کورونا وائرس – فرانس اور پاکستان


پاکستان میں کورونا وائرس کے حوالے سے جو رپورٹس اور اعداد و شمار حکومت کی طرف سے آ رہے ہیں اس پر ہم مکمل طور پر اعتبار نہیں کر سکتے کیوں کہ پاکستان میں کرونا ٹیسٹنگ کپیسٹی بہت کم ہے۔ پاکستان اس وقت ایک دن میں صرف 3 ہزار سے 4 ہزار تک کورونا ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو کہ بہت کم ہے۔ اس لئے بہت سے مریض جو بیمار بھی ہیں لیکن ان کو اپنے بیماری کے حوالے سے معلوم نہیں۔

بہت زیادہ مریض گھروں پر ہیں۔ اور وہ اپنے خاندان کے دوسرے لوگوں کو بھی یہ بیماری پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہاں تک کہ قابلِ بھروسا اعداد و شمار اور بہت ساری ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ کے باوجود، آپ جو کچھ ریکارڈ کرتے ہیں اور جو کچھ زمین پر ہورہا ہے اس میں کہیں نہ نہیں فرق رہ جاتا ہے۔ علامات ظاہر ہونے اور ہسپتال میں داخل ہونے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے نئے انفیکشن کو شناخت کرنا اور روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں یعنی خاموش کیریئرز۔ اس وقت ہمیں قابلِ اعتماد اعداد و شمار کی ضرورت ہے کہ کتنے لوگ، کہاں اور کیسے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس لیے صرف اور صرف احتیاط ہی ہم کو اس بیماری سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ احتیاط ہم صرف سوشل ڈسٹنس کی وجہ سے ہی کر سکتے ہیں۔ چاہے مارکیٹ ہو یا مساجد ہمیں مجمع سے اجتناب کرنا چاہیے۔ معاشرتی فاصلے کے بغیر کورونا وائرس کے خطرے کا خاتمہ ابھی ممکن نہیں ہے خاص طور پر تب تک جب تک ویکسین دستیاب نہیں ہو جاتی۔

اس وقت حکومت کو ملک بھر میں لاک ڈاؤن میں سختی لانے کے حوالے سے اقدات کرنا چاہیے۔ لوگوں کو گھروں تک محدود رکھا جائے اور ٹیسٹوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ فرانس میں کل سے رمضان المبارک کا با برکت مہینہ شروع ہو جائے گا۔ لاک داؤن کی وجہ سے مساجد اور دیگر مذہبی عبادت خانے فرانس بھر میں بند ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ نمازیں اور تراویح گھر پر پڑھیں گے۔ فرانسیسی حکومت نے تمام مذہبی عبادت خانوں کو سوشل ڈسٹنس کے حوالے سے قانون پر عمل درآمد کا کہا ہے۔

سعودی عرب اور دوسرے اسلامی ممالک بھی سوشل ڈسٹنس کے حوالے سے مساجد میں اس قانون پر عمل درآمد کرایا جا رہا ہے۔ اور لوگوں کو گھروں پر نماز پڑھنے کا کہا جا رہا ہے۔ اس نازک صورتحال میں ہمارے کچھ علما کی طرف سے مساجد میں نماز پڑھنے پر اصرار میری ذاتی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ لاک ڈاؤن کو لازمی بنایا جائے اور اس کے قوانین کا اطلاق مذبی رسومات کی ادائیگی پر بھی ہونا چاہیے۔

کورونا کے کیسز تیزی سے بڑھے تو ہمارے اسپتالوں کے لئے سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ ہمارے ہیلتھ سسٹم میں اتنی صلاحیت نہیں کہ بڑی تعداد میں کیسز دیکھ سکے، اس حوالے سے حکومت اور علما دونوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یورپ اور امریکا جیسی ترقی یافتہ قومیں بھی اس وبا کے سامنے بے بس ہو گئی۔ بڑی تعداد میں اس وائرس سے متاثر مریضوں کی تعداد اور اموات پریشان کن ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے صحت کے عالمی نظام میں ’کمزوریوں‘ کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جبکہ ہمارے پاس نہ ہی تو یورپ کے مقابلے کے ہسپتال ہیں نہ ہی سہولیات۔ اس بیماری میں سب سے زیادہ درکار وینٹیلیٹر تک کی تعداد ہمارے پاس انتہائی کم ہے۔ صرف اور صرف احتیاط میں بچت ہے اور عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments