کورونا وائرس: ’جلد سرحد نہ کھلی تو مشکلات بڑھ جائیں گی‘


کشمیری خاتون

پانچ برس قبل انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے شادی ہو کر پاکستان آنے والی زارا کو گھر والوں سے ملاقات کے لیے ویزے کے حصول میں مشکلات اور سرحد پر چبھتے سوالات کا سامنا تو تھا ہی لیکن کورونا وائرس نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

زارا کا تعلق سری نگر سے ہے اور ان کی شادی اسلام آباد میں مقیم ان کے کزن سے سنہ 2015 میں ہوئی تھی۔

ان کا کہنا ہے ’یہ تو معلوم تھا کہ شادی کے بعد گھر والوں سے ملنے جانا ایک مشکل مرحلہ ہوگا، کیونکہ پہلے بھی جو شادیاں پاکستان میں ہوئیں تو سرحد پار آنا جانا ایک مشکل کام رہا۔‘

زارا نے بتایا کہ اپنے پہلے بیٹے کی پیدائش کے موقع پر وہ اپنے والدین کے گھر گئی تھی تاہم اب جب وہ دوبارہ حاملہ ہیں سرحد بند ہونے کی وجہ سے وہ شاید نہ جا پائیں۔

یہ بھی پڑھیں

’مودی کی وجہ سے زندگی کا سب سے بڑا دن خراب ہوا ہے‘

کشمیریوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ ہے؟

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پھنسی پاکستانی خواتین

کرتار پور بارڈر کے کھلنے کا انحصار انڈیا پر: پاکستان

’میرے پاس ہندوستان کا ہی پاسپورٹ ہے اور بیٹے کی پیدائش کے لیے بھی اسی لیے کشمیر گئی کہ اس کا پاسپورٹ بھی ہندوستان کا ہی بنے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر ہم پاکستانی پاسپورٹ لے لیں تو پھر ہندوستان جانے کے لیے کم سے کم آٹھ سے نو مہینے پہلے درخواست دینی پڑتی ہے اور اکثر ویزا مسترد بھی ہو جاتا ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ ویزا لگے گا بھی کہ نہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ بچے کی پیدائش کے لیے انڈیا جانے سے اخراجات میں کہیں زیادہ اضافہ ہوتا ہے لیکن والدین سے ملاقات کی خواہش سب پر بھاری پڑتی ہے۔

کشمیری خاتون

’سارے خرچے بڑھ جاتے ہیں جس میں ڈیلیوری کے لیے یہاں سے جانے اور پھر وہاں رہنے کا خرچہ کیونکہ مہینے لگ جاتے ہیں وہاں بچے کا پاسپورٹ بنوانے میں۔ وہاں ہسپتال بھی اتنے اچھے نہیں جتنے اسلام آباد میں ہیں لیکن ماں باپ کو ایک بار دیکھ لوں، اس لیے یہ ساری قربانیاں دینی پڑتی ہیں‘۔

انھوں نے بتایا کہ ان کی نانی کی شادی بھی پاکستان میں ہوئی تھی اور وہ اپنے خاندان سے 35 سال نہیں مل پائیں کیونکہ ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان کے بچوں کا پاسپورٹ پاکستانی تھا اور دوسری وجہ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات خراب تھے۔

’جب میرا رشتہ ہوا تب بھی سب کو یہی فکر تھی، لیکن فیملی اچھی تھی اور میرے لیے بھی اس وقت یہ بات زیادہ اہم تھی کہ میرا شریکِ حیات اچھا ہونا چاہیے‘۔

اس مرتبہ زارا کی راہ میں دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کے علاوہ کورونا وائرس بھی آ گیا ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پاکستان نے 19 مارچ کو واہگہ بارڈر بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

زارا کے مطابق ’اگر سرحد بند رہی تو ہمارے لیے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ دوسرے بچے کی پیدائش اگر پاکستان میں ہوئی تو پھر مستقبل میں کشمیر جانے میں مشکل پیش آئے گی اور مجھے ڈر ہے کہ شاید میں اپنے گھر والوں سے نہ مل سکوں۔‘

کشمیری خاتون

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انڈین پاسپورٹ کے باوجود انھیں سرحد پر تحقیقات کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔

’وہ مجھ سے پوچھتے ہیں پاکستان میں شادی کیوں کی، کیا کشمیر میں کوئی نہیں ملا آپ کو۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا جواب دوں، کشمیری اگر پاکستان جائے تو اسے مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا اور انڈین بارڈر پولیس بھی ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شادی کہ وقت ان کے شوہر کو انڈین ویزا بہت مشکل سے ملا تھا۔ ’وہ بالکل آخری وقت پر پہنچے تھے۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ شاید شادی کی تاریخ آگے بڑھانی پڑے۔‘

زارا اب پاکستان اور انڈیا کی سرحد کھلنے کی منتظر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر بچے کی پیدائش سے ایک مہینہ پہلے بھی سرحد کھل گئی تو میں چلی جاؤں گی ورنہ آگے ویزے کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔

’میں یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔ ہم دعا کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا جلد ختم ہو تاکہ میں جا سکوں۔ چھ ماہ بعد ویزے کی تجدید بھی کروانی ہوتی ہے۔ اب اگر سرحد نہیں کھلی تو میں شاید اپنے گھر والوں سے کئی سال نہ مل پاؤں‘۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp