کورونا وائرس: کووِڈ 19 کے علاج کے لیے دوا کب تک بن جائے گی؟


کورونا وائرس کے علاج کے لیے دوا کب تک بن جائے گی؟

اگرچہ دنیا بھر میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد کووڈ 19 کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں مگر ابھی تک ایسی کوئی دوا سامنے نہیں آئی ہے جو اس بیماری کا علاج کرنے میں ڈاکٹروں کی مدد کر سکے۔

تو فی الحال ہم کورونا وائرس کے علاج کی دوا کی تیاری سے کتنا دور ہیں؟

علاج ڈھونڈنے کے لیے کیا کام ہو رہا ہے؟

پوری دنیا میں 150 سے زیادہ ادویات پر تحقیق ہو رہی ہے۔ ان میں سے اکثر وہ ہیں جو پہلے ہی مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہو رہی ہیں اور اب وائرس کے خلاف ان کا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

  • عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ’یکجہتی ٹرائل‘ کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد قابل بھروسہ علاج کا تعین کرنا ہے
  • برطانیہ کا دعویٰ ہے کہ اس حوالے سے اس کا ٹرائل دنیا میں سب سے بڑا ہے، جس میں تاحال پانچ ہزار سے زیادہ مریض حصہ لے رہے ہیں
  • دنیا بھر میں کئی تحقیقی سینٹرز کورونا سے صحت یاب ہونے والوں کے خون سے علاج ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں

کس قسم کی دوا کام کر سکے گی؟

اس سلسلے میں تین وسیع نقطہ نظر پر کام ہو رہا ہے۔

  • اینٹی وائرل ادویات کا استعمال جو کورونا وائرس کے جسم کے اندر پھیلنے کی صلاحیت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں
  • وہ دوائیں جو مدافعت کے نظام کو بہتر حالت میں لا سکتی ہیں کیونکہ مریض اس وقت زیادہ بیمار ہوتا ہے جب اس کا مدافعت کا نظام حد سے زیادہ ردِ عمل ظاہر کرتا ہے اور اس طرح پورے جسم کو نقصان پہنچاتا ہے
  • ایسی اینٹی باڈیز جو وائرس پر حملہ کر سکیں، چاہے وہ کسی صحت یاب شخص کے خون سے لی گئی ہوں یا لیبارٹری میں بنائی گئی ہوں

کورونا وائرس کا علاج: کون سی دوا کام کر سکتی ہے؟

عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر بروس ایلوارڈ نے اپنے چین کے دورے کے بعد کہا تھا کہ ’ریمڈیسیور‘ وہ واحد دوا ہے جو وائرس کے خلاف کچھ مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
یہ اینٹی وائرل دوا اصل میں ایبولا کے علاج کے لیے بنائی گئی تھی لیکن چند دوسری بیماریوں کے لیے اس دوا کا زیادہ مفید رہا ہے۔یہ جانوروں میں دوسرے مہلک کورونا وائرس کے علاج میں بھی مؤثر ثابت ہوئی ہے جیسے مرس (مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم) اور سارس (سویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم)۔ یہی وجہ ہے کہ یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ یہ کورونا وائرس کے خلاف بھی مدد کر سکتی ہے۔یونیورسٹی آف شکاگو کی سربراہی میں کی گئی ایک تحقیق کے نتائج سے یہ سامنے آیا تھا کہ یہ دوا مؤثر ہے۔یہ عالمی ادارہ صحت کے یکجہتی ٹرائل والی چاروں ادویات میں سے ایک ہے اور اسے بنانے والی کمپنی ’جیلیڈ‘ بھی اس پر ٹرائل کر رہی ہے۔

کیا ایچ آئی وی کی دوا کورونا وائرس کا علاج کر سکتی ہے؟

اس کے متعلق کافی باتیں ہو رہی ہیں کہ ایچ آئی وی کی ادویات، لوپناویر اور ریٹوناویر، مل کر کورونا وائرس کے خلاف مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں لیکن اس کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا۔

ایسی کچھ شہادتیں ضرور ملی تھیں کہ یہ لیبارٹری میں کام کر سکتی ہے لیکن انسانوں پر کی گئی تحقیق بہت مایوس کُن ثابت ہوئی ہے۔

دونوں ادویات کے اس میل نے کورونا وائرس سے صحت یابی کے عمل کو تیز نہیں کیا، ہلاکتیں کم نہیں کیں اور کووِڈ 19 کے مریضوں میں وائرس کی شدت کو بھی کم نہیں کیا۔

تاہم یہ ضرور ہے اس کا ٹرائل بہت ہی زیادہ بیمار افراد پر کیا گیا تھا (جن میں سے تقریباً ایک چوتھائی بعد میں ہلاک ہو گئے تھے)۔ اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت دوا کے ذریعے انفیکشن روکنے میں بہت دیر ہو چکی تھی۔

کیا ملیریا کی دوا کورونا وائرس کو روک سکتی ہے؟

ملیریا کی ادویات عالمی ادارہ صحت اور برطانیہ دونوں کی آزمائشوں کا حصہ ہیں۔

کلوروکوین اور اس سے متعلقہ ہائیڈروکسی کلوروکوین میں اینٹی وائرل اور مدافعتی نظام کو سکون میں لانے کی خصوصیات ہو سکتی ہیں۔

یہ ادویات اس وقت سامنے آئیں جب یہ کہا گیا کہ یہ کورونا وائرس کا ممکنہ علاج ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا، لیکن ان کے مؤثر ہونے کے بارے میں ابھی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔

ہائیڈروکسی کلوروکوین جوڑوں کے درد کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے کیونکہ یہ مدافعت کے نظام کی نگرانی میں مدد دے سکتی ہے۔

لیبارٹری ٹیسٹ میں یہ سامنے آیا ہے کہ یہ کورونا وائرس پر اثر کر سکتی ہے اور ڈاکٹروں سے منسوب ایسی باتیں بھی کی گئی ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ مریضوں میں بہتری لاتی ہیں۔

تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان ادویات کے مؤثر ہونے کے بارے میں کوئی حتمی شواہد نہیں ملے ہیں۔

مدافعتی نظم بہتر بنانے والی ادویات سے بارے میں کیا خیال ہے؟

اگر مدافعت کا نظام وائرس کے خلاف ضرورت سے زیادہ ردِ عمل ظاہر کرے تو اس کی وجہ سے پورے جسم میں سوجن ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ مدافعتی نظام کو انفیکشن کے خلاف متحرک کرنے کے لیے تو کافی ہے لیکن اس کا بہت زیادہ استعمال پورے جسم کے لیے مہلک ہو سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا ٹرائل ’انٹرفیرون بیٹا‘ کا جائزہ لے رہا ہے۔ اس دوا کو سوجن کو کم کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ انٹرفیرون وہ کیمیکل ہیں جو جسم اس وقت خارج کرتا ہے جب اس پر وائرس کا حملہ ہوتا ہے۔

برطانیہ کا ریکوری ٹرائل ’ڈیکسا میتھاسون‘ پر بھی تفتیش کر رہا ہے۔ یہ وہ سٹیرائڈ ہے جو سوجن یا ’انفلیمیشن‘ کو کم کرتا ہے۔

کیا صحت یاب افراد کے خون سے کورونا کا علاج کیا جا سکتا ہے؟

جو لوگ انفیکشن سے بچ جاتے ہیں ان کے خون میں ایسی اینٹی باڈیز ہونی چاہیں جو وائرس پر حملہ کر سکتی ہیں۔

یہ اس طرح ہے کہ آپ خون کا پلازما لیتے ہیں (یہ وہ حصہ ہے جس میں اینٹی باڈیز ہوتی ہیں) اور وہ علاج کے طور پر بیمار شخص کے جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے۔

امریکہ میں اس سے 500 مریضوں کا علاج کیا گیا ہے اور دوسرے ممالک بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں۔

علاج کب تک مل جائے گا؟

یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ کورونا وائرس کے علاج کے لیے ہمارے پاس دوا کب آئے گی۔

لیکن ہمیں اگلے چند ماہ میں ٹرائلز کے نتائج ملنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ اس سے بہت پہلے ہو گا کہ ہمیں پتا چلے کہ کوئی ویکسین اس کے خلاف مؤثر ہے یا نہیں۔ ویکسین انفیکشن سے محفوظ رکھتی ہے، اس کا علاج نہیں کرتی۔

یہ اس لیے بھی ہے کہ ڈاکٹرز ان ادویات کو ٹیسٹ کر رہے ہیں جو پہلے ہی بنائی جا چکی ہیں اور ان کے متعلق معلوم ہے کہ یہ استعمال کے لیے محفوظ ہیں۔ جبکہ ویکسین پر تحقیق کرنے والے تو اسے نقطۂ آغاز سے ہی شروع کر رہے ہیں۔

کچھ بالکل نئی تجرباتی کورونا وائرس ادویات بھی لیبارٹری میں ٹیسٹ کی جا رہی ہیں لیکن ابھی وہ انسانوں پر تجربے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ہمیں کورونا کا علاج کیوں چاہیے؟

سب سے واضح وجہ تو انسانی جانیں بچانا ہی ہے لیکن اس سے کچھ لاک ڈاؤن کے اقدامات کم کرنے میں بھی مدد ملی سکتی ہے۔

مؤثر علاج ایک طرح سے کورونا وائرس کو ایک ہلکی نوعیت کی بیماری بھی بنا سکتا ہے۔

اگر اس سے ان مریضوں میں کمی آتی ہے جن کو وینٹیلیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے تو ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے شعبوں پر بوجھ بھی کم ہو جائے گا، اور لوگوں کی زندگیاں اتنے سخت طریقے سے کنٹرول کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ڈاکٹر مریضوں کا علاج کیسے کر رہے ہیں؟

اگر کسی کو کورونا وائرس ہو گیا ہے تو اکثر لوگوں کے لیے وہ ہلکا یا درمیانی شدت کا ہو گا جس کا علاج گھر پر آرام کرنے، پیراسیٹامول کھانے اور بہت زیادہ پانی پینے سے ہو سکتا ہے۔

لیکن کچھ لوگوں کو ہسپتال میں انتہائی علاج کی ضرورت ہوتی ہے جس میں آکسیجن سے مدد (وینٹیلیشن) بھی شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp