پنجاب دی ونڈ



وبا کے دن اتنے طویل ہوئے کہ ہر خاص و عام دوسرے معاملات و موضوعات بھول گیا۔ بہت سے دوستوں کو فرصت میسر ہے لیکن ایک مزدور صحافی کو فرست میسر ہی کب آتی ہے۔ صوبہ پنجاب کی تقسیم اور جنوبی پنجاب صوبے کے قیام پر کچھ معروضات سپرد قلم کرنا تھیں لیکن کرونا باعث تاخیر ہوا۔ چودہ مارچ دوہزار بیس کو دیسی کیلنڈر کے مطابق چیتر کی پہلی تاریخ تھی۔ تاریخ میں پہلی بار جب پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے شہروں اور ملکوں میں پنجابی ثقافت کا دن منظم انداز میں منایاگیا۔

بہت بڑے پیمانے پر تقریبا ت نہیں ہوئیں لیکن لاہور سمیت دنیا بھر کے شہروں میں ہونے والی ان مؤثر تقریبات نے ثابت کیا کہ سلطان راہی کی فلموں سے ہٹ کر بھی پنجابی ثقافت اور کلچر کے فروغ کی بات کرنے والے لوگ پاکستانی صوبے پنجاب میں موجود ہیں۔ نہ صرف پاکستانی پنجاب بلکہ بھارتی صوبے پنجاب میں بھی۔ ”پنجابی کلچر دیہاڑ“ کی گونج سنائی دی گئی۔ اس گونج نے لسانی بنیادوں پر پنجاب کی تقسیم کے حامیوں کو کافی برہم کیا ہے۔ ایک محترم تو کالم فگاروں (یہ فگاروں ہی ہے نگاروں نہیں ) کے منصور حلاج ثابت ہوئے اور پنجاب کی تقسیم کا ایسا آفاقی نظریہ پیش کیا کہ افلاک پر قدسی بھی انگشت بدنداں ہیں۔

فرماتے ہیں جنوبی پنجاب میں الگ سیکرٹریٹ اگر بن رہا ہے تو ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کیوں؟ الگ چیف سیکرٹری اور آئی جی کیوں نہیں؟ ایک ہی صوبے کے دو چیف سیکرٹری اورایک ہی پولیس کے دو سربراہ کس قانون اور انتظامی ڈھانچے کے اندرکیسے ممکن ہیں سمجھ نہیں پایا۔ اور تو اور موصوف نے بھی اس بارے محترم ضمیر اختر نقوی کی طرح ”نہیں بتاؤں گا“ کا رویہ ہی اپنایا ہے۔

فرماتے ہیں ملتان سے میانوالی تک کا علاقہ کبھی پنجاب کا حصہ نہیں رہا۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پنجاب ایک صوبے کے طور پر برطانوی نوآبادیاتی دور میں دنیا کے نقشے پر ابھر ا تھا۔ اس سے پہلے تو بادشاہت تھی، جنگیں تھیں اوراقتدار کے ایوانوں میں وحشت رقصاں تھی۔ کبھی مغل، کبھی افغان اور کبھی رنجیت سنگھ پنجاب کی دھرتی پر حکمران رہے۔ ان مختلف حکمرانوں کے دور میں یہ خطہ ایک صوبہ نہیں بلکہ ایک ملک یا ریاست کا درجہ رکھتا تھا اور اس کی حدود بھی موجودہ پنجاب سے کہیں مختلف تھیں۔ برصغیرمیں جمہوریت کا تصور برطانوی نوآبادیات کی دین ہے۔

موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ ممتاز پنجابی دانشور حنیف رامے تو دُلا بھٹی کو پنجابی ہیرو قرار دیتے ہیں لیکن ان سمیت میانوالی کے لوگ دُلا بھٹی کو ایک مفرور ڈاکو سمجھتے ہیں۔ خاکسار یہ جسارت ہر گز نہیں کرسکتا کہ موصوف کا تقابل حنیف رامے مرحوم کی شخصیت کے ساتھ کرے۔ بصد احترام کچھ یاد کرانے کی جسارت کرتا ہوں۔ دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سابق صدر آصف علی زرداری کے اشارے پر قومی اسمبلی میں سرائیکی صوبے کے قیام کی قرارداد منظورکرائی گئی تھی۔

ملکی تاریخ کی کامیاب ترین ہڑتال کے ذریعے میانوالی کے عوام نے اس قرارد اد کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔ کیونکہ سرائیکی صوبے کے سب سے بڑے حامی مرحوم تاج محمد لنگاہ خوشاب اور میانوالی کو بھی مجوزہ سرائیکی صوبے کا حصہ قرار دیتے تھے۔ جس دن یہ قرارداد منظورہوئی میں نے خوشاب سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کو فون پر مبارکباد دی۔ جواب میں اس نے میانوالی خوشاب کو سرائیکی صوبے میں شامل کرنے والوں کے لئے جو لب و لہجہ استعمال کیا خاکسار وہ تحریر کرنے سے قاصر ہے۔

عالی مرتبت کالم فگار نے پنجاب اور پنجابیوں پر الزام دھرا ہے کہ انہوں نے تخت لاہور کو مرکز بنانے کے لئے صدیوں پرانے سرائیکی زبان و ادب اور کلچرپر قبضہ کر کے اسے پنجابی قرار دے دیا۔ خاکساریہ عرض کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہے کہ لفظ ”سرائیکی“ پچاس کی دہائی کے اواخر یا سن ساٹھ کے اوائل کا قصہ ہے۔ کسی کو شک ہوتو قیام پاکستان سے پہلے کے ادب کا مطالعہ کر لے۔ یاد رکھا جانا چاہیے کہ یہ اسی آمر کا دور ہے جس نے مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کو علیحدگی کا سندیسہ بھیجا تھا۔ آمر ِ وقت کے ایلچی کو دندان شکن جواب دیا گیا تھا کہ علیحدگی اقلیت کا انتخاب ہو سکتا ہے لیکن مشرقی پاکستان آج کی تاریخ میں اکثریت کا حامل خطہ ہے۔

فرماتے ہیں پنجاب ہمیشہ سے پانچ دریاؤں کی سرزمین رہا ہے۔ راوی، چناب، ستلج، جہلم اور بیاس۔ دریائے سندھ کبھی پنجاب میں شامل نہیں رہا۔ چلئے آپ کی مان لیتے ہیں۔ کاش عالی جاہ ایک نظر پنجاب کے نقشے پر ڈالنے کی زحمت  فرماتے۔ دریائے ستلج بھارتی سرزمین سے گنڈا سنگھ والا کے قریب سے ضلع قصور میں داخل ہوتا ہے، اوکاڑہ، پاکپتن، بہاولنگرسے ہوتا ہوا لودھراں اور بہاولپور کے درمیان حد فاصل بناتے ہوئے ضلع رحیم یار خان میں پنجند کے مقام پر پہنچتا ہے۔

دریائے راوی بھارتی علاقے پٹھان کوٹ سے نارووال پہنچتا ہے۔ لاہور، قصور، اوکاڑہ، ساہیوال اورخانیوال سے ہوتا ہوا یہ دریا خانیوال اوراحمد پور سیال کے قریب چنا ب کے گلے ملتا ہے۔ اس طرح لاہور، قصور، اوکاڑہ، ساہیوال، پاکپتن، وہاڑی، لودھراں، خانیوال، اورملتان دریائے ستلج اوردریائے راوی کا دوآبہ ہیں۔ دریائے چناب اکھنور سے مرالہ ہیڈ ورکس کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ یہ دریائے راوی کے ساتھ مل کر سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالا، شیخوپورہ، حافظ آباد، ننکانہ، فیصل آباد، چنیوٹ، جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کا دوآبہ کا تخلیق کرتا ہے۔

دریائے جہلم مقبوضہ کشمیر سے مظفر آباد پہنچتا ہے اور دریائے چناب کے ساتھ مل کرگجرات، منڈی بہا الدین، سرگودھا اور جھنگ کے بعض علاقوں پر مشتمل دوآبہ تخلیق کرتا ہے۔ دریائے سندھ اور دریائے جہلم مل کر راولپنڈی، جہلم، اٹک، چکوال، خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ اور مظفر گڑھ کو حصار میں لئے ہوئے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور اس دوآبے سے باہر ہیں لیکن دریائے سندھ ان دونوں اضلا ع کو اس طرح چھوتا ہے کہ طغیانی کی صورت میں یہ دونوں اضلاع سیلاب سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

ہیڈ پنجند جہاں یہ پانچوں دریا ملتے ہیں وہ عین راجن پور، مظفر گڑھ اور رحیم یارخان کے سنگم پر واقع ہے۔ جہاں تک دریائے بیاس کی بات ہے یہ دریا کوہ ہمالیہ سے نکلتا ہوا مشرقی پنجاب یعنی بھارتی صوبہ پنجاب کے شہروں امرتسر اور جالندھر کے درمیان سے ہوتا ہوابھارتی شہر فیروز پور میں ہی دریائے ستلج میں شامل ہو جاتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے دریائے سندھ کو نظر اندازکیجئے۔ دریائے ستلج جو کہ بیاس کو لے کر پاکستان میں داخل ہوتا ہے راوی کے ساتھ مل کر ایک دوآبہ بناتا ہے جس میں جنوبی پنجاب کے علاقے خانیوال، ملتان اورلودھراں بھی شامل ہیں۔ اس صورت میں ملتان یا بہاولپور کو پنجاب سے کیسے نکالا جا سکتا ہے؟

عرصہ دراز سے خاکسار کا یہ مشاہدہ ہے جن لوگوں نے سیاسیات یا ریاست داری کی الف بے نہیں پڑھ رکھی، ماڈرن سٹیٹ کے دور میں وہ ریاست کے اجزائے ترکیبی تک سے آگاہی نہیں رکھتے وہ بھی ان معاملات پر ایسے حتمی لہجے میں بات کہتے ہیں جیسے قرآں کی تلاوت ہو۔ جدید ریاست میں یا جمہور کے دور میں کسی بھی ملک کے اندر صوبوں کا قیام ہمیشہ انتظامی معاملہ رہا ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں ہی دیکھ لیجیے۔ اگر خاکسار سے سہو نہیں ہو رہا تو ایک کم تیس ریاستیں یا صوبے ہیں۔ بائیس بڑی زبانیں ہیں جو بھارت میں بولی جاتی ہیں۔ طبیعت پر گراں نہ گزرے تو طالب علم عرض کرتا ہے کہ ان زبانوں کے سات سو سے زیادہ لب و لہجے ہیں۔ اندازہ کیا جانا چاہیے کہ اگر لسانی بنیادوں پر صوبے بنیں تو بھارت میں کتنے صوبے یا ریاستیں تشکیل پا جائیں گی۔ دنیا کا کوئی ملک دکھا دیجئے جس میں صوبے زبان یا رنگ و نسل کی بنیاد پر بنے ہوں، کوئی ایک نہیں ملے گا۔

اس ساری گفتگو کا ماحصل یہ ہر گز نہیں کہ نئے صوبے نہیں بن سکتے یا نہیں بننے چاہئیں۔ ہر ملک یا خطے کی سیاسی حرکیات ایک دوسرے سے فرق ہوتی ہیں۔ ریاست پاکستان کی سیاسی حرکیات کا جائزہ لیا جائے تو ریاست اس قابل نہیں کہ اس وقت نئے صوبوں کی تشکیل کا پنڈورا باکس کھولا جائے۔ اس سے بھی بڑی دقت یہ ہے کہ وطن عزیز کے مقتدر حلقے نئے صوبوں کے قیام پر مائل بھی ہیں یا نہیں؟ مسئلہ صرف قابلیت کا نہیں بلکہ نیت اور ارادے کا بھی ہے۔

ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ نیا صوبہ کیا صرف پنجاب میں ہی بنایا جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ سرائیکی صوبے کا قیام ہر گز آسان نہیں جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔ ملک میں جب بھی نئے صوبوں کے قیام کی بات ہوگی تویہ کام انتظامی بنیادوں پر ہی ممکن ہوگا اور یہ کام صرف پنجاب کی حد تک نہیں بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی مساوی بنیادوں پر طے شدہ اصول کے تحت ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ پنجاب میں سرائیکی صوبہ تشکیل دیں لیکن ہزارہ صوبے کے قیام سے چشم پوشی کریں۔

ایک طرف عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کے لئے پنجاب کو تقسیم کرنے کے نعرے اور دوسری طرف قبائلی علاقوں کو الگ صوبہ بنانے کی بجائے خیبر پختونخوا میں انضمام چہ معنی، بقول محترم سہیل وڑائچ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ پھر رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں بلوچ اور پشتون کشمکش کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہی اصول اگر ڈھرکی یا گھوٹکی میں بسنے والے شہریوں پر لاگو کیا جائے تو کیا ان کو نئے صوبے کی ضرورت نہیں؟

پیپلزپارٹی کی قیادت کا دوغلا پن تو یہیں سے عیاں ہے کہ وہ صوبائی دارالحکومت کی دوری یا مساوی سہولیات کی عدم فراہمی کو بنیاد بنا کر پنجاب کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ یہی اصول جب سندھ پر لاگو کیا جائے توپیپلزپارٹی متحدہ ہندوستان کے حامیوں کی طرح سندھ دھرتی ہماری ماں ہے کا الاپ شروع کر دیتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کا بہترین وقت دوہزارتیرہ کے انتخاب سے پہلے تھا۔ ن لیگ پنجاب اسمبلی میں صوبہ بہاولپور اور صوبہ جنوبی پنجاب کی قرارداد منظور کروا چکی تھی۔ پیپلزپارٹی اگر اس نہلے پراسی قرارداد کو قومی اسمبلی اورسینیٹ سے منظور کرانے کا دہلا مارتی تو اس کی سنجیدگی ظاہر ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی صوبے کے قیام کو تمام سیاسی جماعتیں صرف سیاسی نعرے کی حد تک ہی اہمیت دیتی ہیں۔

اصل جھگڑا وسائل کی مساوی فراہمی کا ہے۔ امیر اور غریب کی لڑائی ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ اگرجنوبی پنجاب کوتعلیم، صحت، صنعت اور بنیادی ڈھانچے کے اعتبار سے بہترین سہولیات فراہم کی جائیں تو نئے صوبے کا مطالبہ ویسے ہی دم توڑ دے گا۔ دنیا میں کئی ایسے صوبے موجود ہیں جن کی آبادی یا رقبہ موجودہ پاکستانی صوبے پنجاب سے زیادہ ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ کروڑوں اربوں انسانوں کو حکمرانی کا بہترین نمونہ پیش کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments