کورونا وائرس: انڈیا میں کووِڈ-19 سے ہونے والی پہلی موت سے جڑے تنازع کی پراسرار کہانی


انڈیا، کورونا وائرس

محمد حسین صدیقی کی زندگی کی آخری تصویر جس میں وہ حیدرآباد ایئرپورٹ کے باہر گلدستہ وصول کر رہے ہیں

اپنی آخری تصویر میں محمد حسین صدیقی کو ایک اونی ٹوپی اور بھوری شیروانی پہن کر کیمرے کی جانب تکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ فروری کا آخری دن ہے اور حسین صدیقی ابھی ابھی ایک ماہ بعد سعودی عرب میں مقیم اپنے بیٹے کے پاس سے واپس لوٹے ہیں جو جدہ میں دانتوں کے ڈاکٹر ہیں۔

76 سالہ اسلامی عالم اور جج واضح طور پر تھکے ماندے محسوس ہو رہے ہیں۔ نیم دلانہ سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ جنوبی انڈیا کے شہر حیدر آباد کے ایئرپورٹ کے باہر اپنے خاندانی ڈرائیور سے پھولوں کا گلدستہ وصول کر رہے ہیں۔

وہ اپنی شیورلے گاڑی میں سوار ہوتے ہیں اور 240 کلومیٹر دور پڑوسی ریاست کرناٹک کے شہر گلبرگہ میں اپنے گھر کو روانہ ہو جاتے ہیں۔

وہ کھانے اور چائے کا وقفہ لیتے ہیں اور چار گھنٹے طویل اس سفر میں قلعوں اور کپاس کے کھیتوں کے پاس سے گزرتے رہتے ہیں۔

ان کے سب سے بڑے بیٹے حامد فیصل صدیقی نے مجھے بتایا: ’میرے والد نے کہا کہ وہ ٹھیک ہیں۔ وہ میرے بھائی اور ان کے خاندان کے ساتھ ایک ہفتہ بتانے کے بعد کافی اچھے لگ رہے تھے۔ انھوں نے ہمارے بارے میں پوچھا۔‘

مگر 10 دن بعد ان کی کی ہلاکت ہو گئی اور یہ کووِڈ 19 کے سبب انڈیا کی پہلی باضابطہ ہلاکت تھی۔

کورونا بینر

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

دنیا میں کورونا کے مریض کتنے اور کہاں کہاں ہیں؟

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس: مختلف ممالک میں اموات کی شرح مختلف کیوں؟

کورونا وائرس: وینٹیلیٹر کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں

کیا ماسک آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟


اپنی واپسی کے ہفتے کے اندر اندر انھوں نے بیمار محسوس کرنا شروع کیا۔ تین دن بعد وہ ہلاک ہو گئے۔ وہ ایمبولینس میں سانس لینے میں تکلیف محسوس کر رہے تھے۔

ان کے گھبرائے ہوئے خاندان کے افراد انھیں دو دن کے اندر دو شہروں اور چار ہسپتالوں میں لے جا چکے تھے۔ چار ہسپتالوں سے مسترد کیے جانے کے بعد وہ پانچویں ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہلاک ہو گئے اور ہسپتال پہنچنے پر انھیں مُردہ قرار دیا گیا۔

صدیقی کی ہلاکت کے ایک دن بعد حکام نے اعلان کیا کہ ان کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

ان کے بیٹے نے مجھے بتایا ’ہم اب بھی نہیں مانتے کہ ان کی ہلاکت کووِڈ 19 سے ہوئی ہے۔ ہمیں تو ابھی تک ان کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ بھی نہیں ملا ہے۔‘

کئی انداز سے ان کے والد کی ہلاکت کی کہانی انڈیا میں کووِڈ-19 کے مریضوں کے علاج میں موجود افراتفری اور بوکھلاہٹ کی عکاسی کرتی ہے۔

گلبرگہ میں اپنے دو منزلہ گھر واپسی پر صدیقی کی طبعیت ٹھیک تھی۔ وہ وہاں اپنے سب سے بڑے بیٹے اور ان کے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔

انڈیا، کورونا وائرس،

محمد حسین صدیقی سعودی عرب سے انڈیا واپس آتے ہی بیمار پڑے گئے تھے

انھوں نے پانچ سال قبل کام کرنا بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد ان کی اہلیہ کینسر سے ہلاک ہو گئی تھیں۔ ان کے دوستوں نے بتایا کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے دفتر کے کمرے میں گزارتے جس کے شیلف کتابوں سے بھرے ہوتے۔ وہ سب سے بڑی مقامی مسجد کے رکھوالے تھے۔ ان کے ایک دوست غلام غوث نے کہا کہ ’وہ ایک سخی اور علم رکھنے والے شخص تھے۔‘

انھوں نے سات مارچ کی رات کو شکایت کی کہ وہ اپنی طبعیت ٹھیک محسوس نہیں کر رہے۔ اگلی صبح وہ جلدی اٹھ گئے اور شدت سے کھانسنے اور پانی مانگنے لگے۔

ان کے 63 سالہ مقامی خاندانی ڈاکٹر فوراً وہاں پہنچے، انھیں ٹھنڈ لگنے کی دوائی دی اور چلے گئے۔

ان کی کھانسی شدید ہوتی گئی اور انھیں ساری رات دورے پڑتے رہے۔ اب انھیں بخار بھی تھا۔

نو مارچ کی صبح کو ان کا خاندان انھیں گلبرگہ میں ایک نجی ہسپتال لے گیا جہاں انھیں 12 گھنٹے زیرِ مشاہدہ رکھا گیا۔

یہاں سے یہ کہانی الجھاؤ کی شکار ہو جاتی ہے۔

نجی ہسپتال کے ڈسچارج نوٹ میں لکھا گیا کہ صدیقی کو دونوں پھیپھڑوں میں نمونیا ہے۔ اس کے علاوہ معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے لکھا کہ انھیں بلند فشارِ خون بھی ہے۔ ڈاکٹر نے انھیں حیدرآباد میں ہی ایک اور ہسپتال کی جانب ’مزید جانچ‘ کے لیے ریفر کر دیا مگر کووِڈ 19 کے مبینہ حملے کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔

گلبرگہ، انڈیا، کورونا وائرس

گلبرگہ اپنے قلعوں کی وجہ سے مشہور ہے

لیکن ان کی ہلاکت کے بعد انڈیا کی وزارتِ صحت کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ گلبرگہ کے ہسپتال نے ان کی ’کووِڈ-19 کے مشتبہ مریض‘ کے طور پر ان کی ’ابتدائی تشخیص‘ کی تھی۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدیقی سے ہسپتال میں ایک سویب نمونہ لیا گیا اور اسے 570 کلومیٹر دور بنگلور میں وائرس کے تجزیے کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔

اس کے بعد بیان میں مریض کو گلبرگہ کے ہسپتال سے لے جانے پر الزام کا بوجھ ان پر ڈال دیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کیے بغیر (مریض کے) لواحقین نے (انھیں لے جانے پر) اصرار کیا اور مریض کو طبی مشورے کے برخلاف ہسپتال سے فارغ کیا گیا اور لواحقین انھیں حیدرآباد کے ایک نجی ہسپتال لے گئے۔‘

ان کے بیٹے حامد کہتے ہیں کہ ’ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں اس کا الزام کیوں دیا جا رہا ہے۔ اگر انھوں نے ہمیں ہمارے والد کو یہاں رکھنے کے لیے کہا ہوتا تو ہم انھیں کسی مقامی سرکاری ہسپتال ہی لے جاتے۔ ہم نے وہی کیا جو نجی ہسپتال نے ہم سے کہا اور ہمارے پاس اس کا ثبوت موجود ہے۔‘

مگر میں نے ضلعے کے جن سینیئر حکام سے بات کی، انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے خاندان سے کہا تھا کہ وہ مریض کو کووِڈ-19 وارڈ قرار دیے گئے ایک مقامی سرکاری ہسپتال لے جانے پر راضی ہوجائیں۔ مگر ایک افسر نے کہا کہ ’خاندان والے انھیں [کہیں اور] لے جانے کے لیے بضد تھے۔‘

10 مارچ کی شام کو صدیقی کو ایک سٹریچر پر ڈال کر ایک ایمبولینس میں رکھا گیا جہاں طبی عملے کے ایک رکن نے انھیں آکسیجن اور ڈرپ لگائی۔ ان کے بیٹے، بیٹی اور داماد اس موقع پر موجود تھے۔

وہ ساری رات کے سفر کے بعد اگلی صبح حیدرآباد پہنچ گئے۔

وہاں وہ صدیقی کو علاج کے لیے ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال تک لے جاتے رہے۔

ایک نیورولوجی کے کلینک نے انھیں داخل کرنے کے بجائے حیدرآباد کے ایک سرکاری ہسپتال ریفر کر دیا گیا جس میں کووِڈ 19 کے لیے ایک وارڈ قائم کیا گیا تھا۔ خاندان نے وہاں ایک گھنٹے تک انتظار کیا۔ خاندان کے ایک رکن نے کہا کہ ’کوئی ڈاکٹر نہیں آیا، کوئی بھی نہیں آیا، چنانچہ ہم دوبارہ چل پڑے۔‘

صدیقی تپتی ہوئی ایمبولینس میں بے چینی سے تڑپتے رہے۔

اس کے بعد وہ انھیں ایک اور ہسپتال لے گئے۔

ڈاکٹروں نے ان کا ایک دو گھنٹے کے لیے معائنہ کیا۔ انھوں نے نوٹ کیا کہ مریض ’دو دن سے کھانس رہے تھے اور انھیں دو دن سے سانس میں رکاوٹ کی شکایت تھی۔‘

انھیں پیراسیٹامول دی گئی، نیبولائز کروایا گیا اور ڈرپ لگائی گئی۔ اس کے بعد انھوں نے ’مزید معائنے کے لیے داخل‘ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

مگر ہسپتال نے اپنے ڈسچارج نوٹ میں لکھا کہ ’مریض کے لواحقین انھیں مزید معائنے کے لیے داخل کرنے پر رضامند نہیں ہوئے، باوجود اس کے کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ اس سے (مریض کو) کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔‘

اس بارے میں بھی خاندان کا یہ کہنا ہے کہ یہ درست نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس ہسپتال نے انھیں کہا کہ ’مریض کو واپس سرکاری ہسپتال لے جائیں، وہاں کورونا کا ٹیسٹ کروائیں، اور پھر واپس آئیں۔‘

خاندان کے ایک رکن نے کہا، ’ہم اتنے پریشان تھے کہ ہم وہاں سے چلے گئے اور گلبرگہ واپس آنے کا فیصلہ کیا۔‘

جب اگلے دن صبح ایمبولینس گلبرگہ واپس پہنچی تو صدیقی نے سانس لینا بند کر دیا تھا۔ سڑک پر 600 کلومیٹر سے بھی زیادہ کا سفر طے کرنے کے بعد آخر وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔

انڈیا، کورونا وائرس،

محمد حسین صدیقی کے گھرانے اور دوستوں نے انھیں ایک گرم جوش اور سخی شخص قرار دیا

ان کی ہلاکت پر سرکاری رپورٹ میں لکھا گیا کہ ’علامات ظاہر ہونے کے دن سے لے کر اپنی ہلاکت تک مریض نے کسی سرکاری ہسپتال کا دورہ نہیں کیا۔‘

ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ اگلے دن ہمیں ’ٹی وی سے معلوم ہوا کہ ہمارے والد انڈیا میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے پہلے فرد بن گئے ہیں۔‘

دن کے وقت انھوں نے انھیں خاندانی قبرستان میں خاموشی سے دفنا دیا۔

صدیقی کی وفات سے اب تک گلبرگہ میں 20 سے زائد متاثرین کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ دو مزید افراد کووِڈ-19 سے ہلاک ہوئے ہیں۔ صدیقی کی 45 سالہ بیٹی اور ان کے خاندانی ڈاکٹر میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ اب وہ دونوں صحتیاب ہوچکے ہیں۔

1240 سے زیادہ افراد گھروں اور ہسپتالوں میں آئسولیشن میں موجود ہیں جبکہ پیر کی صبح تک کُل 1616 نمونوں کی جانچ کی جا چکی ہے۔

صدیقی نے اس بدقسمت رات اپنے بیٹے سے ایمبولینس میں کہا تھا، ’مجھے پانی پلاؤ، مجھے پیاس لگ رہی ہے۔ مجھے گھر لے چلو۔‘

ان کا خاندان گھر پہنچ گیا، لیکن وہ کبھی نہیں پہنچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp