موسیقارمصلح الدین اور پلے بیک سنگر ناہید نیازی


26 فروری 1941 کو پیدا ہونے والی شاہدہ نیازی المعروف ناہید نیازی مشہور شاعر، گلوکار موسیقار اور براڈکاسٹرجناب سجاد سرور نیازی کی صاحبزادی اور پلے بیک سنگر نجمہ نیازی کی بڑی بہن ہیں۔ ناہید نیازی کے تذکروں میں ملتا ہے کہ اِن کے اندر کے گلوکار کو خواجہ خورشید انور نے دریافت کیا۔ ویسے بھی ناہید نیازی نے اپنے والد سے کوئی تو ’اثرات‘ لئے ہی ہوں گے۔

روایت کی جاتی ہے کہ فلم ”زہرِ عشق“ میں موسیقار خواجہ خورشید انور نورجہاں سے گانے ریکارڈ کروانا چاہتے تھے۔ اُس وقت نورجہاں اداکاری بھی کرتی تھیں اور دوسری اداکاراؤں کے لئے پلے بیک سنگنگ نہیں کرتی تھیں۔ ”زہرِ عشق“ کی ہیروئین مسرت نذیر تھی لہٰذا نورجہاں نے وہ گانے ریکارڈ کرانے سے انکار کر دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خواجہ صاحب نے گلوکارہ اقبال بانو کی آواز میں ’موہے پیا ملن کو جانے دے بیرَنیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

‘ ریکارڈ کروایا لیکن مطمئن نہ ہو سکے۔ پھر اُنہوں نے بھارتی گلوکارہ گیتا دت سے رابطہ کیا اور وہ تیار بھی ہو گئی۔ ویسے بھی قیامِ پاکستان سے پہلے خواجہ صاحب بمبئی کی فلم نگری میں پلے بیک سنگر گیتا دت سے کئی گانے ریکارڈ کروا چکے تھے۔ لیکن یہ بات بھی نہ بن سکی کیوں کہ فلمی دنیا میں یہ بحث چھڑ گئی کہ پاکستان میں پاکستانی فنکاروں کے ہوتے ہوئے بھارتی گلوکار کیوں؟ یہ وہ پس منظر تھا کہ جس کی بنا پر ناہید نیازی کے نام قرعہ نکلا۔ خواجہ صاحب نے تھوڑی محنت کی اور زیادہ محنت ناہید نیازی نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو پھر خواجہ صاحب بھی مطمئن ہو گئے اور پاکستانی فلموں کو ایک نئی پلے بیک سنگر مل گئی۔

سجاد سرور نیازی غیر منقسم ہندوستان میں آل انڈیا ریڈیو میں اسٹیشن ڈائریکٹر کی سطح کے افسر تھے۔ ریڈیو پاکستان کراچی کے مختلف شعبوں میں، میں نے خود ایسے کئی لوگ دیکھے جو کہتے تھے کہ ہمیں تراشنے والے سجاد سرور نیازی ہیں۔ اِن میں سے ایک میرے اولین ا ستاد، فلمی موسیقار جوڑی لال محمد اقبال کے لال محمد بھی تھے۔ بنیادی طور پر لال محمد صاحب بانسری نواز تھے۔ خود بتاتے تھے کہ قیامِ پاکستان کے بعد جب وہ بھارت سے ہجرت کر کے کراچی آئے تو جلد ہی کسی جگہ سجاد صاحب نے میری بانسری سنی اور کہا کہ کل ریڈیو آ جانا۔ لال محمد کے اندر کے فنکار کو اُن کی نظر نے فوراً پہچان لیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بُلند اقبال صاحب کے ساتھ لال محمد نے لال محمد اقبال کے نام سے کئی ایک سُپر ہِٹ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

50 کی دہائی کے آخر میں ناہید نیازی نے فلموں میں گلوکاری شروع کی۔ گلوکاری کا چھٹا سال تھا کہ جنوری 1964 میں ان کی شادی موسیقار ابو القاسم محمد مصلح الدین المعروف مصلح الدین سے ہو گئی۔ شادی کے بعد بھی ناہید نیازی کا فلموں سے تعلق رہا۔ اِس جوڑی نے پاکستان ٹیلی وژن میں بچوں کے لئے موسیقی کے پروگرام کی روایت قائم کی۔ بچوں کا اولین پروگرام ”پدما کی موج“ ہے جو پی ٹی وی سے ایک عرصے نشر ہو ا۔ اس میں بنگالی اور اُردو دونوں زبانوں کے گیت ہوتے تھے۔ بعد میں موسیقار خلیل احمد، سہیل رعنا اور دوسروں نے اسے آگے بڑھایا۔ موسیقی کے ذریعے ہم آہنگی کے فروغ کی خدمات کے صلے میں حکومت ِ پاکستان نے 1969 میں ناہید اور مصلح الدین کو ”تمغہء امتیاز“ سے نوازا۔ اگلے سال 1970 میں پھر اس خوش قسمت جوڑی کو صدارتی حسنِ کارکردگی ایوارڈ بھی حاصل ہویا۔

جب مشرقی پاکستان میں سیاسی اونچ نیچ شروع ہوئی تو مصلحتاً مصلح الدین اور ناہید نیازی دونوں برطانیہ نقلِ مکانی کر گئے۔ برطانیہ منتقل ہونے کے ایک عرصہ بعد 90 کی دہائی میں مصلح الدین اور ناہید نیازی پاکستان آئے تو اداکارہ ریحانہ صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز سے اِن کا انٹرویو کیا۔ اِس موقع پر بہت سے لوگوں کو 60 کی دہائی کا بچوں کا پروگرام یاد آ گیا جِس کے یہ دونوں میزبان ہوتے تھے۔

میں کبھی ناہید نیازی سے تو نہیں مِلا البتہ اِن کی چھوٹی بہن، پلے بیک سنگر نجمہ نیازی سے دھماکہ خیز ملاقات ضرور ہوئی۔ اِس کا ذکر آگے آئے گا جب نجمہ نیازی کے بارے میں تفصیلاً بات ہو گی۔

ناہید نیازی کے مشہورگیت:
پاکستان فلم ڈیٹا بیس کے مطابق ناہید نیازی نے 137 فلموں کے لئے 309 گیت ریکارڈ کروائے۔ اِن میں 288 اُردو اور 21 پنجابی ہیں۔ ناہید نیازی کے تذکروں میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ انہوں نے ”مِس 1956“ ( 1956 ) سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ اِن کے کچھ منتخب گیتوں کا ذکر کیا جاتا ہے : فلم ”زہرِ عشق“ ( 1958 ) ’موہے پیا مِلن کو جانے دے بیَرنیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت قتیلؔ شفائی، موسیقی خواجہ خورشید انور۔ یہ گیت فلم میں مسرت نذیر پر فلمایا گیا۔

سلور جوبلی فلم ”جھُومَر“ ( 1959 ) ’چلی رے چلی رے چلی رے میں تو دیس پیا کے چلی رے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت حضرت تنویرؔ نقوی، موسیقی خواجہ خورشید انور۔ یہ گیت مسرت نذیر پر فلمایا گیا۔ سلور جوبلی فلم ”کوئل ’‘ ( 1959 ) ’رِم جھِم رِم جھِم پڑے پھُوار، تیرا میرا نِت کا پیار‘ گیت تنویرؔ نقوی، موسیقی خواجہ خورشید انور۔ “ ہمسفر ” ( 1960 ) ’زندگی میں ایک پَل بھی چین آئے نہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت تنویرؔ نقوی، موسیقی مصلح الدین۔

’‘ وطن ’‘ ( 1960 ) ’سونے کی لونگ میں پہن کے چلی، تیری گلی او پیا تیری گلی‘ گیت قتیل ؔ شفائی، موسیقی ماسٹر عنایت حسین۔ سلور جوبلی فلم“ زمانہ کیا کہے گا ” ( 1961 ) ’رات سلونی آئی بات انوکھی لائی جو ہم کسی سے نہ کہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ احمد رشدی کے ساتھ دوگانا، گیت فیاضؔ ہاشمی، موسیقی مصلح الدین۔ پنجابی فلم“ آبرو ” ( 1961 ) ’دل نال سجن دے لائی رَکھ ساں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت سکے دار، موسیقار بابا چشتی۔

“ 12 بجے ” ( 1961 ) ’ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بھیگی بھیگی فضائیں‘ گیت شبیؔ فاروقی، موسیقار لال محمد اقبال۔ “ غالب ” ( 1961 ) ’تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کلامِ غالبؔ، موسیقی تصدق حسین۔ سلور جوبلی فلم“ آنچل ” ( 1962 ) ’چھَم چھَم چھَم ملے ہیں صنم، لُٹ گئے ہم اللہ قسم‘ ، نجمہ نیازی اور ساتھیوں کے ساتھ، گیت حمایتؔ علی شاعر، موسیقی خلیل احمد۔ ’تجھ کو معلوم نہیں، تجھ کو بھلا کیا معلوم۔

۔ ۔ ۔ ۔ ‘ نظم حمایتؔ علی شاعر، موسیقی خلیل احمد۔ “ کالا آدمی ” ( 1963 ) ’ڈھل گیا چاند گئی رات چلو سو جائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت قتیلؔ شفائی، موسیقی صفدر حسین۔ “ دل نے تجھے مان لیا ” ( 1963 ) ’کیوں حضور کیوں، یہ غرور کیوں، جب دل نے تجھے مان لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت حمایتؔ علی شاعر، موسیقی مصلح الدین، “ فانوس ’‘ ( 1963 ) ’آ جا دل گھبرائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت نخشبؔ جارچوی اور موسیقی رشید عطرے، ”میخانہ“ ( 1964 ) ’اک اپنا ایک بیگانہ، سُن لو دل کا افسانہ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت نخشبؔ جارچوی اور موسیقار ناشاد۔ سلور جوبلی فلم ”خاموش رہو“ ( 1964 ) ’جاگنے والو جاگو مگر خاموش رہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت حبیب جالِبؔ اور موسیقار خلیل احمد۔ پنجابی فلم ”لائی لَگ“ ( 1964 ) ’چُنی کیسری تے گوٹے دیاں دھاریاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ اس گیت کو ناہید نیازی نے مالا، آئرین پروین، نجمہ نیازی اور ساتھیوں کے ساتھ ریکارڈ کرایا۔ میرے مطابق یہ حضرت تنویرؔ نقوی کے مقبول ترین پنجابی گیتوں میں سے ایک ہے۔

اس کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے۔ مجھے اس فلم کے تذکرے میں ساؤنڈ کے سلسلے میں جناب مشکور قادری صاحب کا نام مِلا۔ ان کا صدر، کراچی میں ’شاداب آڈیو اسٹوڈیو‘ تھا۔ میرے پی ٹی وی کے کئی ایک گیت اسی اسٹوڈیو میں اِن کے بھانجے توصیف احمد نے ریکارڈ کیے۔ مشترکہ فلمساز نذیر اور نعیم ہاشمی اور ہدایتکار نذیر کی فلم ” عظمتِ اسلام“ ( 1965 ) میں ناہید نیازی، سلیم رضا اور ہم نوا کا یہ ملّی ترانہ بہت مقبول ہوا: ’پرچم اپنا چاند ستارہ، آزادی ایمان ہمارا‘ اس کو تنویرؔ نقوی نے لکھا اور ماسٹر عاشق حسین نے طرزبنائی۔ سلور جوبلی فلم ”جوش“ ( 1966 ) ’رات چلی ہے جھوم کے، باہوں کو تیری چوُم کے، آ بھی جا آ بھی جا‘ احمد رشدی کے ساتھ دوگانا، گیت نگار فیاضؔ ہاشمی اور موسیقی مصلح الدین۔ سلور جوبلی فلم ”بھیا“ ( 1966 ) ’جانے مجھے کیا ہو گیا اجی میرا دل کھو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ احمد رشدی کے ساتھ ناہید نیازی کے دوگانوں میں یہ بہترین دوگانوں میں رکھا جا سکتا ہے۔ گیت شاعر ؔ صدیقی اور موسیقی روبن گھوش۔

پاکستان ٹیلی وژن ایوارڈ راولپنڈی میں کراچی سے موسیقار کریم شہاب الدین اور کچھ میوزشنوں کو میں اپنے ساتھ لایا تھا۔ نجمہ نیازی سے ملاقات کے بعد مجھے موسیقار کریم شہاب الدین نے بتایا کہ انہوں نے مجیب عالم کے ساتھ ناہید نیازی کا ایک دوگانا فلم ”جنگلی پھول“ ( 1968 ) کے لئے ریکارڈ کیا تھا: ’کھو گئے تم کہاں لُٹ گئے ہم یہاں، مِٹ گئی ہر خوشی جل گیا آشیاں‘ اس گیت کو اخترؔ لکھنوی نے لکھا تھا۔ کریم بھائی اُن کا بہت اچھے الفاظ میں ذکر کر رہے تھے کہ گانے کی ریہرسل سے لے کر صدابندی تک انہوں نے بے حد دلچسپی سے کام کیا۔

ناہید نیازی کے غیر فلمی گیت بھی بہت مقبول ہوئے۔ جیسے اُن کے والد سجاد سرور نیازی کا لکھا اور اُن کی موسیقی میں یہ گیت:

’ اک بار پھر کہو ذرا کہ میری ساری کائنات، تیری ایک نگاہ پر نثار ہے‘ ۔
واضح ہو کہ یہ پہلے شمشاد بیگم کی آواز میں بھی بہت مقبول ہوا تھا۔ بولوں اور دھن دونوں کے لحاظ سے یہ لاجواب گیت ہے۔ ماہ رُخ زبیر/نجمہ نیازی نے خود مجھے بتایا کہ کئی احباب اور انٹرنیٹ پر غلط طور پر اس کے موسیقار غلام محمد لکھتے ہیں۔

اسی طرح قیامِ پاکستان سے پہلے 1930 کی دہائی میں آل انڈیا ریڈیو لاہورسے تیار ہونے والی شمشاد بیگم ہی کی آواز میں سجاد سرور نیازی صاحب کی طرز میں اُن ہی کی لکھی ہوئی مشہورِ زمانہ نعت: ’پیغامِ صبا لائی ہے گلزارِ نبی سے، آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبی سے‘ کو ”وِکی پیڈیا“ اور ”پاک پیڈیا“ نے ولیؔ صاحب ( یہ ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی تھے ) سے منسوب کر دیا ہے اور طرز بنانے والے کا نام ماسٹر غلام حیدر لکھ رکھاہے۔ میں دونوں صفحوں کے ذمہ داروں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ضروری تصحیح فرما کر شکریے کا موقع دیں۔

ولیؔ صاحب خود کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے غیر منقسم ہندوستان میں فلم ”گل بکاؤلی“ ( 1938 ) ، ”یملا جٹ“ ( 1940 ) ، ”گاؤں کی گوری“ ) ( 1945 وغیرہ کے گیت لکھے۔ انہوں نے فلموں کی ہدایتکاری اور فلمسازی کے ساتھ مکالمے بھی لکھے۔ پھر 1955 میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر گئے۔ پاکستان میں بھی ان کی اول فلم ”گڈی گڈا“ ( 1956 ) بحیثیت ہدایتکار کامیاب رہی۔
ناظم پانی پتی پائے کے فلمی گیت نگار تھے۔ مثلاً ایور نیوپکچرز کے فلمساز آغا جی اے گل اور ہدایتکار لقمان کی فلم ”لختِ جگر“ ( 1956 ) میں بابا جی اے چشتی کی موسیقی میں نورجہاں کی آواز میں اِن کی لکھی ہوئی مشہورِ زمانہ لوری: ’چندا کی نگری سے آ پیاری نندیا تاروں کی نگری سے آ جا، پریوں کی دنیا کے نغمے سُنا کر ننھے کو میرے سُلا جا‘ ۔

ناظمؔ پانی پتی کا پہلا فلمی گیت لتا منگیشکر کی آواز میں فلم ”مجبور“ ( 1948 ) کے لئے تھا: ’دل میرا توڑا، مجھے کہیں کا نہ چھوڑا تیرے پیار نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ۔ اس کی موسیقی غلام حیدر نے ترتیب دی تھی۔ یہ غلام حیدر تھے جنہوں نے کہا تھا کہ نورجہاں کے بعد اس بچی ( لتا منگیشکر ) کا ملک میں نام ہونے والا ہے۔ ناظمؔ صاحب کے تذکروں میں یہ بھی ملتا ہے کہ انہوں نے ہی اپنے بڑے بھائی، فلمساز و ہدایتکار ولیؔ صاحب کے ساتھ مل کر 1939 میں لکشمی چوک، لاہور میں پان والے کے پاس کھڑے ’پران‘ کو فلم ”یملا جٹ“ ( 1940 ) میں اداکاری کرنے کے لئے قائل کیا۔ وہ دہلی کا رہنے والا تھا۔ ان کی پنجابی بولنے کو ناظمؔ پانی پتی نے بہتر کیا۔ یہ ادا کار ’پران‘ کی شروعات تھیں۔ ناظمؔ پانی پتی نے اداکارہ وجنتی مالا، کامیڈین بدرالدین جمال الدین قاضی المعروف جانی واکر کو بھی فلموں میں متعارف کروایا۔

٭٭٭ ٭٭٭

ابو القاسم محمد مصلح الدین المعروف مصلح الدین
1938 سے اگست 2003
مصلح الدین 1938 میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ اِن کے تذکروں میں سن پیدائش 1932 بھی ملتا ہے۔ انہوں نے ڈھاکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 1956 میں اُن کے مغربی پاکستان منتقل ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ یہ موسیقی سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ لاہور کی فلمی دنیا میں قسمت آزمائی کے لئے آئے۔ خوش قسمتی سے جلد ہی ہدایتکار لقمان کی نظروں میں آ گئے جنہوں نے مصلح الدین سے ان کی بنائی ہوئی مُختلف دھنیں سنیں اور اپنی فلم ”آدمی“ ( 1958 ) کے لئے موسیقار منتخب کر لیا۔ ٹی وی کے اینکر پرسن مبشر لقمان انہی لقمان صاحب کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے بھی ایک فلم ”پہلا پہلا پیار“ 2006 ) ) بنائی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ مذکورہ فلم کے فلمساز و ہدایتکار وہ خود تھے۔

بہرحال بات موسیقار مصلح الدین کی ہو رہی ہے۔ اِن کے تذکروں میں یہ بھی مذکور ہے کہ فلمساز و ہدایتکار منور ایچ قاسم کی ” آج کل“ مصلح الدین کی پہلی فلم ہے۔ انہوں نے اس فلم کا صرف ایک گیت ہی ریکارڈ کروایا۔ پھر فلمساز سے کچھ اختلاف کی وجہ سے مصلح الدین نے وہ فلم چھوڑ دی۔ یہ فلم کافی بعد میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ بہرحال یہ طے ہے کہ فلم ”آدمی“ سے ہی اُن کے موسیقی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ بعد کے سال اِن کے لئے بتدریج شہرت اور ہر دلعزیزی لائے۔ جیسے : ہدایتکار ضیاء سرحدی اور فلمساز چوہدری عید محمد رتن سنیما والے کی فلم ”راہ گزر“ ( 1960 ) میں تو کمال ہی ہوگیا۔ حضرت تنویرؔ نقوی کے گیت کی دھن پر سلیم رضا کی آواز کو کیا خوبصورتی سے ریکارڈ کروایا کہ آج بھی بے مثال ہے :

تجھے پیار آئے کسی پہ کب
تیرا جو ستم ہے وہ بے سبب
تیرا اور زمانے کا ایک ڈھب
تیری ہر ادا میں وہی غضب
مگر اے حسینہء نازنیں
مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں
بولوں کے لحاظ سے ہارمونیم اور اکارڈین کے امتزاج کا استعمال کیا خوب کیا گیا ہے۔
ہدایتکار شوکت ہاشمی اور فلمساز اے مجید کی فلم ”ہمسفر“ ( 1960 ) میں تنویرؔ نقوی کے گیت: ’زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ پر مصلح الدین کو سال کے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔ ”ہمسفر“ کی کچھ خاص باتیں : پہلی یہ کہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے نامور بھارتی موسیقار اور گلوکار ہمنت کُمار نے بھی ایک گیت ’رات سُہانی ہے، سویا سویا چاند ہے، میری قسم ہے تجھ کو اک بار مُسکرا دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ریکارڈ کروایا۔ دوسری یہ کہ بھارتی گلوکارہ‘ سندھیا مکھر جی ’نے بھی مذکورہ فلم میں دو عدد گیت ریکارڈ کروائے :‘ انکھیاں چھلکیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’گیت نگار شاعرؔ صدیقی اور‘ سانورے آؤ رے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’گیت شاعرؔ صدیقی۔ ہمنت کمار کا گیت تو پاک و ہند، ریڈیو سیلون اور برطانیہ میں حد درجے مقبول ہوا لیکن سندھیا کے گیت اُس طرح مقبول نہ ہو سکے۔ تیسرے یہ کہ مذکورہ فلم کے فلمساز اے مجید کچھ عرصہ پاکستان فلم پروڈیوسرز اسو سی ایشن کے صدر رہے۔ اور لاہور میں‘ سچل اسٹوڈیو ’کے روحِ رواں میاں عزت مجید کے والد ہیں۔ فلم ”یہودی کی لڑکی“ ( 1963 ) میں حبیب جالبؔ کا گیت:‘ دُکھ دیے جا صنم ہمیں کچھ نہیں غم، سہہ لیں گے تیرا ہر ایک ستم ’بے حد مقبول ہوا۔

مصلح الدین خود بھی بہت اچھاگاتے تھے۔ علی سفیان آفاقیؔ صاحب نے کئی ایک مرتبہ مجھ کو بتایا کہ موسیقار ناشاد اور موسیقار مصلح الدین خود بہت سریلے تھے۔ ”جب اِن کی آوازوں میں بنتے ہوئے گیت سنتے تو اور ہی بات ہوتی اور وہی گیت جب نامور گلوکار صدابند کرواتے تو اکثر وہ بات نظر نہیں آتی تھی“۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ موسیقار مصلح الدین نے ( غالباً) 17 فلموں میں تقریباً 95 گیتوں کی موسیقی ترتیب دی۔ اُن میں سے اکثر گیت آج بھی مقبول ہیں۔

موسیقار مصلح الدین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے باقاعدہ کسی سے موسیقی کی تربیت حاصل نہیں کی۔ خود اپنی محنت اور مشق سے موسیقی کے اسرار و رموز حاصل کیے۔ جس زمانے میں انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اُس وقت بہ آسانی اچھی ملازمت مِل سکتی تھی لیکن انہوں نے موسیقی کو شوق اور روزگار سمجھ کر اپنایا۔ اور بہت زیادہ محنت، ریاضت اور مشق کی۔ لوگ ہر دور میں مغربی اور مشرقی موسیقی کے امتزاج کے تجربے کرتے ہی رہتے ہیں لیکن مصلح الدین نے عرب موسیقی سے یہ کام لیا۔

ہدایتکار ایس ایم یوسف اور فلمسازایف ایم سردار کی شراکت میں سلور جوبلی فلم ”زمانہ کیا کہے گا“ ( 1961 ) : ’کیسا سفر ہے کہیے، یونہی قریب رہیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ دوگانا: آوازیں احمد رشدی اور ناہید نیازی، گیت فیاضؔ ہاشمی۔ یہ اداکار کمال اور شمیم آرا ء پر فلمایا گیا۔

فلمساز اور ہدایتکار اقبال یوسف کی جاسوسی فلم ”دال میں کالا“ ( 1962 ) : ’سمجھ نہ آئے دل کو کہاں لے جاؤں صنم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ یہ مصلح الدین نے حمایتؔ علی شاعر سے ہالی وڈ کی فلم ’کَم سِپٹمبر‘ ( 1961 ) کے ٹائٹل میوزک پر لکھوایا۔ اصل دھُن ’بوبی ڈیرِن‘ نے کمپوز کی تھی۔ اُس زمانے میں ریڈیو پر انگریزی اور پاکستانی فلموں کے ٹائٹل میوزک بھی شوق سے سنے جاتے تھے۔ سنیماؤں میں انٹرول ختم ہونے پر بھی مخصوص فلمی ٹائٹل کا گراموفون ریکارڈ بجایا جاتا تھا۔ لگتا ایسا ہے کہ فلمساز کے کہنے پر یہ کام ہوا۔ سنیما دیکھنے والے اِس دھن سے بخوبی واقف تھے لہٰذا یہ گیت بے حد مقبول ہوا۔

فلمساز غفار دانہ والا اور اقبال یوسف جس کے ہدایتکار خود اقبال یوسف تھے۔ اُن کی سلور جوبلی فلم ”جوش“ ( 1966 ) :

’ رات چلی ہے جھوم کے را ہوں کو تیری چوم کے آ بھی جا آ بھی جا ”، یہ احمدرشدی کا سولو اور ناہید نیازی اور احمد رشدی کا دوگانا الگ الگ ریکارڈ ہوا۔ گیت نگار فیاضؔ ہاشمی۔

فلمساز و اداکار کمال اور ہدایتکار اقبال یوسف کی سلور جوبلی فلم ”جوکر“ ( 1966 ) : ’پیار میں ہم نے کھائی ہے ٹھوکر، دل ہے ٹوٹا مگر ہم ہیں جوکر ”، آواز احمد رشدی اور گیت نگار فیاضؔ ہاشمی۔

فلمساز نذیر علی اور ہدایتکار رزّاق کی سلور جوبلی فلم ”مجھے جینے د و“ ( 1968 ) مصلح الدین کی بحیثیت موسیقار آخری فلم ہے۔

لندن نقلِ مکانی کر جانا:
1970 کے سیاسی واقعات نے جہاں بہت سے ایسے جوڑوں کو پریشان کیا جِن میں ایک مشرقی اور دوسرامغربی پاکستان سے تعلق رکھتا تھا وہیں مصلح الدین اور ناہید نیازی کے خاندان والے بھی بہت پریشان ہوئے۔ ظاہر ہے مصلح الدین کے گھر والے چاہتے تھے کہ وہ ڈھاکہ آ جائیں جبکہ ناہید نیازی کے گھر والے اِس کے برخلاف سوچتے تھے۔ ایسے میں درمیانی راستہ نکالتے ہوئے مصلح الدین اور ناہید نیازی نے برطانیہ منتقل ہو جانے کا فیصلہ کر لیا۔

ناہید نیازی اور مصلح الدین کے تذکروں میں تمغہء امتیاز ( 1969 ) اور صدارتی حسنِ کارکردگی ایوارڈ ( 1970 ) دیے جانے کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ کچھ ملک کے سیاسی اور کچھ خود اُن کے اپنے حالات ایسے ہو گئے کہ اول تو اول الذکر تقریب ملتوی ہو گئی۔ اور یہ دونوں برطانیہ روانہ ہو گئے۔ جب بالآخر یہ تقریب منعقد ہوئی تو مشرقی پاکستان کے ایک ذمہ دار افسر نے اُن کی عدم موجودگی میں یہ طلائی تمغے وصول کیے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد اُس افسر کا مشرقی پاکستان تبادلہ ہو گیا۔ ناہید نیازی کا کہنا ہے کہ اس تبادلے کے ساتھ وہ طلائی تمغے بھی چلے گئے۔ مزے کی بات یہ کہ دونوں اعلی ترین اعزازات مصلح الدین اور ناہید نیازی نے کبھی دیکھے ہی نہیں۔

بہرحال بات اِن کے برطانیہ جانے کی ہو رہی تھی یہاں دونوں نے مل کر موسیقی سیکھنے والوں کے لئے ایک مرکز قائم کیا۔ مصلح الدین نے ناہید نیازی کے ساتھ ایک مطمئن زندگی گزار کر اگست 2003 میں دارِ فانی سے کوچ کیا۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، افریقہ اور جہاں جہاں اُردو گیت سنے جاتے ہیں وہاں وہاں مصلح الدین اپنے گیتوں میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔

۔
پلے بیک سنگر نجمہ نیازی
یہ 1980 کی دہائی کے اوائل کا زمانہ ہو گا۔ میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے منسلک تھا۔ لیاقت باغ، راولپنڈی میں منعقد ہونے والے دوسرے پی ٹی وی ایوارڈ کے لئے مجھے شعبہء موسیقی کا ذمہ دار بنایا گیا۔ مذکورہ ایوارڈ کی فائنل ریہرسل کے موقع پر اسٹیج پر ایک نا خوشگوار واقعہ پیش آ گیا۔ جِس پر میں نے کچھ سخت سست بات کہہ دی۔ ریہرسل دیکھنے کے لئے اگلی صفوں میں ہیڈ کوارٹر کے افسران بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک ساڑھی میں ملبوس ایک باوقار خاتون نشست سے اُٹھیں اور مجھے بلایا۔ قریب آنے پر کہا:

” بڑی سُر تال کی بات کر رہے ہو۔ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو! “۔
خاموشی کے سوا بھلا کیا جواب ہو سکتا تھا۔
پھر گویا ہوئیں : ”اچھا یہ بتاؤ کہ 60 کی دہائی میں مادام نورجہاں کے علاوہ اور کون سی گلوکارائیں تھیں؟ “۔

میں نے بر جستہ جواب دیا: ”زبیدہ خانم اور نجمہ نیازی“۔
” ناہید نیازی کیوں نہیں؟ “۔ خاتون نے پوچھا۔
” مجھے نجمہ نیازی کی آواز زیادہ پسند ہے۔ حالاں کہ انہوں نے کافی کم فلمی گیت گائے ہیں“۔ میں نے جواب دیا۔ سوال آیا:

” مثلاً کون سے؟ “۔
” گیتوں کے مکھڑے زبانی سُناؤں یاگاکر سناؤں؟ “۔ میں نے برجستہ پوچھا۔
جواب آیا: ”گا کے سُناؤ“۔
میں نے فلم ”ہیرا اور پتھر“ ( 1964 ) کے دوگانے کا مکھڑا ’مجھے تم سے محبت ہے اک بار ذرا دھیرے سے تمہیں میری قسم کہہ دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ اور اسی فلم کے گیت ’آج مجھے کیا ہوا کیسی یہ ہلچل مچی دل نے میرے چھیڑ دی ہلکی سی راگنی، جانے مجھے کیا ملا میں تو دیوانی سی ہوگئی‘ اِس سے پہلے کہ تیسرے گیت کا مکھڑا سناتا انہوں نے کہا :

” بس! “۔ اور ساتھ ہی مسکرا کر کہا:
” تم کو پتا ہے کہ میں کون ہوں؟ “۔
” ہیڈ کوارٹر کی افسر“۔ میں نے جواب دیا۔
مسکرا ئیں اور کہا: ”میں ڈائریکٹر پروگرامز ماہ رُخ زبیر ہوں“، ساتھ ہی ایک اسمارٹ سے صاحب کو بلوایا اور ملاقات کرواتے ہوئے کہا: ”یہ میرے شوہر ڈائریکٹر انجینیرنگ ہیں“۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا :

” اور میں ہی نجمہ نیازی ہوں! “۔
بخد ا یہ میرے لئے ایک خوشگوار زلزلہ انگیز بات تھی۔ میں نے بیساختہ کہا :
” اگر میں نے یہ کہا ہوتا کہ اُس دور کی سب سے کم اچھی آواز نجمہ نیازی تھی تو میری نوکری پھر ختم تھی“۔

” تم ایسا کہہ ہی نہیں سکتے تھی۔ ’‘ ۔ اس پر انہوں نے مُسکرا کر جواب دیا۔
ماہ رُخ زبیر / نجمہ نیازی نے پاکستان ٹیلی وژن کے شروع کے زمانے میں خبریں بھی پڑھیں اور اناؤنسمنٹ بھی کی۔ پھر شعبہ پروگرام میں آ گئیں۔ میری اِن سے ملاقات کے وقت یہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ڈائریکٹر پروگرامز کے عہدے پر فائز تھیں۔ موسیقی، شعر و ادب سے لگاؤ اِن کے لئے ہر قدم پر کام آیا۔

نجمہ نیازی سے گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ آج کل ریٹائر ہو کر اپنے بچوں اور اُن کے بچوں میں بہت خوش رہتی ہیں۔ ظاہر ہے ٹیلی وژن اور فلم کی باتیں کرنا مجھے بھی اور انہیں بھی بہت پسند اور مرغوب ہے۔ انہوں نے اپنے والد سے متعلق بھی کئی باتیں بتائیں۔ آپ پڑھنے والوں کے لئے یقیناً وہ دل چسپی کا باعث ہوں گی۔ اُن کا کہنا ہے :

” میرے والد کی لکھی ہوئی نظم ’اک بار پھر کہو ذرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کو بعض دوسروں کے نام منسوب کیا جاتا ہے۔ میں اس کی دلیل یوں دیتی ہوں کہ جس طرح علامہ اقبالؒ نے شکوہ کے بعد جوابِ شکوہ لکھا بالکل اُسی طرح میرے والد نے اپنے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے اپنی اُس نظم کے جواب میں ’اک بار پھر سنو ذرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ لکھی۔ اپنی ہی لکھی ہوئی پہلی نظم کا یہ جواب تھا“۔ یہ بھی کہا: ”اصل نظم 1930 کی دہائی میں میرے والد صاحب نے آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت کے زمانے میں لکھی اور خود ہی اس کی دھن بھی بنائی“۔

اُسے شمشاد بیگم نے ریکارڈ کرایا ”۔ اسی طرح اُن کے والد جناب سجاد سرور نیازی کی لکھی ہوئی نعت ’پیغامِ صبا لائی ہے گلزارِ نبی سے، آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبی سے‘ کے بارے میں بھی نجمہ نیازی نے کہا:“ یہ نعت میرے والد صاحب نے لکھی اور انہیں کی بنائی ہوئی طرز میں شمشاد بیگم کی آواز میں آل انڈیا ریڈیو میں ریکارڈ ہوئی ”۔ ایک اور غلط فہمی کا بھی ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا:“ بعض جگہوں میں ابو الاثر حفیظ جالندھری کی نظم ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ میرے والد صاحب سے منسوب کر دی جاتی ہے جو کہ صریحاً غلط ہے ”۔

ایک اور دلچسپ بتاتے ہوئے کہا: ”میرے والد صاحب ہمیں مختلف لوگوں سے اپنی ملاقاتوں کا بتلاتے رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ کہنے لگے کہ میں اکثر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒؒ کے پاس ہارمونیم لے کرجایا کرتا۔ اُن کو اُن کے کلام کے علاوہ دیگر شعراء کا کلام سُناتا۔ ایک روز جب کہ علامہ اقبالؒ کی زوجہ کا انتقال ہوا تھا اور تدفین کے بعد میں ڈاکٹراقبالؒ کے پاس بیٹھا تھا اور وہ غمزدہ اور اُداس بیٹھے تھے۔ اچانک مجھ سے کہا کہ جاؤ اپناہارمونیم لے آؤ۔ میں بیساختہ بولا ’آج؟ ‘ ۔ کہنے لگے کہ ہاں آج! اِس غم اور اُداس لمحے کے لئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “۔ نجمہ نیازی کا کہنا ہے کہ ایسی باتوں کا لوگ اپنے اپنے مطالب نکال لیتے ہیں۔ لیکن علامہ اقبالؒ کے پائے کے لوگ خاص ہوتے ہیں۔

نجمہ نیازی کے چند مشہور گیت:
” ہیرا اور پتھر“ ( 1964 ) ’آج مجھے کیا ہوا کیسی یہ ہلچل مچی دل نے میرے چھیڑ دی ہلکی سی راگنی، جانے مجھے کیا ملا میں تو دیوانی سی ہو گئی‘ گیت نگار موجؔ لکھنوی اور موسیقار سہیل رعنا، ’مجھے تم سے محبت ہے اِک بات ذرا دھیرے سے تمہیں میری قسم کہہ دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت مسرورؔ انور، موسیقی سہیل رعنا، ”جھومر“ ( 1959 ) ’دلہنیا روتی مت جانا، اپنے آنسو اپنی آہیں، ہم سکھیوں کو دے جانا‘ ۔ تنویرؔ نقوی کے اس خوبصورت وِداعی گیت کو نجمہ نیازی کے ساتھ آئرین پروین اور ساتھیوں نے خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں ریکارڈ کروایا، ”کوئل“ ( 1959 ) ’رِم جھمِ رِم جھم پڑے پھوار۔

۔ ۔ ۔ ۔ ”ناہید نیازی کے ساتھ، گیت تنویرؔ نقوی اور موسیقی خواجہ خورشید انور، “ شکوہ ” ( 1963 ) ‘ پھر دروازہ کھلا کوئی ہوا چلی ویرانوں میں، جھوم کے میرا دل دیوانہ کھو گیا ارمانوں میں ’گیت منیرؔ نیازی، موسیقی حسن لطیف، “ چکوری ” ( 1967 ) ‘ رُت ہے جواں دن سہانا دل ہو گیا ہے دیوانہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’گیت اخترؔ یوسف، موسیقی روبن گھوش، “ آخری اسٹیشن ” ( 1965 ) ‘ ہائے اللہ مشکل میں ہے میری جان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’گیت سرورؔ بارہ بنکوی، موسیقی خان عطا الرحمن خان۔ “ باجی ” ( 1963 ) ‘ نہ کوئی وعدہ کیا نہ کوئی کھائی قسم، جھُک گئی پھر بھی نظر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’گیت احمد راہیؔ اور موسیقار سلیم اقبال، “ تاج محل ” ( 1968 ) ‘ آیا خوشیوں کا رنگین زمانہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’احمد رُشدی کے ساتھ دوگانا، موسیقار نِثار بزمی، “ نادرہ ”

( 1967 ) ’بچھا دیں اگر ہم نے راہوں میں آنکھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ مالا کے ساتھ دوگانا، موسیقار کمال احمد۔
ایک مرتبہ باتوں باتوں میں نجمہ نیازی نے مجھے بتایا کہ ریڈیو پاکستان لاہور میں کسی جشنِ بہاراں کے موقع پر انہوں نے حسن لطیف کی موسیقی میں مولانا حسرتؔ موہانی کی کچھ مشہور غزلیات ریکارڈ کرائی تھیں۔ ایسے ہی مسرورؔ انور کے بعض گیت ریڈیو پاکستان کراچی کی ٹرانسکرپشن سروس میں ریکارڈ کروائے تھے جو اب کہیں بھی دستیاب نہیں۔ انہوں نے ایک اوردلچسپ بات بتلائی: ”ہیرا اور پتھر“ کے فوراً بعد موسیقار سہیل رعنا نے مجھے ایک ایل پی ریکارڈ بنانے کی پیشکش کی لیکن میں نے اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

ناہید نیازی اور نجمہ نیازی بے شک پاکستانی فلموں کے سنہری دور کی نمائندہ ہیں۔ ناہید نیازی تو خیربرطانیہ ہی میں رہتی ہیں۔ لیکن نجمہ نیازی پاکستان میں ہوتی ہیں۔ انہوں نے ایک بھرپور پیشہ ورانہ زندگی گزاری۔ ایسے لوگوں کے سینے بیش قیمت واقعات سے بھرے ہوتے ہیں۔ میری نجمہ نیازی سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اہم واقعات اور اپنے والد سے متعلق غلط معلومات کو درست کرتے ہوئے کچھ تحریر کریں۔ یہ ایک تاریخ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments