معیشت کے لیے کپتان سر جی کی دوڑیں ، حفیظ شیخ اور گورنر سٹیٹ بنک کے پھڈے


پاکستان پہلا ترقی پذیر ملک ہے جو جی ٹوینٹی سے قرض ریلیف کے لیے درخواست دینے جا رہا۔ بدھ کے دن یہ پاکستانی وزارت خزانہ نے کہا ہے۔ درخواست دینے جا رہا ہے سے یہ تو واضح ہو گیا کہ جوانوں نے درخواست دی نہیں تھی۔ ٹرمپ کو کپتان نے کل ہی مس کال بھی ماری ہے۔ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا کہ وہ آئی ایم ایف میں پاکستان کا سفارشی بنا ہوا ہے۔

اس کال کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ امریکی سیکرٹری خزانہ نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ ہم نے کوئی نہیں کرنی ترقی پذیر ملکوں کی مدد، مریں اپنا کام کریں۔

پاکستانی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ جیسے ہی جی ٹوینٹی ملک درخواست دینے کا پرفارما ڈیزائن کر لیں گے ہم نے منٹ نہیں مارنا درخواست ٹھوک دینی ہے۔ اب آئی ایم ایف کی پاکستان میں ریذیڈنٹ ہیڈ سانچیز کا بیان بھی یاد کریں کہ درخواست کا ٹائم گزر چکا۔ تبھی تو کپتان مس کالیں کرتا پھر رہا ( یہ میرا اپنا خیال بھی ہو سکتا ) ۔

پاکستان کو آئی ایم ایف ایک ارب انتالیس کروڑ ڈالر کا لون زیرو انٹرسٹ ریٹ پر کرونا پیکج میں ویسے ہی دے چکا ہے جو ہمیں مل بھی گیا ہے۔

کپتان اور ٹرمپ کی مس کال یعنی کال کا جو ریڈ آؤٹ جاری کیا گیا ہے اس میں بتایا گیا ہے امریکہ نے آٹھ ارب ڈالر کا امدادی پروگرام دنیا بھر کے لیے سوچ رکھا ہے، یہ ان لوگوں اور بزنس کے لیے ہے جو وبا سے متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان امریکہ کی مشترکہ کوششوں کا بھی افغانستان کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے قیدیوں کی سست رفتار رہائی۔ انٹرا افغان ڈائلاگ نہ شروع ہونا بھی یاد کر لیں۔

اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان کو جو بھی سہولت ملے گی اس میں افغان عمل میں مدد کا حصہ لازمی ہو گا۔ اگر پاکستان کی درخواست منظور ہوتی ہے تو اس سال ہماری ایک ارب اسی کروڑ ڈالر کی ادائگیاں موخر ہو جائیں گی۔

پاکساتانی وزارت خزانہ کے اہلکار کا کہنا ہے کہ اس سال جون کے آخر تک ہم نے پرائیویٹ پارٹیوں ( ساہو کار) کے ہی دو ارب تیس کروڑ ڈالر دینے ہیں۔ یہ وہ پیسے ہیں جو لوگوں نے پاکستان میں زیادہ پرافٹ دیکھ کر باہر کے بنکوں سے قرض اٹھا کر ہمیں دے رکھے ہیں۔ اب ہمیں واپس کرنے اور انہوں نے اپنے نوٹ کھرے کرنے ہیں۔ اگلے سال جون تک ہم نے ایسی پرائیویٹ پارٹیوں کے مزید تین ارب بیس کروڑ ڈالر واپس کرنے ہیں۔

ان پیسوں کی واپسی کا چارہ کرنے کے علاوہ ہمیں چین سعودی عرب متحدہ عرب امارات کے پاکستان میں پارک کیے گئے تین تین ارب ڈالر کی مدت بڑھانے کو درخواستیں الگ سے کرنی ہیں۔

اس سب صورتحال کو دیکھ کر اگر پاکستان میں کسی کو فکر مند ہونا چاہیے۔ تو وہ دو حضرات ہی ہیں ایک مشیر خزانہ حفیظ شیخ دوسرے گورنر سٹیٹ بنک رضا باقر۔ دونوں باقاعدہ پریشان ہی نہیں گتھم گتھا بھی ہیں۔ حفیظ شیخ کی وزارت خزانہ نے گورنر سٹیٹ بنک کو، سٹیٹ بنک کے ہی بورڈ آف ڈائریکٹر کی چیئرمینی سے فارغ کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ تو دونوں بزرگ وہاں زور آزمائی کر رہے ہیں جو ظاہر ہے زیادہ ضروری ہے خزانے اور ادایئگیوں کو دیکھنے سے۔

دونوں حضرات کا تعلق آئی ایم ایف سے ہے۔ اس لیے ہم ان کی کبڈی دیکھ تو سکتے ہیں ان کا کر کرا کچھ نہیں سکتے۔

ایسے میں خبریں ہیں کہ آج جنرل باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان اکٹھے آب پارہ گئے ہیں۔ ظاہر ہے وہاں بیٹھے کے سر جوڑ کر سوچا ہو گا کہ یہ افغان امن مذاکرات کا اب اور ہم کیا کریں۔ آخر کتنا کریں کب تک کریں۔

یہ جاری صورتحال پر وسی بابے کی پہلی کاوش ہے، فائنانس سے متعلق معلومات ہر گز ذاتی نہیں ہیں۔ یہ فائنانشل ٹائم سے نچوڑی گئی ہیں۔ باقی تبصرے اپنے ہیں۔ برے لگیں تو بندہ بشر ہے جذباتی ہو ہی جاتا ہے، پیشگی معافی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments