عوام کی آواز کیوں سنی نہیں جاتی


فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں لکھا گیا تھا کہ ”جس عورت کے تیزاب زدہ چہرہ پر فلم بنائی تھی وہ دھکے کھا رہی ہے اور شرمین عبید اس کا معاوضہ کھا کر اور آسکر ایوارڈ سمیٹ کر سیلیبرٹی بن گئی“

صرف شرمین عبید ہی کیوں؟ سول سوسائٹی کے سب افراد شرمین عبید ہی ہیں، این جی اوز کا کام ہی یہی ہے کہ مظلوموں کے دکھ اور کرب کو کیش کروا کے عیاشیاں کی جا سکیں۔

یہ سول سوسائٹی کے گدھ ہوتے ہیں جو نعشیں نوچ کر کھاتے ہیں۔ کچھ اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں، پاکستان کی ایک تنظیم کی معاونت سے بالی ووڈ نے بہت عمدہ آرٹ مووی بنائی جو حقیقی کردار کے گرد گھومتی ہے، اس فلم میں مشہور اداکارہ نندیتا داس نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

رامچند پاکستانی!

رامچند کولہی (فرضی نام) آج بھی زندہ ہے، مجھے پتا نہیں کہ اس فلم کا کتنا بزنس ہوا مگر یہ جانتا ہوں کہ جاوید جبار کی فیملی آج کروڑپتی بن چکی ہے اور رامچند آج بھی جھڈو کے قریب کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ ہم نے جب ان سے پوچھا کہ آپ کی زندگی پر بنی فلم کی کہانی سے آپ مطمئن ہو؟ تو ان کا کہنا تھا کہ میں نے اب تلک یہ فلم ہی نہیں دیکھی!

پھر ہم کو یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہیں ہوئی کہ آپ کو کیا مالی فائدہ پہنچا، ان سے ہم یہ بھی پوچھنے کی جرات نہ کر سکے کہ آپ بھی ایک انسان ہیں اور آپ کے نام اور پس منظر بشمول ذات اور گاؤں کو ظاہر کرتے ہوئے ایک فلم بنائی گئی کیا ان کی آپ سے اجازت طلب کی گئی؟

آپ سے ضرور مشورہ کیا گیا ہو گا کہ آپ کے متعلق ان مناظر کی عکس بندی کی جائے یا نہیں؟

پورے ڈیرے میں کسی کو بھی پتا نہیں تھا کہ ہمارے درمیان موجود راملے (رامچند پاکستانی) پر فلم بھی بن چکی ہے۔ اگلی بار ہم نے حیدرآباد سے سی ڈی خرید کر دوبارہ ان کے پاس گئے اور ایک سادہ لیب ٹاپ پر رامچند کو یہ فلم دکھائی تو وہ حیرانی اور دلچسپی کے ساتھ دیکھتا رہا اور آخر میں ہم سے کہا کہ آپ یہ سی ڈی مجھے دے دو۔ جب میں نے ان کے ہاتھ میں سی ڈی ڈسک دی تو اس نے اسے توڑ کر چولہے میں ڈال دی، اگر وہ چاہتا تو بغیر اجازت سے ان کی ذات پر بنی گئی مووی پر کیس دائر کرتا، ڈائریکٹر اور جاوید جبار کی بیٹی کو کورٹوں میں گھسیٹتا مگر دو مجبوریاں تھیں، تعلیم کا فقدان اور غربت۔

اگر وہ اس معاملے پر کیس ہی کرے تو بھی کر نہیں سکے گا، یا تو پہلے ہی اس کی رضامندی اور اجازت لی گئی ہو گی اور عدالت میں وہ دستاویز بھی وہ دستاویز بھی پیش کر سکتے ہیں جس میں انگریزی ڈرافٹ کے نیچے ان کا انگوٹھا لگا ہو گا یا پھر کسی اور طریقے سے اس کو خاموش کروانا سول سوسائٹی کے لیے مسئلہ ہی نہیں ہے۔ آخر وہ تو احسان کے تلے دبا بھی تو ہے کہ اس کیس میں اس تنظیم نے ان کی مدد کی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ آخر وہ اس مسئلے پر کیس ہی کیسے دائر کرا سکتا ہے جس میں وکیل کی فیس اور دیگر اخراجات لاکھوں روپے میں ادا کرنے پڑیں۔ وہ تو پانچ ہزار کے قرضے کی وجہ سے پورا سال زمیندار کی زمین پر کام کرنے کو مجبور ہے الٹا اس کا قرضہ محنت کے باوجود بڑھتا ہی جا رہا ہے اور یہ بھی اس کی زندگی کا ہر لمحہ ہتک و توہیں آمیز سلسلے کی داستان ہے۔ کس کس کے خلاف ہتک آمیز رویے کی شکایت کرے؟

بس ان کے بس میں جو تھا وہ ہی اس نے کر دکھایا یعنی اپنی زندگی پر بنی فلم کی سی ڈی ڈسک ہی توڑ دی۔ بس۔ قصہ تمام۔

رامچند آج بھی مزدوری کر کے بمشکل زندہ رہنے کی جستجو میں لگا ہوا ہے، وہ انڈیا اور پاکستان کا بارڈر تو غلطی سے پار کر بھی گیا مگر طبقاتی بارڈر کراس کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔

ایک اور مثال دلت کسان منو بھیل کی ہے۔

منو بھیل کے اہلِ خانہ کو سندھی جاگیردار رحمان مری نے مبینہ طور پر 15 سال پہلے اغوا کیا تھا جو آج تلک لاپتہ ہیں۔ یہ قومی ہی نہیں مگر بین اقوامی اشو بن گیا۔ ہیومن رائٹس کمیشن سے لے کر کئی این جی اوز نے منو بھیل کو بلینک چیک سمجھا اور لاکھوں ڈالرز بٹورے مگر منو کو انصاف نہیں مل سکا۔ ان کے اہلِ خانہ آج بھی وڈیرے کے حصار میں قید ہیں جہاں نہ تو پاکستان کی ”متحرک عدلیہ“ کا قانون چلتا ہے اور نہ ہی نمبر ون کے نظروں میں آ سکے ہیں۔ منو بھیل ہوسڑی کئمپ پر عبرت کا نشانہ بنا ہوا ہے اور این جی اوز کے پروگراموں میں 100 روپے دہاڑی اور بریانی پیکٹ کے سہارے اپنے دن گن رہا ہے۔

ویرو کولہن ایک اور مثال ہے،

سول سوسائٹی کی رول ماڈل عورت کہا جاتا ہے مگر ایک غریب کسان عورت کو بھینس سمجھ کر سول سوسائٹی اور فیمنزم کے دلال این جی او لیڈرز نے اس سے بہت دودھ نکالا ہے۔

جب ان کو امریکہ کے ایک ادارے نے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا تو یہاں کی این جی او نے ان سے معاہدہ کیا کہ ایوارڈ کی چالیس ہزار ڈالر رقم وہ باس کو ہی دے گی اور اس نے ایسا ہی کیا۔

ویرو کو الیکشن میں کھڑا کیا جاتا ہے اور سول سوسائٹی کے سرغنہ معاہدہ کر کے لاکھوں روپے بٹورتے ہیں، ویرو کولہن آج بھی جھونپڑی میں رہتی ہے اور ان کا ذریعہ معاش کیا ہے وہ لکھنا ہی فضول ہے۔

ایک صحافی دوست سے کچھ سال پہلے ملاقات ہوئی اور باتوں باتوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اخبارات میں جو ناجائزی، قتل، زیادتی کے جو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ہائی لائیٹ بھی ہوتے ہیں کیا ان سے انصاف ہوتا ہے؟ پھر کئی ایسے ایشوز زیر بحث آئے جو کسی وقت میں میڈیا اور سماج میں بھی بڑی حد تلک اچھالے گئے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ پرانی اخبار کی طرح غیراہم ہی رہ گئے۔ اکثر کیسز میں میڈیائی کوریج اور کچھ حلقوں کے سیاسی پریشر کے باوجود بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا مگر یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کی پاداش میں کچھ سیاسی عناصر، صحافی اور سول سوسائٹی کے لوگوں کی لاٹری کھل جاتی ہے اور وہ اپنا معاشی طبقہ بھی تبدیل کرلیتے ہیں۔

متاثر لوگ پھر وہی ظلم سہ کر اپنی زندگی شروع کرتے ہیں۔ جنسی زیادتی کے اکثر کیسز منظر عام پر نہیں آتے متاثر خواتین اور بچیاں خاموشی سے ظلم سہتی ہیں اور برداشت کرنے سے اور زیادہ زیادتیاں ہوتی ہیں مگر بدنامی کے خوف سے چپ سادھنا پڑتی ہے اور ہمارے سماج میں یہ معمول سا بن گیا ہے مگر ہزاروں میں ایک کیس جب عزت و جان کی پرواہ کیے بغیر میڈیا پر آتا ہے تو صحافیوں، سیاسی رہنماؤں اور ذات برادری اور قبیلوں کی سیاست کرنے والوں کے لیے کسی سنہری موقعے سے کم نہیں ہوتا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں غریب طبقے کی کوئی موثر آواز نہیں ہے اور جو کچھ احتجاج دکھائی دیتا ہے وہ سول سوسائٹی اور سیاسی گروپوں کے پیشہ ور عناصر کا بارگیننگ کا کھیل ہوتا ہے اور اس کھیل میں انصاف حاصل کرنے کے بجائے بارگیننگ ہی منزل ہوتی ہے۔ اس طرح غریب طبقات کا سیاسی تحریکوں، سول سوسائٹی اور اس سسٹم کے عدالتی نظام سے بھی اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ ٹریڈ یونینوں کے عہدیدار ملز مالکان سے مل چکے ہیں اور مزدوروں کسانوں کا استحصال کسی بھی ٹریڈ یونین کا موضوع نہیں ہے وہاں سرکاری ملازموں کی یونینیں بھی مختلف سیاسی گروپس کے بغل بچے بن چکی ہیں۔

عام ملازم کے مسائل خود ان کی یونینوں کی قیادت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ اس طرح عوام کی روایتی سیاسی جدوجہد سماج میں مکمل طور دم توڑ چکی ہے اور اس کی جگہ لینے والی غیر سیاسی قوت سول سوسائٹی اور این جی اوز بھی عوام کے لیے خود ایک مسئلہ بن گئے ہیں اور بیگانگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو بہرحال کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ مادی فطرت کی طرح انسان کی سماجی فطرت بھی اپنا راستہ خود پیدا کرتی ہے اور سماجی بیگانگی کا منطقی انجام بھی ایسا ہی ہوگا۔ آسکر وائلڈ نے کہا تھا کہ آوازیں دبائی نہیں جا سکتی اور جو آوازیں دبائی جاتی ہیں وہ بے رحم اور بھدے طریقے سے اپنا ردعمل دکھاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments