تبلیغی جماعت کی سلمانی ٹوپی


\"jamshe

باچا خان یونیورسٹی سانحے کے بعد تبلیغی جماعت پر جزوی پابندی کی خبر پر کچھ لوگ حیران ہیں تو کچھ حیران کر رہے ہیں۔ حیران کرنے والوں کا خیال ہے کہ تبلیغی جماعت ایک پرامن اور عدم تشدد پر یقین رکھنے والی جماعت ہے۔بلاشبہ حیران کرنے والے لوگوں میں زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی ہے جو امن چاہتے ہیں لیکن میڈیا اور دیگر ذمہ دار ادارے امن ، تشدد اور عدم تشدد جیسے موضوعات پر ان کی مناسب رہنمائی نہیں کررہے۔

ہمارے ہاں عام تاثر یہ ہے کہ امن جنگ کی ضد ہے۔ لہٰذا جنگ کا نہ ہونا امن ہے۔ تاہم ان موضوعات کے سنجیدہ طالب علم جانتے ہیں کہ امن کا متضاد جنگ نہیں بلکہ تشدد ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جنگ اور تشدد کے واقعات کا وقوع پذیر نہ ہونا امن نہیں بلکہ منفی امن کہلاتا ہے جب کہ مثبت امن کی منزل اس وقت آتی ہے جب معاشروں اور عوامی لاشعور سے ساختی تشدد کا خاتمہ ہوجائے۔

ہم تشدد سے تو واقف ہیں لیکن شاید ساختی تشدد سے واقف نہیں۔ساختی تشدد سے مراد ایسے تصورات ہیں جوزبان زدِ عام ہوں اور براہِ راست تشدد (نسل کشی ، قتل عام ، زخمی یا معذور کردینا ) کے واقعات کے جواز کے طور پر پیش کئے جائیں۔ساختی تشدد سماجی عدم مساوات کی بنیاد ہے اور عام طور پر درست تسلیم کئے جانے کی بنا پر متشدد گروہوں کو تشدد کا جواز فراہم کرتا ہے۔ تبلیغی جماعت کو پرامن اور عدم تشدد پر یقین رکھنی والی جماعت کہنے والے تشدد کو غیر اخلاقی اور غیر انسانی فعل سمجھتے ہیں لیکن چونکہ صرف براہِ راست تشدد کو ہی تشدد سمجھتے ہیں؛ اس لئے تبلیغی جماعت عدم تشدد پر یقین رکھنے والی جماعت دکھائی دیتی ہے۔ وہ اس بات سے واقف نہیں کہ ساختی تشدد تشدد کی ماں ہے ۔ اگر ساختی تشدد نہ ہو تو تشدد کے واقعات کبھی جنم نہیں لے سکتے ۔

مثال کے طور پر مشتعل ہجوم جب مسیحی بستی جلاتا ہے تو وہ ایسے ساختی تعصب کا اظہار کررہا ہوتا ہے جو ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔جب وہ کسی غیر مسلم کے ساتھ کھانے پینے سے انکار کرتا ہے تو وہ اجتماعی شعور کی شریانوں میں دوڑتے ان تعصبات کا اظہار کررہا ہوتا ہے جو عام ہونے کی بنا پر فطری اور معمول کے واقعات سمجھے جاتے ہیں۔ جب کوئی ہندوﺅں کی عبادت گاہ جلاتا ہے تو اس عمل کی بنیاد ایسے متعصب تصورات پر ہوتی ہے جو عام ہونے کی بنا پر جائز قرار دیے جاچکے ہوتے ہیں۔ایسا نہیں ہوتا کہ بس کسی من موجی کے من میں سمائی وہ اٹھا اور اس نے مندر کو آگ لگادی۔ جب کوئی کسی عورت کو د±وسرے درجے کی مخلوق سمجھ کر اس سے عزت سے جینے کا حق چھین لیتا ہے تو اس کی وجہ معاشرے کے خون میں دوڑنے کرنے والے ایسے تصورات ہیں جو عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق قرار دیتے ہیں۔ ہر ایک کے پاس تشدد کی کوئی منطق ہوتی ہے اور اس منطق کو ساختی تشدد کہا جاتا ہے۔

براہِ راست تشدد ناگہانی، قدرتی یا فطری نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے پہلے ساختی تشدد کی زمین ہموار کی جاتی ہے ۔ تشدد زدہ معاشروں میں بظاہر پرامن دکھائی دینے والے گروہ یہ زمین ہموار کرتے ہیں اور پھر کچھ لوگ اس پر تشدد کا کھیل کھیلتے ہیں۔ ساختی تشدد کے پرچارک پچ تیار کرتے ہیں اور تشدد کے کھلاڑی اس پر کھل کھیلتے ہیں۔

ساختی تشدد کے بیج بونے والے تشدد کے پودے کی برسوں پرورش کرتے ہیں۔ یہ پودا ایک رات میں پل کر جوان نہیں ہوجاتا۔اس پر زہریلے پھل ، پھول اور کانٹے ایک رات میں اگ کر ہر منڈی میں خود چل کر نہیں پہنچ جاتے۔ اس کے لئے ایسی سماجی تبدیلی لائی جاتی ہے جس کا فائدہ تبدیلی لانے والے کو حاصل ہوتا ہے۔اس سماجی تبدیلی کے لئے لاکھوں رضا کار درکار ہوتے ہیں۔ان رضا کاروں کو ساختی تشدد کی مدد سے یہ طاقت دی جاتی ہے کہ وہ راہ چلتے کسی کو روک لیں۔ جس کا چاہیں دروازہ کھٹکھٹائیں۔ یہ ساختی تشدد کی مدد سے ممکن ہوتا ہے کہ کوئی انہیں سننے سے انکار کرنا بھی چاہے تو نہ کرسکے۔ ۔

لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں مالی نہیں صرف زہریلے پھل ، پھول اور کانٹے ہی دکھائی دیتے ہیں۔تشدد کی پچ تیار کرنے والے نہیں صرف کھلاڑی دکھائی دیتے ہیں۔یہ بھی ساختی تشدد کا جادو ہے۔ تشدد کی بنیاد بننے والا ساختی تشدد ہر وقت امن کی سلمانی ٹوپی پہنے رکھتا ہے ۔ اس لئے نہ دکھائی دیتا ہے اور نہ کوئی اس پر انگلی اٹھا سکتا ہے۔

ظاہری تشدد براہِ راست جبکہ ساختی تشدد بالواسطہ طریقے سے مارتا ہے ۔ ظاہری تشدد نقد جب شاختی تشددقسطوں میں دی جانے والی موت ہے۔ ظاہری تشدد جسمانی موت جبکہ ساختی تشدد حقوق کی موت ہے ۔ ظاہری تشدد ڈرامائی ہے، فوری صدمے سے دوچار کرتا ہے ؛ اس لئے لوگ صرف اسے تشدد سمجھتے ہیں۔ ساختی تشدد ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بنادیا جاتا ہے ؛ اس لئے دکھائی نہیں دیتا اور ہم وقت کے ساتھ اسے عین فطری سمجھنے لگتے ہیں۔ ظاہری تشدد ذاتی و شخصی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ساختی تشدد غیر ذاتی اور غیر شخصی ہونے کی بنا پر نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ ظاہری تشدد وقتی ہے جب کہ ساختی تشدد دائمی ہے۔ ظاہری تشدد کے واقعات کبھی کبھار رونما ہوتے ہیں لیکن ساختی تشدد مسلسل ہے ۔

براہِ راست تشدد دکھائی دیتا ہے ، ساختی تشدد نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ براہِ راست تشدد ارادی ہونے کی بنا پر غیر اخلاقی لگتا ہے لیکن ساختی تشدد کا غیر ارادی ہونا اس کی اتھاہ اخلاقی گراوٹ چھپا لیتا ہے۔

گذشتہ مضمون ”بیانیہ امپورٹڈ نہیں ہوتا “ میں ہم نے دیکھا کہ انتہا پسندی ثقافتی تخریب سے جنم لیتی ہے۔اس لئے ہمیں تبلیغی جماعت کو پرامن قرار دینے سے پہلے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پاکستان میں وسیع پیمانے پر ثقافتی تخریب کا ذمہ دار کون ہے۔ ثقافتی و جمالیاتی اور تخلیقی اظہار کا راستہ اپنانے والے فنکاروں کو شرمندہ کرنے کا بیڑا کس نے اٹھا رکھا ہے؟

تبلیغی جماعت کی بنیاد علامہ محمد الیاس صاحب نے رکھی جن کا نعرہ تھا ،”اے مسلمانو ! مسلمان بن جاﺅ“۔یعنی تبلیغی جماعت کا مقصد غیر مسلموں کو نہیں ثقافتی مسلمانوں کو ’مزید‘ مسلمان کرنا تھا ۔ ہم جانتے ہیں کہ انتہا پسند وں کی اکثریت ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ثقافتی و متنوع اسلام کے خلاف برسرپیکارہیں اور اپنے والدین سے ’بہتر‘ مسلمان بننا چاہتے ہیں۔

”اے مسلمانو ! مسلمان بن جاﺅ!” کا نعرہ اسلام میں تنوع اور رنگارنگی کے خاتمے کا باعث بنا ہے بلکہ اس کی مدد سے تبلیغی جماعت نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان کی تعریف اور مزاج وضع کرنے کا حق صرف تبلیغی جماعت کو حاصل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تبلیغی جماعت کو ہر علاقے میں مزاحمت کا سامنا رہا ہے اور ثقافتی مسلمان اسے ’شرمندہ کرنے والی جماعت‘بھی کہتے رہے ہیں ۔

ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ نوجوان تشدد کا راستہ اس وقت اختیار کرتے ہیں جب جذبات کے اظہار کے تخلیقی ذرائع اور راستے میسر نہ رہیں۔ ماہرین کے مطابق کھیل مہذب جنگ ہوتا ہے اور قتل و غارت گری کا متبادل ہے تو ایسے میں کون ہیں جو ہمارے کھلاڑیوں کی توجہ کھیل کی بجائے کسی اور جانب مبذول کراتے رہے ہیں؟ وہ کون تھے جو گلوکاروں سے موسیقی جیسے ”گناہ “ پر سرعام معافی منگواتے رہے ہیں ؟

تبلیغی جماعت براہِ راست تشدد میں ملوث نہیںلیکن ساختی تشدد کی آبیاری کر رہی ہے۔اس لئے اس پر جزوی ہی سہی پابندی ایک انتہائی مستحسن اقدام ہے لیکن یہ قدم اٹھانے میں دیر کردی گئی ہے۔ اگر حکومت ہنگامی بنیادوں پر میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے امن کی تعلیم عام نہیں کرتی ، لوگوں میں ساختی تشدد کا ادراک اور حساسیت پیدا نہیں کرپاتی تو تبلیغی جماعت پر پابندی کے مطلوبہ صحت افزا نتائج برآمد نہیں ہوپائیں گے کیونکہ لوگ امن کے بنیادی تصورات سے نا واقف ہیں۔اس لئے وہ تبلیغی جماعت کو پرامن جماعت سمجھ کر اس کے ہاتھ سے ساختی تشدد کا زہر امرت سمجھ کر پیتے رہیں گے۔جو لوگ تبلیغی جماعت کو پرامن جماعت سمجھتے ہیں وہ ساختی تشدد کے سر سے عقیدت کی سلمانی ٹوپی اتارنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ دعا ہے کہ انہیں کبھی وہ دن نہ دیکھنا پڑے جب ان کا بچہ سکول جائے اور وہاں دہشت گرد حملے کی خبر آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments