاضر کا ایک چمکدار ستارہ حمزہ حسن شیخ بھی شامل ہے جس نے اپنے قلم کی روشنی سے اس کہکشاں میں مزید رنگینیاں بکھیر کے سرزمینِ ڈیرہ اسماعیل خان کو ملکی سرحدوں کے پار بھی پہچان دی۔ حمزہ حسن شیخ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی قسمت میں سوائے کامیابی کے کچھ اور لکھا ہی نہیں جاتا۔

حمزہ حسن نے کامیابی کی شہزادی کو وقت کے بہت بڑے دیو کی قید سے اپنے خیالات و کمالات اور افکار و الفاظ کے ذریعے نکا ل کر حاصل کیا ہے۔ بچپن میں بچوں کے معروف رسالے تعلیم و تربیت میں کہانیاں لکھنے والا جوان آج دنیا بھر میں اردو انگریزی میں افسانے، نظمیں، کہانیاں لکھنے والا ایک منفرد شاعر، باکمال ادیب اور بہترین افسانہ نگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جس کی تمام کتابوں نے درجنوں ملکی و غیر ملکی انعامات، اعزازی اسناد اور ایوارڈ اپنے نام کیے ۔

یہ اعزاز بھی حمزہ حسن کو ہی حاصل ہے کہ جس کی پہلی انگریزی کی نظموں کی کتاب Some Moments of Love صرف اٹھارہ سال کی عمر میں آئی اوردنیا میں ایسی دھوم مچائی کہ انگریزی ادب کے غیر ملکی شعراء نے آپ کو پاکستان کا John Keats کہہ ڈالا اور ان کی شاعری کو سادگی، خوش بیانی، وضاحت، ایمانداری اور محبت کی جدیدیت کا مکمل اظہار قرار دیا۔ مذکورہ کتاب کی نظمیں حیران کن وجدانی کیفیت سے لبریز ہیں اور ان کے ہاں عاشقانہ وارفتگی، میٹھا میٹھا درد، خواب اور خواہش ایک ساتھ نمو پا کر جو منظر تخلیق کرتے ہیں، وہ دلوں میں گھر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس کتاب کی نہ صرف پاکستان میں پذیرائی ہوئی بلکہ بھارت، انگلستان، نیوزی لینڈ اور امریکا میں بھی اس کتاب کو خوب سراہا گیا اور اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن امریکہ سے شائع ہوا۔ حمزہ حسن شیخ کی نظموں کا دوسرا مجموعہ Museum of Reminiscence بھی منظر ِ عام پر آنے کے بعد بین الاقوامی ادبی حلقوں سے پذیرائی و توصیف حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ بین الاقوامی ادیب اور انگلستان سے تعلق رکھنے والے بہت بڑے نقاد برنارڈ ایم جیکسن نے بھارت سے شائع ہونے والے جریدے میں حمزہ حسن شیخ کو ایک عظیم شاعر اور کتاب کو بین الاقوامی کتاب قرار دیا۔

اسی کتاب کا دوسرا ایڈیشن امریکہ سے شائع ہوا۔ حمزہ حسن شیخ کے سب سے پہلے ناول Thirst All Around نے اکیسویں صدی کے ناول نگاروں کی فہرست میں اپنے نام کا اضافہ کیا۔ بین الاقوامی طور پر اس ناول کی اتنی پذیرائی ہوئی کے دو سالوں میں اس ناول کے تین ایڈیشن پاکستان، بھارت اور امریکا سے شائع ہوئے۔ 2013 میں آپ کی افسانوی کہانیوں کا پہلا مجموعہ Rolling Gems منظر عام پر آیا۔ آپ انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو افسانہ بھی لکھتے ہیں اور ان کے کئی افسانے پاکستان کے معروف جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔

حمزہ حسن شیخ نے بچوں کے ادیب کے طور پر بھی بہت کام کیا ہے اور ان کو دلکش تخیلات پر بھرپور سراہا گیا ہے۔ ان کی پہلی کتاب مٹی کی خوشبو کو 2004 میں نیشنل بک فائدنڈیشن ایوارڈ اور اعزازی سند سے بھی نوازا گیا۔ 2007 میں ان کی کہانیوں کی دوسری کتاب آکاش کا جھومرمنظر عام پر آئی۔ آکاش کا جھومربھی ان کے پہلے مجموعہ کا تسلسل تھا۔ 2008 میں ان کی تیسری کتاب بن پنکھ کے پنچھی شائع ہوئی۔ حمزہ حسن شیخ نے ادب کی دنیا میں بطور مترجم بھی خوب کام کیا۔

انہوں نے اردو ادب کے نامور شعراوادباء کی تحاریر کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے پنجابی اور سرائیکی جیسی علاقائی زبانوں کے ادب کا انگریزی میں ترجمہ کرکے بین الاقوامی نقادوں اور مصنفین تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مشہور شاعرہ امرتا پریتم کی پنجابی نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور ان کی کتاب 2013 میں Splashes of Moonlight کے نام سے شائع ہوئی۔ پاکستان سے انعام و ایوارڈ اور اعزازی اسناد حاصل کرنے کے علاوہ البانیہ، لبنان اور قازقستان سے بھی ایوارڈ و اسناد حاصل کیے ۔

بین الاقوامی ادبی تنظیم سے عالمی ایوارڈ Honored Poet of Pakistan کا اعزاز بھی حاصل کر کے عالمی ادباء کی فہرست اؤل میں شامل ہو گئے۔ اپریل 2020 کے پہلے عشرے میں Fourteen Days More نامی ناول لکھ کے ایسے پہلے عالمی ادیب کے طور پر سامنے آئے جس نے کرونا جیسے موذی وائرس کو عنوان بنا کر ایک شاندار طویل ناول لکھ کے اپنی ایک اور کتاب ملکی و غیرملکی ادباء کے سامنے پیش کر کے دادِ تحسین حاصل کی۔ اتنے مختصر ترین وقت کے اندر اتنا طویل اور شاندار ناول لکھ کر، پھر بہترین مکھ پنے کے ساتھ کتاب کی شکل میں قاری کے ہاتھوں کی زینت بنے اور د ل و دماغ سے داد سمیٹے، میں تو اس کو الہامی کیفیت ہی کہوں گا۔

حمزہ حسن شیخ کے ناول، افسانے، نظمیں اور تحریریں ہمیں ایک خوبصورت اور مثالی دنیا کا وژن دیتے ہیں۔ زندگی کی مختلف جہتوں کی اتنی خوبصورت اور اتنی جامع عکاسی حمزہ حسن شیخ کے علاوہ کوئی اور کر ہی نہیں سکتا کیونکہ ان کی قلم سے نکلے ہوئے ان کے خیالات و جذبات ہمیں زندگی کی خوبصورتیوں سے روشناس کرواتے ہیں۔ جن کرداروں، جن مسائل، جس نظام، جس اخلاقی دیوالیہ پن اور جس فکری پستی کا اظہار حمزہ حسن شیخ اپنی لکھت میں کرتا ہے، ہر قاری کو یہی لگتا ہے کہ یہ تو ہمارے بارے ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہر دور کا ادب اپنے عہد کا آ ئینہ ہوتا ہے۔ کامیاب ادیب اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنی تحریروں میں اپنے اردگرد پیش رُونما ہونے والے واقعات، معاشرتی رویوں اور بدلتے رجحانات کی تہذیبی اقدار اور طرزِ زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کی بھرپور عکاسی کرسکے۔ شاید اسی لیے ادیب کو اپنے عہد کا حقیقی عکاس سمجھا جاتا ہے۔ ادیب اور قاری کا رشتہ اسی صورت میں مستحکم ہو سکتا ہے جب پڑھنے والے کو اس کی تحریروں میں اپنی زندگی کی تصویر نظر آئے اور وہ ان تحریروں کو اپنے دل کی آواز سمجھے۔ یہی تو حمزہ حسن شیخ کرتا ہے۔ حمزہ حسن شیخ کواگر عالم انسانیت کا شاعر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ ان کی تحریریں انسانوں سے محبّت کا درس دیتی ہیں، آپ کے نزدیک رنگ و نسل یا مذہب کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق نہیں کی جا سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments