شہباز شریف کا انکشاف: واقعات کی روشنی میں


مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ایک گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات سے ایک ماہ قبل تک وہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ طے کیا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت بننے کے بعد کابینہ میں کن شخصیات کو شامل کیا جانا تھا۔ اسی نشست میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت ایسے رابطے عمران خان کے ساتھ بھی رہے ہوں۔ وزیر اعظم بننے کے اپنے مشن میں ناکامی کا ذمہ دار انہوں نے اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے بیانیہ ”ووٹ کو عزت دو“ کو قرار دیا۔ شہباز شریف کی اس تازہ ترین بات چیت سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ ہر صورت اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر رکھنا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف نے یہ بھی بتایا کہ دو صحافی حضرات ان کے پاس اسٹیبلشمنٹ کے پیغامات لے کر آئے تھے۔ سابق وزیر اعلیٰ کے ان انکشافات کا اگر پچھلے پانچ سات سالوں میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو اس بات میں کسی کو رتی برابر شک نہیں کہ وہ طاقتور حلقوں کے سامنے سر جھکا کر رکھنے کا نہ صرف تاثر دیتے ہیں بلکہ عملاً بھی ان کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن اگر یہ بات کی جائے کہ مقتدر قوتوں نے 2018ء کے ا لیکشن کے بعد شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا تھا تو پھر کئی سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔

الیکشن 2018ء کے پیٹرن کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ منصوبہ بندی کچھ اس نوعیت کی تھی کہ زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو آؤٹ کردیا جائے۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے بے ضرر امیر سراج الحق بھی اسی پلان کی لپیٹ میں آ گئے۔ سب سے بڑا نشانہ مسلم لیگ ن تھی جسے ہر حال میں اقتدار سے دور رکھ کر پارٹی کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کے وجود کو مٹانے کی جانب دھکیلنا تھا۔ پیپلز پارٹی کواولین مرحلے میں آن بورڈضروررکھا کیا۔ عام انتخابات سے پہلے ہی بلوچستان حکومت کا دھڑن تختہ کر کے وہاں ن لیگ اور اتحادیوں کی جگہ وہی چہرے لائے گئے جو ہر غیر جمہوری سیٹ اپ کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس ہارس ٹریڈنگ میں اوپر والوں کے اشارے پر آصف زرداری نے کھل کر اور خوب حصہ ڈالا۔ عام انتخابات کے بعد سندھ حکومت پیپلز پارٹی کو دی جانی تھی۔ یہ پہلا مرحلہ تھا اس کے بعد دوسرے مرحلے میں پارٹی قیادت کو اندر کرکے یہ حکومت بھی لوٹوں اور ارباب غلام رحیم ٹائپ لوگوں کے سپرد کی جانی تھی۔ آصف زرداری خوب استعمال ہوئے۔ سپیکر قومی ا سمبلی کا انتخاب ہویانئے وزیر اعظم کو منتخب کرنے کے لئے ووٹنگ، آصف زرداری نے ن لیگ کو بہت دور رکھنے کے لئے دل و جان سے اپنا کردار ادا کیا۔ پنجاب میں ن لیگ کا صفایا کرنے کے بعد سندھ میں پیپلزپارٹی کا دھڑن تختہ کیا جانا تھا۔

کوششیں اب تک جاری ہیں مگر ملکی سیاسی قیادت کی تمام تر مصلحتوں، بزدلی اور موقع پرستی کے باوجود سیاسی جماعتیں قائم ہیں اورہلکی پھلکی سیاست بھی ہو رہی ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں کہ جن سیاستدانوں کو مد مقابل کے طور پر ”ایک پیج“ کا سامنا ہے۔ 2014ء کے دھرنے سے لے کر اب تک کے واقعات سے یہ صاف ظاہر ہے کہ صر ف نواز شریف ہی نہیں شہبازشریف بھی ہدف تھے۔ ماڈل ٹاؤن واقعہ کے بعد (جس کے حقائق پر اب تک گہرا پردہ پڑا ہوا ہے) یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شہبازشریف وزارت اعلیٰ سے فارغ ہو جائیں گے۔ اس زبردست گھڑ مس میں وہ کسی نہ کسی طریقے سے بچ نکلے۔ مگر پیچھا کرنے والوں نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ ن لیگ کے کئی اہم رہنما اور وزراء تک یہ بتایا کرتے تھے کہ کچھ حلقوں کی کوشش ہے کہ ہم سی پیک اور اورنج لائن ٹرین کا کریڈٹ کسی صورت نہ لے پائیں۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی ہمارے خلاف ہو چکی ہے۔ ن لیگ کی حکومت کے دوران ہی ایسے کئی واقعات پیش آئے کہ جن سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اقتدار اس کی گرفت سے پھسل رہا ہے۔ پانامہ آیا تو جو تماشا لگا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ جے آئی ٹی نے نواز شریف خاندان کے اس وقت کڑاکے نکال دئیے جب وہ خود وزیر اعظم تھے۔

پی ٹی آئی ہی نہیں سرکاری خرچ پر چلنے والے دیگر سوشل میڈیا سیل اور نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات کے ایک مخصوص گروپ نے حکمران شریف خاندان کے خلاف بھر پور مہم چلائی۔ بظاہر یہ سب کچھ نواز شریف، مریم نواز، حسین اور حسن نواز کے خلاف ہو رہا تھا۔ مگر شہبازشریف فیملی کا ”انتظام“ کرنے کی تیاریاں بھی اسی رفتار سے جاری تھیں۔ جس وقت سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان اور جے آئی ٹی کے ممبران کے بارے میں اختلافی باتیں ہونا شروع ہوئیں تو اینکروں، تجزیہ کاروں اور کا لم نگاروں کے ایک پورے لشکر کو مدعو کرکے واشگاف الفاظ میں بتایا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑ ی ہے۔ شہباز شریف پر پہلے ہی ہاتھ ڈالا جا چکا تھا۔ سٹار بیوروکریٹ احد چیمہ کی گرفتاری صرف اور صرف شہباز شریف کے گرد شکنجہ کسنے کے لئے کی گئی۔ پنجاب میں الیکٹ ایبلز اور دوسری جماعتوں کے بعض مؤثر امید وار توڑنے کی حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایسا کرنے والوں نے خود کو پردہ میں نہیں رکھا۔ 2018ء میں الیکشن کی رسم ضرور ادا کی گئی مگر وفاق اور خصوصاً پنجاب کس کے حوالے کرنا ہے یہ جاننا ہر گز کوئی راز نہیں تھا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ نواز شریف کے بعدشہباز شریف کوبھی نا اہل قرار دے کر انتخابی سیاست سے آؤٹ کردیا جاتا۔ ثاقب نثار نے چکر تو شہباز شریف کے بھی خوب لگوائے مگر جھاڑ پلا کر چھوڑ دیا، شاید طے ہو چکا تھا کہ جب ان کو الیکشن ہی جیتنے نہیں دینا تو بہتر ہوگا کہ رنگ بھرنے کے لئے کم ازکم شہباز شریف تو میدان میں رہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کو جیل میں ڈالنے کے بعد ڈرامے کے اگلے ایکٹ پر عمل شروع ہوا تو شہباز شریف کو نیب کے ذریعے دھر لیا گیا۔ حالات کے دھارے اور چند دوست ممالک کی درخواست پر کچھ ریلیف ملا تو دونوں بھائی باہر چلے گئے۔ اب بظاہر کورونا بحران کے پیش نظر واپس لوٹے ہیں تو نیب نے پھر طلب کرلیا ہے۔

ن لیگ کے بارے میں سوچی سمجھی حکمت عملی یہ ہے کہ اس کے تمام متحرک اور مقبول رہنماؤں کو مقدمات میں اس بری طرح سے الجھا دیا جائے کہ وہ سیاست کرنے کی پوزیشن میں ہی نہ رہیں۔ شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، حنیف عباسی اس کی نمایا ں مثالیں ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ مریم نواز وہ دوسری شخصیت ہیں جو طاقتور حلقو ں کے لئے انتہائی ناپسندیدہ ہیں۔ دوسری جانب یہ خطرہ بھی برقرار ہے کہ مریم نوازنے بہت مختصر وقت میں سیاست میں اپنا مقام بنانے کے ساتھ ساتھ مقبولیت بھی حاصل کرلی۔ یہ اندازہ لگایا گیا کہ وہ سیاست میں جتنا متحرک ہوں گی۔ مخالفین کے لئے اتنا ہی بڑا سردرد اور چیلنج بنتی جائیں گی۔ کوئی مانے یانہ مانے یہ سچ ہے کہ خود کو لوہے کی طرح مضبوط ظاہر کرنے والا موجودہ سیاسی نظام اس قدر کمزور ہے کہ مخالف سیاستدانوں کی آزادانہ سرگرمیوں کا سامنا نہیں کر سکتا۔ اسی لئے ایک کے بعد ایک کو قابو کرکے وقتی طور پر ہی سہی کونوں میں دھکیل کر خاموش کرایا جا رہا ہے۔ لند ن سے شہبا زشریف کی واپسی سے بھی یہ تاثر گیا کہ وہ سیاست میں متحرک ہونے کے لئے آر ہے ہیں۔ یہ خبر ہے کہ ان کی واپسی کا طاقتور حلقوں میں بہت برا منایا گیا۔ اس لئے وہ اب خود پھر سے جیل جانے کے لئے بھی تیاری کررہے ہیں۔ ان حالات میں ان کا ایک بیٹا سلمان شہباز اور داماد علی عمران برطانیہ میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ان کے دوسرے بیٹے حمزہ شہباز جو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں کو کئی ماہ سے جیل میں بند رکھا گیا ہے۔ ایسے میں سوچنا کہ شہباز شریف کو کوئی بڑی پیشکش ہونے والی ہے ہر گز مناسب نہ ہو گا۔

واقعات سے ثابت ہو رہا ہے کہ پہلے بھی کوئی آفرنہیں تھی۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں انگیج رکھنا مقصود ہو۔ اگر ایسا تھا تو منصوبہ سازوں کا مشن کامیاب رہا۔ رہ گیا شہبازشریف کا یہ دعویٰ کہ دو صحافی حضرات اسٹیبلشمنٹ کے پیغام رساں بن کر ان کے پاس آئے تھے تو یہ بھی عجیب و غریب ہے۔ ایسا نہیں کہ صحافی کبھی پیغام رساں نہیں بنے یا بن نہیں سکتے بلکہ اصل نکتہ تو یہ ہے کہ شہباز شریف او ر ان کے صاحبزادے سلمان شہباز جن صحافیوں کو عزیز رکھتے ہیں انہیں جمہوری معاشرے میں صحافی نہیں کچھ اور کہا جاتاہے۔ ان کی باتوں کا اعتبار کوئی احمق بھی نہیں کر سکتا۔ شہباز شریف جیسا تجربہ کا راور زیرک سیاستدان ان کے دام میں کیسے آ سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف کی تازہ ترین گفتگو زیب داستان کے لیے ہے تا کہ پارٹی کے لوگ اور ووٹر مطمئن رہیں کہ چھوٹے میاں صاحب کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ رہ گیا کورونا وباء کا متحد ہو کر مقابلہ کرنے کا نعرہ تو اس میں کوئی وزن نہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بحران سے نئی راہیں کھلیں گی اور سرخرو ہو کر نکلیں گے۔ ہماری ملکی تاریخ بحرانوں سے بھری پڑی ہے۔ منتخب وزیر اعظم قتل، ایک کو پھانسی، ملک ٹوٹ گیا، بد ترین سیلاب، قیامت خیز زلزلہ، بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر جاناوغیر ہ وغیرہ، ہر بحران کے بعد حالات پہلے سے بھی بد تر ہوتے گئے۔ ہم نے صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے 80 ہزار اہلکار اور شہری قربان کر دئیے۔ اتنی ہلاکتیں تو کسی بڑی جنگ میں بھی نہیں ہوتیں۔

ایک پیج والے ایک پیج پر ہی ہیں۔ مشکل تب آتی ہے جب کو ئی وہاں سے فارغ ہو جائے یا فارغ ہونے والا ہو۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو ہی دیکھ لیں ریٹائرمنٹ کے بعد پی ٹی آئی کے وزراء نے ان کے زیادہ لتے لیے۔ اسی طرح جب چیف جسٹس آصف کھوسہ کی ریٹائرمنٹ قریب آئی تو انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے قانون کا معاملہ اٹھا دیا۔ بعض حلقوں کے مطابق وہ بھی اپنی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے مگر ان کا کام ختم ہو چکا تھا۔ باقی رہ گئے عام شہری تو ان کے لئے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ تیل کی قیمت جتنی بھی گر جائے۔ کورونا کے باعث خواہ کتنی ہی عالمی امداد کیوں نہ ملے، سارا جوس اوپر ہی چوس لیا جائے گا۔ جو سیاستدان اس امید پر بیٹھے ہیں کہ درخواست جمع کرکے ملازمت لیں گے ان کے لئے بہتر ہو گا اب کوئی اور کام ہی ڈھونڈ لیں، سیاست ان کے بس کی بات نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی شہباز شریف سے بری طرح خائف ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ کہیں ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان صلح صفا ئی نہ ہو جائے، اسی لئے عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ شہباز شریف، نواز شریف سے زیادہ خطر ناک ہیں اور شیخ رشید بھی اسی طرح کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو پوری تسلی رکھنی چاہیے شہباز شریف کا نام اگر کسی جانب سے استعمال ہو رہا ہے تو صرف انہیں ڈرانے کے لئے ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جو ”کارکردگی“ ہے اس کے بعد عمران تو کیا بزدار کو بھی کوئی خطرہ نہیں، دونوں کے محافظ ایک ہیں۔ اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے لئے ایک ہی پیغام ہے کہ سیاست چھوڑ دیں، کیونکہ اس کے تمام کاپی رائٹس مخصوص کر دئیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments