پاکستان فلم انڈسٹری کی منفرد لب و لہجے کی گلوکارہ ۔ مالا



آج کل ہمارے زیادہ تر نئے گلوکار ماضی کے مقبول گلوکاروں کے گائے ہوئے مقبول گانے جھنکار کے ساتھ گا کر مشہور ہو رہے ہیں۔ پاکستانی موسیقی کی تاریخ پر اگر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ماضی میں ہمارے فنکاروں نے کیسے بے سروسامانی اور پرانے موسیقی کے آلات کے ساتھ کام کر کے کتنے کتنے شاہکار اور رسیلے نغمے تخلیق کیے ہیں جو آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ ایک ایک گانے کے پیچھے نغمہ نگار۔ موسیقار۔ گلوکار اور سازندوں کی دن رات کی محنت شامل ہوتی ہے۔

مالا کا اصل نام نسیم بیگم تھا۔ وہ نومبر 1939 میں فیصل آباد میں پیدا ہوئیں۔ ان کو بچپن سے ہی گانے گانے اور میوزک سے کافی دلچسپی تھی۔ ان کی خوقسمتی کہ ان کی بڑی بہن شمیم نازلی ایک موسیقار تھیں اور ان کی گانے میں پہلی استاد بھی۔ بہن نے انھیں بابا جی اے چشتی سے ملایا اور ان سے مالا سے کچھ گوانے کی درخواست کی۔ انہوں نے مالا سے 1961 میں فلم آبرو کے لئے دو گانے گوائے۔ گو کہ یہ فلم بری طرح فلاپ ہو گئی لیکن مالا گلوکارہ کے طور پر فلم انڈسٹری میں متعارف ہو گئی۔

1962 کا سال مالا کے لئے کافی تبدیلی لایا۔ اس سال انہوں نے اپنا نام نسیم سے تبدیل کر کے مالا رکھا کیونکہ اس وقت نسیم بیگم ایک مقبول گلوکارہ پہلے سے موجود تھیں۔ اس سال انہوں نے فلم سورج مکھی کے گانے گائے۔ یہ فلم کامیابیوں سے ہمکنار ہوئی اور مالا بھی ہٹ ہو گئی اس کے بعد اس نے پھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔ مالا نے گلوکاری کے اس سفر میں 1180 کے قریب گانے گائے۔ انہوں نے اپنے اس فنکارانہ سفرمیں پانچ سو سے زیادہ فلموں میں گلوکاری کے جوہر دکھائے۔

ان میں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے گانے شامل ہیں۔ مالا نے گلوکاری کا سفر ساٹھ اور ستر کی دیہائی کے ابتدائی سالوں میں عروج پر رہا۔ اس دوران انہوں نے بہت ہی رسیلے اور حسین گیت گائے جو بہت سی فلموں کی کامیابی کا باعث بنے۔ مالا کی اس دور کی ہم عصر گلوکاراؤں میں نور جہاں۔ تصور خانم۔ آئرن پروین اور ناہید نیازی تھیں۔ انہوں نے ان سب گلوکاراؤں کے علاوہ احمد رشدی۔ مسعود رانا اور مجیب عالم کے ساتھ بہت اچھے اچھے اور یادگار گانے گائے۔

۔ 1963 میں مالا نے فلم عشق پر زور نہیں کا ایک گانا دل دیتا ہے رورو دوہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے ایک غم میں ڈوبی ہوئی آواز میں گایا جو بہت ہی مشہور ہوا۔ اس گانے نے مالا کو ایک مستند گلوکارہ بنا دیا۔ ماسٹر عبداللہ کی موسیقی میں یہ گیت قتیل شفائی نے لکھا تھا۔ اس گانے پر مالا کو بہترین گلوکارہ کا نگار ایوارڈ ملا۔ الیاس رشیدی ہفت روزہ فلمی رسالہ نگار کراچی سے نکالتے تھے۔ جس کی فلمی دنیا میں بڑی اہمیت تھی اور یہ ہر سال فلموں کے لئے ایوارڈ ز کا اہتمام کرتے تھے۔ لاہور سے بھی ایک ہفت روزہ فلمی میگزین مصور شہزادہ عالمگیر نکالا کرتے تھے۔

ساٹھ اور سترکی دیہائی میں فلمی گانوں میں ایک نیا ٹرینڈ متعارف ہوا۔ اس میں ایک ہی گیت مرد او ر عورت کی آوازوں میں علیحدہ علیحدہ ریکارڈ کرایا جاتا تھا جو فلم میں دو مختلف مواقع پر ہیرو اور ہیروئن پر فلمایا گیا۔ مالا نے بھی اس طرح کے گانے ریکارڈ کروائے۔ اسی پس منظر میں ایک گیت پنجابی فلم ً چن مکھناں ً کے لئے لکھا مشہور شاعر حزیں قادری اور موسیقی ترتیب دی بابا جی۔ اے۔ چشتی نے۔ مالا اور عنایت حسین بھٹی نے اسے گایا۔ فلم میں اسے ایک دفعہ رانی اور ایک دفعہ عنایت حسین بھٹی پر فلمایا گیا۔ یہ گیت بعد میں شازیہ منظور نے گایا اور وہ اس سے مشہور ہو گہیں۔

1964 میں انہوں نے ستائیس فلموں کے لئے گانے گائے جن میں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے گیت شامل تھے۔ فلم ًخاموش رہوً میں حمایت علی شاعر کا گیت ً میں نے تو پریت نبھائی سانوریہ رے نکلا تو ہرجائی ً جس کے موسیقار خلیل احمد تھے۔ آشیانہ فلم کا گیت ً جا رے بیدردی تو نے کہیں کا ہمیں نہ چھوڑا ً ً جس کے شاعر فیاض ہاشمی اور موسیقار اے حمید تھے۔ ایک پنجابی فلم ڈاچی کا گیت ً ٹانگے والیا کڑی میں وی تیری ہان دی ً جس کے۔ گیت نگار تھے حزیں قادری اور موسیقی نامور موسیقار بابا جی اے چشتی نے ترتیب دی تھی۔ بابا غلام احمد چشتی پاکستان کے ایک ایسے منفرد موسیقار تھے جنہوں نے ایک دن میں چھ گیت ریکارڈ کیے اور چ وہ چھ کے چھ سپر ہٹ نغمات ہوئے تھے۔

1965 کا سال مالا کے فنی سفر کا ایک سنہرا سال تھا۔ جس میں انہوں نے تیس فلموں میں گلوکاری کے جوہر دکھائے۔ اس سال ان کے گائے ہوئے نغمات نے دھوم مچا دی۔ پاکستان کی پہلی رنگین فلم ً نائیلہ ً کے سارے گانے سپر ہٹ ہوئے۔ قتیل شفائی اور حمایت علی شاعر کے نغمات اور مو سیقی ماسٹر عنایت حسین اور مالا کی سریلے سروں نے کمال کر دکھایا تھا

﴾ مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیغام آ گیا ہے
﴾ اب ٹھنڈی آہیں بھر پگلی جا اور محبت کر پگلی
﴾ دل کے ویرانے میں اک شمع ہے روشن اب تک
﴾ غم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے۔
غم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے مالاکو اس سال کا بہترین گلوکارہ کا نگار ایوارڈ ملا۔ یہ ان کے فلمی سفر میں دوسرا نگار ایوارڈ تھا۔ پاکستان کی فلمی گائیکی پر جن آوازوں نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ان میں ایک سریلی آواز گلوکارہ مالا کی بھی ہے۔ 1966 سے 1972 تک ان کے لئے مصروف ترین سال تھے۔ اس دوران انہوں نے ایک سوپچاس سے زیادہ فلموں کے لئے نغمے ریکارڈکروائے۔ اس عرصہ میں ہر اردو اور پنجابی فلم میں ان کے گانے موجود ہوتے تھے۔ ارمان۔ چن مکھناں۔ رنگیلا۔ عشق دیوانہ۔ دوستی۔ ٹھاہ۔ جگری یار۔ بابل۔ عشق دیوانہ۔ واردات اور بہت ساری فلموں میں ان کے گائے ہوئے نغمات کی دھوم سنائی دیتی رہی۔

1970 کے بعد رونا لیلی۔ نیرہ نور اور دوسری گلوکاراؤں کی فلمی دنیا میں آمدسے ان کی ڈیمانڈ میں کمی آنے لگی اور موسیقاروں نے نئی گلوکاراؤں پر دھیان دینا شروع کر دیا۔ اس دوران حکومتی آزادیوں کے باعث فلمی دنیا میں بھی کافی تبدیلیاں آئیں۔ اپنے آپ کو فلم انڈسٹری میں زندہ رکھنے کے لئے اس دوران مالا نے بھی کچھ ایسے نغمے بھی ریکادڈ کروائے جو غیرمعیاری اور اخلاق سے گرے ہوئے تھے ان میں خطرناک۔ خوفناک جیسی بدنام زمانہ اور دوسری پنجابی فلمیں شامل تھیں۔

ہر کمال را زوال۔ ستر کی دہائی کے آخر میں انہوں نے فلمی دنیا سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ فلم نگر سے تعلق رکھنے والے فنکاروں خاص کر خواتین کی نجی زندگی کے پہلو عموماً تاریک ہی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر شادیاں بھی جذباتی اور وقتی فیصلوں پر مبنی ہوتی ہیں اس لئے زیادہ کامیاب نہیں ہوتیں۔ مالا نے بھی اپنے عروج کے دور میں ایک فلمساز عاشق بھٹی سے شادی کی تھی۔ لیکن وہ زیادہ تر مسائل کا ہی شکار رہی۔ اتنا عرصہ فلم نگری میں گزارنے کے باوجود زندگی کے آخری سال بہت تنہائی اور عسرت میں گزار ے اور 1990 میں پچاس سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments