کورونا وائرس: ایسے پراسرار وائرس جو فلو سے زیادہ خطرناک ہوں گے


انگلش سویٹ

یہ (وائرس) برطانیہ کے نئے بادشاہ کی فوج کے ساتھ آیا ہے۔

کچھ روز قبل لیسسٹر شائر کے بوس ورتھ کے دلدل والے میدانوں میں لاکھوں افراد اپنی جان بچانے کی جدوجہد کر رہے تھے۔

سنہ 1845 کی گرمیوں میں رچرڈ سوئم کی بوس ورتھ کے میدان میں مرنے کے ساتھ ہی ہینری توڈور اور رچرڈ سوئم کے درمیان رقابت بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی۔ ہینری ہفتم اپنے فوجی دستوں کی سربراہی کرتے ہوئے انھیں لندن لے آئے۔

انھیں اس بارے میں بہت کم علم تھا کہ وہاں انھیں ایک مخلتف طرح کا مہلک خطرہ درپیش ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

آخر کورونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟

وہ پانچ وبائیں جنھوں نے دنیا بدل کر رکھ دی

کروڑوں جانیں لینے والے ہسپانوی فلو سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟

اس کی پہلی علامات میں سے عام پریشانی کا ہونا تھا جو بعد میں جسم میں ٹوٹ پھوٹ، درد اور سردرد کی وجہ بن جاتی تھی۔ اس کے بعد پسینہ آنا شروع ہو جاتا ہے۔

متاثرہ شخص پسینے میں شرابور ہو جاتا، جس کے نتیجے میں اسے جہاں سخت پیاس محسوس ہوتی وہیں اس کی ہیجانی کیفیت طاری ہو جاتی۔

اس کے بعد پھر متاثرہ فرد کو نیند ستانا شروع کر دیتی۔

اگر اس میں تکلیف برداشت کرنے کی ہمت نہ رہتی تو پھر ایسے میں اس کی موت واقع ہوجاتی۔ اس وبا سے مرنے کا تناسب 50 فیصد تک تھا۔ فوج اپنے ساتھ ایک عجیب اور نامعلوم بیماری لے آئی۔

’انگلش سویٹ‘ یعنی پسینے کے نام سے پکارے جانے والی یہ بیماری خطرناک حد تک پورے لندن شہر تک پھیل گئی اور صرف چھ ہفتوں میں 15000 افراد اس سے ہلاک ہو گئے۔

رفتہ رفتہ یہ بیماری ختم ہو گئی لیکن اپنے خاتمے سے پہلے یہ یورپ تک پھیلی اور کئی انسانوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیا۔

کئی ماتم کرنے والوں اور اس سے بچ جانے والوں کو یہ مرض سنگین خطرے سے بخوبی آگاہ کر گئی۔

یہ بیماری بار بار آتی رہی۔

اس بیماری کی دہشت کا راج بادشاہ ٹیوڈر کی اگلی نسل تک منتقل ہو گیا اور اگلی صدی میں اس وائرس نے مزید چار بار حملہ کیا۔

بادشاہ ہینری ہفتم کے بیٹے ہینری ہشتم اس وبا سے بہت خوفزدہ ہوگئے تھے۔ وائرس کو ‘دھوکہ’ دینے کی امید سے وہ ہر رات ایک مختلف بستر پر سوجایا کرتے تھے۔

یہ ایک ایسی بیماری تھی کہ جو کبھی کہیں بھی کسی بھی فرد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی اور اکثر چند گھنٹوں میں ہی موت کا باعث بن جاتی تھی۔ ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ ایسا بھی ممکن تھا کہ اگر آپ نے رات کے کھانے پر شادی کرتے تو ناشتے پر بیمار پڑ جاتے۔

اس سے بھی زیادہ بے چینی کی بات یہ تھی کہ بظاہر اس وبا کا اعلیٰ شاہی نسل کے ساتھ ایک خاص تعلق بن چکا تھا۔

اس وبا نے کئی لوگوں کو عدالت میں ہلاک کر دیا اور اس نے ملکہ اینی بولین کے ساتھ بادشاہ کے رومانس کے دورانیے کو بھی گھٹا دیا۔

یہ کس قسم کا وائرس تھا؟

آج تک اس پراسرار وائرس سے متعلق کسی کو کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔

تاہم خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر پھوٹنے والی وبا فلو، ایبولا یا کسی اور بدنام بیماری کی وجہ سے نہیں، جس کے بارے میں ہم اکثر سنتے ہیں۔

بلکہ یہ ہنتا وائرس کی ایک شکل تھی جو عام طور پر چوہوں کو متاثر کرتی ہے۔

ضروری نہیں کہ تمام وبائی امراض اس بیماری کے مشتبہ متاثرہ افراد کی وجہ سے ہوتے ہوں۔

اگرچہ میڈیا ہمیں سپر سٹار پیتھوجینز کی ایک خاص قسم کے بارے میں ہی بتا رہا ہے، اگلے عالمی منظر نامے میں یہ مہلک وائرس کچھ غیر معمولی جگہوں پر بھی پایا جاسکتا ہے۔ تاہم ابھی تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

ماحولیاتی صحت کے ماہر کیون الیول کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں اگلی وبا ایک ناول وائرس سے ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ امریکہ میں ’الائنس‘ نامی ایک تنظیم ہے، جو انسانی اور ماحولیاتی صحت کے مابین پائے جانے والے تعلق پر تحقیق کرتی ہے۔

اگر آپ مارس پر نظر دوڑائیں تو یہ اکیسویں صدی میں اپنی نوعیت کی پہلی وبا تھی، جس کے بارے میں اس کے دنیا بھر میں پھیلاؤ کے بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں تھا۔

لہٰذا ایک ایسی مثال موجود ہے۔ اس فیملی سے تعلق رکھنے والے ایسے بہت سے وائرس ہیں، جن کے بارے میں ہمیں فکر لاحق ہے۔

کرہ ارض پر پائے جانے والے لاکھوں وائرسز ہیں، تاہم ان میں سے بہت کم ہی ایسے ہیں جن سے وبا پھوٹ سکتی ہے۔

ماہرِ صحت کیون اولیول اس نوعیت کے خیالات رکھنے میں تنہا نہیں ہیں۔

بل گیٹس کی پیش گوئی کا پس منظر

اس سال کے آغاز میں، مائیکرو سافٹ کے شریک بانی بل گیٹس نے خبردار کیا تھا کہ اگلی وبا کچھ ایسی ہو سکتی ہے، جسے ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔

انھوں نے یہ تجویز دی تھی کہ ہمیں اس وائرس کے پھوٹنے سے پہلے تیاری کر لینی چاہیے کیونکہ ہمیں یہ جنگ لڑنی ہوگی۔

دریں اثنا، عالمی ادارہ صحت اس بات پر مطمئن ہے کہ انھوں نے ایسے پیتھو جنز سے متعلق اپنی فہرست کو اپ ڈیٹ کر دیا ہے، جو ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر مہلک وبا پھیل سکتی ہے جس میں ’ذزیز X‘ بھی شامل ہے۔

یہ ایک ایسا پراسرار مائیکروآرگنازم (نہایت چھوٹا جاندار) ہے، جس کے بارے میں ابھی تک ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے۔

یقیناً مہلک جرثوموں کو ڈھونڈنا جو ابھی چھپے ہوئے ہیں یا ان کی نشاندہی کرنا کہ کون سے مبہم یا غیر واضح پیتھوجنز ہیں، جن کے بارے میں ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ ان سے شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، یہ ایک بہت مشکل مرحلہ ہے۔

ان کا شکار کرنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ اور ہم کس طرح بتاسکتے ہیں کہ واقعتاً ان میں سے کس پر قابو پایا جا چکا ہے۔

اس سال کے آغاز میں جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس کا مقصد ان مشکل سوالات کا جواب دینا تھا۔

محققین کی اس ٹیم کے سربراہ امیش ادالجا کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق کی بنیاد یہ تھی کہ میرے شعبے میں ہر شخص ایسی چیزیں سامنے لارہا تھا، جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ آئندہ وبا کی وجوہات ہو سکتی ہیں اور وہ بہت خوفزدہ تھے یا یہ وجوہات وبا پھوٹنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

کوئی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا کہ یہ پیتھوجنز کے بارے میں ہے جن سے وبا پھوٹنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

بغیر کسی اصول اور قاعدے کے لوگ اپنے طور پر دوسرے لوگوں کی طرف سے پیدا کردہ مخفی تحفظات کے بارے میں اپنی فہرست تیار کرتے رہتے ہیں۔ اس میں انفلوینزا سرفہرست کیوں ہے؟

سنہ 2016 سے پہلے زیکا وائرس کے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا تھا اور ہم نے امریکہ میں ویسٹ نیل وائرس کے بارے میں کیوں نہیں سوچا؟

اس تحقیق کا مرکزی خیال یہ تھا کہ وبا والے پیتھوجنز بنیادی طور پر بہت عجیب ہیں۔ کرہ ارض پر لاکھوں وائرسز میں سے چند ہی وبا پھوٹنے کا سبب بنتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں سے مل کر ادالجا نے ان وائرسز میں ایک غیر عمومی قسم کا ملاپ دریافت کیا جس کی وجہ سے یہ وبا پھوٹنے کا سبب بن جاتے ہیں۔

کون سے وائرس خطرناک ہو سکتے ہیں؟

پہلی بات تو یہ کہ وبا والے پیتھوجنز تقریباً تمام ہی وائرسز ہوتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کی ہر جگہ پر بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ ان کی بڑی تعداد حیاتیاتی صورت میں موجود رہتی ہے، یہ ہر ماحولیاتی نظام پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ہر قسم کے حیاتیات میں داخل ہوجاتے ہیں۔

یہ کئی براعظموں کو عبور کرتے ہوئے ہر روز کھربوں کی تعداد میں آسمانوں سے آبشاروں کی طرح نیچے زمین کی طرف گرتے ہیں۔

کرہ ارض کے ہر مربع میٹر میں 800 ملین وائرسز پائے جاتے ہیں۔

جب آپ ان وائرسز، جو روشنی کی رفتار سے اپنی کاپی پیدا کر سکتے ہیں، کی بڑی تعداد کو اکھٹا کرتے ہیں تو آپ ارتقا کی ایک ایسی رفتار پر پہنچ جاتے ہیں، جس کی فطرت میں کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

یہ صرف ہمارے مدافعتی نظام کو شکست دیتے ہیں بلکہ ان کے لیے کوئی موثر ویکسین بنانا اور اس کے خلاف کوئی اور علاج تلاش کرنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔

بیکٹیریا کی مختلف اقسام کو مارنے کے لیے تو بہت ساری اینٹی باییوٹکس موجود ہیں لیکن وائرسز کے خلاف ابھی تک کوئی ایسی دوا نہیں بنائی جا سکی جو موثر طورپر ان کا خاتمہ کر سکے۔

آر این اے وائرسز کا ایک گروپ ہے، جس کے ڈی این اے کے بجائے آر این اے سے جینومز پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے صورتحال مزید تشویشناک ہوجاتی ہے۔

جب یہ سپر پیتھوجنز اپنی نئی کاپی بناتے ہیں تو یہ غلطیوں کا پتا چلانے والے مرحلے کو شامل نہیں کرتے۔ اس کے بدلے میں کچھ تبدیلیاں ظہور پذیر ہوتی ہیں اور پھر مسلسل ان کے نئے متبادل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

وائرس کا تعلق سردی کے موسم سے ہے؟

دنیا کے بہت سے بدنام پیتھوجنز اس درجے میں ہی شامل ہیں، جس میں انفلوئنزا، ایچ آئی وی، سارس، مرس، زیکا، ایبولا، پولیو اور رینو وائرسز (جن کے پھوٹنے کی عمومی وجہ سردی ہوتی ہے)۔

لیکن اس میں ایسے خطرات بھی شامل ہیں جن کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے، جیسا کہ انٹروائرسز 68 ہے جس کی پولیو سے ایک نایاب قربت ہے جو نومولود، بچوں اور کم سن افراد کو متاثر کرتا ہے۔

یہ صرف 1962 کی سردیوں میں دریافت ہوا تھا جب کیلیفورنیا میں نمونیا کی وجہ سے چار بچے ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ یہ وائرس اچانک لاکھوں افراد کو ہلاک کرنا شروع کر دے گا۔ تاہم یہ اس سارے عمل کو پورا کرتا ہے جس میں آخری مرحلے میں سانس لینے والی نالی کو متاثر کر سکتے ہیں۔

ان وائرسز پر قابو پانا بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ سانس لینا زندہ رہنے کی لازمی شرط ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے پر سانس لینے سے روکنا بہت ہی مشکل کام ہے۔

اداجلا کے مطابق جب آپ خون اور جسم میں پائی جانے والی رطوبتوں سے متعلق بات کرتے ہیں تو یہ سانس لینے والی بات سے مختلف پہلو ہے۔

کئی دہائیوں تک کم ہونے یا نظر انداز کرنے کی وجہ اینٹرو وائرس 68 میں حالیہ دنوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اس کا تعلق ایک پراسرار وبا سے ہے جو پولیو کی طرح جسم میں ایک خرابی پیدا کر دیتا ہے۔ یہ سنہ 2014 میں امریکہ مڈ ویسٹ میں پھیلا، جس سے چار افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک دس سال کی لڑکی بھی شامل تھی۔

پھر اس مہینے کے آغاز میں ان علاقوں میں کئی اور افراد بھی بیمار پڑ گئے۔ اس وائرس سے متاثر ہونے کے بعد انھیں جسمانی معذوری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نایاب اینٹرو وائرس جیسے 68 سے اس وقت 12 افراد متاثر ہوئے ہیں۔

اینٹرو کس قسم کے وائرس ہوتے ہیں؟

ادالجا کے مطابق اینٹرو وائرسز اس قسم کے وائرسز ہوتے ہیں جن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان کے مطابق وائرسز کا یہ گروپ بڑے پیمانے پر اپنی پیتھوجینسٹی کی وجہ سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق پولیو کے علاوہ اینٹرووائرس کے لیے کوئی ویکسین بھی نہیں ہے، جس سے اس کا علاج ممکن ہو سکے۔ اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایسے اینٹرووائرسز ہیں جنھیں ابھی تک ہم نے دریافت بھی نہیں کیا ہے۔

شاید سب سے زیادہ خفیہ وہ والے وائرسز ہوتے ہیں جو دوسرے جانوروں کو متاثر کرتے ہیں۔

ایچ آئی وی سے لے کر نپا تک زونوٹک پیتھوجنز میں تمام بڑے نام شامل ہیں، جو انسانی تاریخ میں ہر وبا کی وجہ بنتے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایویئن فلو وبا بھی اس کی ایک مثال ہے۔ سنہ 1918 کی فلو والی وبا جس سے 50 سے 100 ملین لوگ ہلاک ہوئے پرندوں سے شروع ہوئی تھی۔

کیون اولیول کی طرح کے وائرس کے سراغ لگانے والے سائنسدان جو دنیا بھر میں گھومے ہیں آئندہ وبا کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2009 سے 2014 تک امریکہ کے اس بیماری سے متعلق نگرانی کے پانچ سالہ پروگرام کے پہلے مرحلے میں ہم نے کئی ہزار نئے وائرسز تلاش کیے۔

وائرسز کا نہ دریافت ہونے والا پول کونسا ہے؟

کیون اولیول کا کہنا ہے کہ ہمارے اندازے کے مطابق ایسے وائرس کئی ملین ہو سکتے ہیں۔ شاید ایسے ملین وائرسز ہیں جو دوسرے دودھ پلانے والے جانداروں کو متاثر کرتے ہیں اور یہ دیگر لوگوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔

جنگل میں اتنی بڑی خوفناک تعداد میں لاپتہ وائرسز کی موجودگی سے یہ دیگر جنگلی جانوروں کو متاثر کر سکتی ہے جو عالمی طور پر ہلاکت کی بڑی وجہ بن سکتی ہے۔

لیکن اس کے بارے میں کچھ پیش رفت بھی ہے۔

مثال کے طور پر اب سائنسدان ان جینز کا مشاہدہ کر سکتے ہیں جو کسی وائرس کو انسانی خلیوں میں داخل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور خاموشی سے اندر رہتے ہیں، یا یہ جاننے کے لیے کون سے جانور انھیں لے جاتے ہیں، کیونکہ اس کے امکانات کئی گنا زیادہ ہیں کہ بہت سے لوگ مرغیاں یا عقاب رکھنے یا ان کے قریب جانے کی وجہ سے ان سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

کیون اولیول کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں یہ سائنس کی دنیا کا ایک بہت دلچسپ موضوع ہے جو وائرس کی جینیاتی ترتیب سے یہ کہتے ہوئے منتقل ہورہا ہے کہ انسان یا دیگر جانوروں میں اس کو پھیلانے اور پیتھوجینیسٹی کی استعداد کتنی ہے۔

وائرس کی جینیاتی ترتیب سمجھنے سے لے کر کسی ٹھوس نتیجے تک پہنچنے پر ابھی وقت لگے گا اور ہر کوئی اس کا جواب تلاش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وائرس کا ہر گروہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور اس کی شناخت کے لیے استعمال ہونے والے طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں۔

چمگادڑوں سے وبا پھیلنے کی پیشنگوئی کس بنیاد پر کی گئی تھی؟

سنہ 2017 میں ایکو ہیلتھ الائنس میں شامل اولیول اور ان کے ساتھیوں نے یہ طے کیا تھا کہ اس کا پتا چلایا جائے گا کہ انتہائی خطرناک پیتھوجنز کہاں چھپے ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کی اس ٹیم نے ہزاروں ایسے وائرسز کا مشاہدہ کیا جن سے میملز متاثر ہوتے ہیں اور ان میں وہ 188 ایسے میملز بھی شامل ہیں جن سے انسانوں کو یہ وائرس متاثر کرتا ہے۔

اس میں انھوں نے ایک نتیجہ یہ بھی نکالا کہ آئندہ وبا شاید چمگادڑوں کی وجہ سے پھیلے گی۔

کسی کو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ چمگادڑ اس طرح کے وائرسز کی آماجگاہ بنی ہوتی ہیں۔

چمگادڑ بہت سارے انسانی وباؤں کا ذریعہ بنیں، جن میں سارس وائرس بھی شامل ہے، جو چین سے غاروں میں رہنے والی چمگادڑوں سے پھیلا۔ ایبولا وبا بھی چمگادڑ سے ہی پھیلا۔

اس کی پیشگوئی کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ یہ کتنے جانوروں کو متاثر کرتا ہے۔۔ اور یہاں وائرسز کا ایک غیر واضح گروپ جو بانیا وائرس کہلاتا ہے ان میں سرفہرست ہے۔

یہ وائرس بڑے پیمانے پر اپنے اثرات چھوڑتا ہے، یہ کیڑوں سے لے کر درختوں تک کو متاثر کرتا ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر انسانوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر وائرس کی اس فیملی پر یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں پسینے کی بیماری جس کا سبب ہنتا وائرس بنا تھا وہ بھی اس بانیا وائرس کی فیملی سے ہی تعلق رکھتا ہے۔

’وائرس سے بڑا خطرہ مجرمانہ غفلت ہے‘

کیون اولیول کے مطابق ایسے کئی وائرس ہیں جن کے بارے میں لوگوں نے کبھی کچھ نہیں سنا ہے، لیکن وہ اپنے پیتھوجینیسٹی کے استعداد کی وجہ سے بڑے درجوں میں شمار ہوتے ہیں۔

ایک بار ایک ممکنہ پیتھوجن دریافت ہوا۔ ان کے مطابق شاید سب سے بڑا چیلنج ہی یہ ہے کہ حکام کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اسے سنجیدگی سے لیں۔

کولمبیا یونیورسٹی کے ماہر وبائی امراض سٹیفن مورس کے مطابق یہ مسئلہ بدنام ایبولا اور باہر سے آنے والے بانیا وائرس سے متعلق بھی درپیش رہا کہ سخت اقدامات سے ان کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

ان کے مطابق مجھے یہ کہنے سے بھی نفرت ہے کہ اسے قابو کیا جا سکتا تھا، تاہم ایبولا جو مغربی افریقی ممالک میں پھیلا تھا کے بارے میں سنہ 2014 میں عالمی ادارہ صحت کی عام فہم زبان میں ایک رپورٹ کے مطابق کہ تیزی سے ارتقا پذیر ہوتا ہوا کیونکہ اس سے متعلق کوئی پیشگی اقدامات نہیں اٹھائے گے اور یوں ایبولا کی وبا 43 افراد سے آگے پھیلتی گئی۔

مورس کے مطابق یہ بھی بہت بڑی تعداد بنتی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتے وہ مہینوں پہلے ہی شہروں تک پھیل چکا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں اب ہم اب پہلے کے مقابلے وباؤں کا سامنے کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لیے ذرائع کو بروئے کار لانا اور سیاسی قوت ارادی کا بڑا عمل دخل شامل ہے۔

ان کے مطابق میرے خیال میں بڑا مسئلہ پیتھوجین نہیں ہیں بلکہ یہ مجرمانہ غفلت ہے۔

چیچک کا ذکر کیے بغیر کسی بھی غیر واضح وباؤں کے بارے میں بات ادھوری ہوگی۔ اگرچہ یہ وائرس سنہ 1977 جنگل میں ہی ختم ہو چکا تھا مگر اس کے خوف کو بڑی سطح پر فراموش کیا جا رہا ہے۔

وائرس

یہاں اس کے بارے میں کچھ اہم حقائق ہیں: چیچک وائرس سے کئی کروڑ لوگ ہلاک ہوئے، جن میں کئی یورپی بادشاہ اور ان کی بیگمات شامل ہیں اور تقریباً شمالی امریکہ کی تمام ہی آبادی متاثر ہوئی۔

فرعون مصر رامیسس پنجم کی محفوظ شدہ لاش کے سر پر دھبے اس کی خصوصیات کو واضح کرتے ہیں یا جیسا کہ سویت یونین کے فوجی آمر جوزف سٹالین نے کیا، اس کا حکم تھا کہ تصویروں میں اس کے چہرے پر دھبوں کو چھپا دیا جائے تاکہ وہ خوبصورت لگے، جو ایسا نہ کرتا اور صیحح تصاویر بناتا تو اسے مبینہ طور پر گولی مار دی جاتی تھی۔

چیچک میں کسی بھی بڑی وبا والے تمام اجزا موجود ہوتے ہیں: اس بیماری کی وجہ بھی ایک وائرس ہے۔ اگرچہ جینوم کا ڈی این اے سے پیدا ہونا غیر معمولی بات ہے۔ اس کا تعلق ایک ایسی فیملی سے ہے جو تیزی سے ارتقا پذیر ہوتی ہے اور آسانی سے جانوروں کی مختلف اقسام میں منتقل ہوجاتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ چیچک ہوا میں مہلک ذرات کی بوندوں میں سانس لینے کی وجہ سے ہوجاتا ہے۔

اگرچہ جب سے اس کا خاتمہ ہوا ہے اس وبا نے کسی کو متاثر نہیں کیا ہے، اس وائرس سے ایک سال پہلے ایک شخص ہلاک ہوا جب اس وبا کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ سنہ 1978 میں ایک میڈیکل شعبے کے فوٹوگرافر اس سے برمنگھم کی ایک لیب میں متاثر ہوا تھا۔ اور (ماہرین کے مطابق) آئندہ بھی کوئی اس وائرس سے متاثر ہو سکتا ہے۔

آج تک چیچک کے ذخیرہ اٹلانٹا، جارجیا اور روس کے سائنسی شہر کولتسووہ کی لیب میں موجود ہے۔

سنہ 1970 کی دہائی میں ذیادہ تر لوگوں کو بچپن میں ہی قطرے پلائے گئے تھے۔ اب سرکاری سطح پر اس وائرس کے لیے ویکسین کے پروگرام بند کر دیے گئے ہیں اور اس سے درمیانی عمر یا اس سے زائد والوں کے لیے استثنیٰ ہے۔

امریکہ سمیت کئی ممالک کے پاس ضرورت کے لیے اس وائرس کی ویکسین کے ذخائر موجود ہیں۔

’حیاتیاتی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی متعدی بیماری (کبھی بھی) پھوٹ سکتی ہے جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر کروڑوں کو افراد کو ہلاک کر سکتی ہے۔

ان کے مطابق دنیا میں حیاتیاتی دہشتگردی کا امکان بھی موجود ہے۔ اب وائرس پیدا کیے جاسکتے ہیں، بس اس کے لیے ان کا جنیاتی عمل کو استعمال میں لانا ہوتا ہے۔ دنیا کے خطرناک ترین پیتھوجین تک رسائی کے لیے آپ کو سرکاری سائنسدان ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

اگر کبھی ایسا کیا گیا تو یہ وائرس دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دے گا۔

جیسا کہ بل گیٹس نے گذشتہ سال کہا تھا کہ نیوکلیئر جنگ کے بارے میں آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ چلیں ایک ارب افراد کو مار کر آپ اسے روک سکتے ہیں۔ چیچک کبھی نہیں رکے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب بے ہنگم آبادی ہے اور اس کے لیے کسی قسم کی کوئی تیاری بھی نہیں ہے۔

اگر یہ وائرس پھیل گیا تو مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

بھلے سنہ 1485 میں پھوٹنے والی بیماری کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ہم اب بھی ماضی سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق فلو کو آئندہ پھوٹنے والی عالمی وبا کے نمائندے کے طور پردیکھا جا رہا ہے۔۔۔ صرف امیدوار نہیں۔

اگر سائنسدان اسے درست کرنا چاہتے ہیں تو ڈی-لسٹ وائرسز کو سنجیدگی سے نہ لینا ایک بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والی غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp