وبا: آج، کل اور ڈسٹوپیائی فکشن


آنے والے کل کے بارے میں تجسس انسان کو ابتدا ہی سے رہا ہے لیکن اس کے سلسلے میں باقاعدہ تشویش اور اضطراب آدمی کو جدید عہد میں لاحق ہوئے۔ جب جدید انسان نے اس سچائی کو تسلیم کر لیا کہ اسے اپنے سماجی مسائل اور مصائب کو سمجھنے اور حل کرنے میں دیوتائوں سے مدد نہیں ملے گی تو اس نے اپنے آج اور کل کی تعمیر خود کرنے کا فیصلہ کیا۔ ننگے سر، ننگے پیر، تپتے صحرا، سنگلاخ پہاڑوں اور بے کنار سمندروں میں ایک بڑے خواب کے ساتھ سفر کا نتیجہ اضطراب اور تشویش تو ہونا ہی تھا! آج یا آنے والے کل کی فکر ہو تو گزرے کل سے تعلق کمزور ہوجائے گا۔ اسے ہم الٹا کر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جنھیں گزرے کل کی فکر زیادہ رہتی ہے، انھیں آج اور آنے والے کل کی پروا نہیں ہوتی۔ یہ ایک بنیادی سبب ہے جدید اور روایتی سماجوں میں کشمکش کی۔ بہ ہر کیف آج سے متعلق تشویش اور کل کے بارے میں فکر مندی جدیدیت کا خاصہ ہے۔ لہٰذا یہ اتفاق نہیں کہ ادب وآرٹ میں مستقبلیت کی تحریک بیسویں صدی کے اوائل میں جدید مغرب (اٹلی) میں شروع ہوئی اور پھر باقی دنیا میں پھیلی۔

اس کا منشور جدید زندگی کی تیزرفتاری، ترقی اور صدمہ پہنچانے والی تبدیلیوں کو نہ صرف قبول کرنا تھا بلکہ آرٹ کی بنیاد بھی انھی پر رکھنی تھی۔ جدید آرٹ پر یہ تہمت ہے کہ وہ سماج سے لاتعلق ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ جدید آرٹ سے زیادہ حقیقت پسند کوئی نہیں۔ یہ باہر اور اندر کی دنیائوں کو ان کی اس اصلی شکل میں پیش کرتا ہے، جس کا تجربہ آدمی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں اور کثرت سے ہے جو اندر اور باہر کی دنیا کا تجربہ کرتے ہی نہیں، وہ مسلسل ایک خیالی، مثالی اور آدرشی دنیا میں جیتے ہیں۔ (رشک آتا ہے ایسے لوگوں پر!)۔ یہ لوگ وبا کو وبا نہیں، ایک سازش یا سزا سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں یہ لوگ غیر معمولی طور پر تخیل پرست ہوتے ہیں۔

چوں کہ جدید (مابعد جدید) آرٹ جو ہے، دسترس میں ہے، حس و دل و دماغ پر واقعتاً اثرانداز ہو رہا ہے، اس کو پیش کرتا ہے، اس لیے وہ کسی یوٹوپیا کی تخلیق نہیں کرتا۔ یہ آدمی کی روح اور سماج کی تاریکی کو پوری دیانت داری اور جرآت سے پیش کرتا ہے۔ یعنی ہمیں مائل کرتا ہے کہ ہم قبول کریں کہ انسانوں کے اندر بہیمیت ہے، ان کے اندر بھیڑیا بستے ہیں، وہ شیطان کو بھی مات دے سکتے ہیں، وہ خیر کی سب قوتوں اور تصورات کو راکھ کر سکتے ہیں لیکن اس سے بھی یہ ادب بے نیاز نہیں کہ یہ آدمی ہی ہے جو آدمی کے اندر کی بہیمیت، بھیڑیوں، شیاطین کے خلاف جدوجہد کرتا ہے۔ وہ آخری شکست قبول نہیں کرتا۔ وہ فاوسٹ ہے، سنتیاگو ہے۔ دوسرے لفظوں میں جدید آرٹ اسی جدوجہد کے ذریعے ایک ایسی روشنی دریافت یا تخلیق کرتا ہے جو ہر چند عارضی ہے مگراسے تاریکی کے مقابل جینے کی ہمت اور جواز عطا کرتی ہے۔ اس لیے اس میں حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ جدید عہد ہی میں سب سے زیادہ ڈسٹوپیائی تحریریں لکھی گئی ہیں۔ اس میں بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وبا کے ان دنوں میں وہ ادب زیادہ کیوں پڑھا جا رہا ہے اور وہ فلمیں کیوں دیکھی جا رہی ہیں جن میں سرخ موت، مکمل بربادی اور لامحدود تاریکی کا ذکر ہے۔

Jack London

مغرب میں ایسے فکشن کی تاریخ تقریباً دو سو سال پرانی ہے، یعنی جدید صنعتی عہد کے آس پاس کی۔ چند ایک کا ذکر 1826ء میں میری شیلے کا ناول The Last Man چھپا۔ جس میں طاعون سے تباہ ہونے والی دنیا کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ بس ایک آدمی بچا ہے۔ جیک لنڈن کاناول The Scarlet Plague 1915 میں کتابی صورت میں شایع ہوا۔ جس میں 2073 کے واقعات لکھے گئے ہیں (دی لاسٹ مین کے واقعات کا زمانہ بھی یہی ہے) جب دنیا سرخ موت سے تباہ ہو چکی ہے اور ایک شخص ساٹھ سال پہلے برپا ہونے والی سرخ موت کی کہانی سنا رہا ہے۔ چھ سال بعد ہسپانوی انفلوئنزا کی وبا پھوٹتی ہے۔ 500 ملین لقمہ اجل بنتے ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ دنیا بدل جائے گی۔ وہ امید کرتے ہیں کہ اس وبا نے انسانوں کو موت کی سچائی سے جس بھیانک اور کریہہ انداز میں متعارف کروایا ہے، وہ زندگی کو ایک نعمت سمجھیں گے۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ 1920 میں یہ وبا ختم ہوجاتی ہے اور 19 برس بعد یہی مغربی دنیا دو حصوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں جس طرح کا نیا تباہ کن اسلحہ استعمال ہوتا ہے، اسے دیکھنے سے خیال آتا ہے کہ وبا کے بعد کے 19 سال صرف ایک کام میں صرف ہوئے ہیں: ایسے بموں کی تیاری میں جن سے اس سیارے پر موجود انسانی مخلوق کو چند لمحوں میں مٹایا جا سکے۔ جدید عہد کی یہ ایک ایسی بھیانک حقیقت ہے جسے ادب پیش کرتے ہوئے اسے چھپاتا ہے نہ اس سے ڈرتا ہے۔

اس کے بعد ڈسٹوپیائی فکشن کی ایک لمبی فہرست ہے جسے انٹر نیٹ پر تلاش کرنا کچھ مشکل نہیں۔ صرف چند ایک ذکر۔ یوجینی زمائتن کا We۔ اس کا کم ذکر ہوتا ہے لیکن ا س روسی ناول کا اثر بعد کے کئی نالوں پر پڑا۔ ولیم گولڈنگ کا Lord of Flies۔ آلڈس ہکسلے کا Brave New World اور جارج آرویل کا 1984۔ ان دونوں میں مستقبل کی دنیا کا نقشہ پیش ہوا ہے۔ یہ کہ مستقبل کی دنیا کس طرح ٹیکنالوجی سے قابو میں رکھی جائے گی۔ کس طرح انسانوں کے خیالات ہی کو نہیں ان کے سوچنے کے طریقوں کو قابو میں رکھا جائےگا۔ جدید ادب اور جدید سیاست دو مختلف سمتوں میں چلتے ہیں۔ جدید ریاستیں فرد کی آزادی سے نالاں نظر آتی ہیں۔ جو آزادنہ سوچ سکتا ہے، وہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔ جدید ریاستوں کے نظام حکومت کا سب سے اچھا تجزیہ میشل فوکو نے کیا ہے۔ اس کا Governmentalityکا تصور واضح کرتا ہے کہ کس طرح لوگوں کو جسموں اور ذہنوں کو محکوم رکھنے کے لیے سرکاری عقل یا governmental rationality اختراع کی جاتی اور کام میں لائی جاتی ہے۔ ہمارے اکبرالہ آبادی نے تو انیسویں صدی کے آخر میں خبردار کردیا تھا :”جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے”۔ جدید ادب سرکاری عقل کی پیدا کردہ تاریکی کو پیش کرتا ہے۔

مارگریٹ ایٹووڈ کا Handmaid Tale، ڈیوڈ برن کا The Postman اور حوزے ساراماگو کا “اندھے لوگ” بھی دنیا کی ایک مایوس کن، تاریک تصویر پیش کرتے ہیں۔ خو د ہمارے یہاں پہلے منٹو اور پھر غلام عبا س نے ڈسٹوپیائی فکشن لکھا۔ منٹو کا “اللہ کا بڑا فضل ہے “(1948) اور غلام عباس کا “دھنک ” (1969)۔ دونوں میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستان میں اسلامی انقلاب آگیا ہے اور مذہبی حکومت قائم ہو گئی ہے۔ اس انقلاب میں جس کے لیے صلیب تیار ہوتی ہے، وہ ہے جدیدیت اور مغربیت۔ جدید مغربی دنیا کی سب نشانیا ں (سکول کالج سے لے کر خواتین کی ملازمت، سب آسائشیں، کھیلیں، فنون، عشقیہ شاعری، مصوری، اور ان کے ادارے سب کچھ ) مٹا دی جاتی ہیں۔ “دھنک ” کا آغاز چاند پر کیپٹن آدم خاں کے چاند پر قدم رکھنے کے اعلان سے ہوتا ہے اور خاتمہ کسی پاکستان نام کے ملک کے کھنڈرات دکھانے پر ہوتا ہے۔

انتظار حسین کے “آخری آدمی ” اور “زر د کتا ” میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ آدمی کے زوال و تاریکی کی آخری حد کیا ہوسکتی ہے؟ لیکن اس سے پہلے کافکا اپنے لازوال افسانے “میٹا مارفوسس” میں دکھا چکا تھا کہ آدمی اپنے اندر کتنی تاریکی اور خود شکنی کا سامان رکھتا ہے اور وہ کون سی اندھی غار ہے جہاں آدمی اکیلا گرتا اور کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا! مغرب اور ہمارے ڈسٹوپیائی فکشن کا فرق ظاہر ہے! ہمار ے ڈسٹوپیائی تخیل کو مذہب زنجیر کیے ہوئے ہے اور مغرب کے اس نوع کے فکشن کی روح سائنس و ٹیکنالوجی ہے یا جدید نفسیات۔ ایک اور فرق بھی ہے۔ اردو میں شاید ہی کوئی ناول ہو جس میں پور ی دنیا کے خاتمے کا تصور پیش ہوا ہو۔ اردو ادیب سماجی آزادی ہی نہیں، عقل اور تخیل کی آزادی سے بھی سہما ہوا ہے۔ اس نے اگر فنتاسی لکھی بھی ہے تو تفریحی۔ جاسوسی ادب کو یاد کیجیے۔

 دراصل تمام ڈسٹوپیائی فکشن فنتاسی (جو کبھی سائنسی اور کبھی سماجی ہے) کے ذریعے یہ دکھاتا ہے کہ جس حقیقت کا آپ روزمرہ زندگی میں تجربہ کررہے ہیں، اس کی انتہا کیا ہوسکتی ہے۔ دستوفسکی کا Notes from Underground کا مرکزی کردار خاص طور پر بتاتا ہے کہ آدمی (ایک عام سا سرکاری ملازم) معمولی سے معمولی چیز کے لیے کتنا حساس ہوسکتا ہے۔ یہ ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنے کے قابل بناتا ہے کہ انسانی دنیا میں مایوسی، تاریکی، موت، بربادی کی انتہا کیا ہوسکتی ہے۔ ان میں سے اکثر ناول اور افسانے ایک آخری آدمی کا تصور پیش کرتے ہیں۔ یہ دو وجہیں ہیں کہ وبا کے دنوں میں ڈسٹوپیائی ادب شوق سے پڑھا جارہا ہے۔ یعنی آدمی سچائی کا سامنا کرنے کو تیار ہے، خواہ وہ کتنی ہی بھیانک اور دہشت انگیز کیوں نہ ہو۔

ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ عام خیال کے برعکس بھیانک سچائیوں کا سامنا آدمی کو جرآت مند بناتا ہے، اسے ذہنی بلوغت عطا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ فکشن اس لیے بھی پڑھا جاتا ہے کہ اس میں عموماً ایک آخری آدمی دکھایا جاتا ہے جو بربادی کی کہانی سناتا ہے یا تاریکی کے خلاف اکیلا جدوجہد کرتا ہے۔ تنہائی میں پڑھے جانے والے ناول میں اکیلے آدمی کی عناصر یا تاریکی کے خلاف آخری سانس تک جدوجہد ایک خاص معنی اختیار کرلیتی ہے۔ سینما کے نقاد بتا سکتے ہیں کہ کیا وہاں ایک آدمی کی شر کی قوتوں کے خلاف جدوجہد کا دیکھنے والوں پر وہی اثر ہوتا ہے جو ایک ناول کے قاری پر ہوتا ہے؟ غم کی شام ہی نہیں، رات بھی لمبی ہوسکتی ہے مگر بہ ہر حال وہ رات ہے۔ اس گزر جانے والی دنیا کی گزر جانے والی حقیقت!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments