مولانا طارق جمیل پر ناجائز تنقید اور میڈیا


مولانا طارق جمیل صاحب نے چند دن پہلے کرونا وائرس کے سبب پیدا شدہ مشکلات کا اثر کم کرنے کی خاطر کئی میڈیا چینلز کے تعاون سے چلنے والی احساس ٹیلی تھون میں شرکت کی جس میں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان بھی شریک تھے۔ ٹیلی تھون کے اختتام پر مولانا طارق جمیل صاحب نے حاظرین کے ساتھ مل کر ایک دعا کا اہتمام کیا۔ دعا سے پہلے مولانا صاحب اپنے احساسات اور خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ہمارے معاشرے میں بولے جانے والے جھوٹ سے اجتناب برتنے کی خاطر توجہ دلاتے ہوئے کچھ ایسے کلمات کہ گئے جو وہاں پر موجود میڈیا اینکر پرسن حضرات کے لیے کافی بھاری تھے۔

مولانا صاحب نے کہا کہ ہمارا میڈیا جھوٹ بولتا ہے بلکہ ساری دنیا کا میڈیا جھوٹ بولتا ہے۔ مولانا صاحب کے بیان کو تنقید کے ترازو میں تولنے سے پہلے میرے خیال میں یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ میڈیا کو سراپا سچا یا جھوٹا قرار دینا نہ صرف نامناسب ہو گا بلکہ جھوٹ بھی ہو گا۔

مولانا صاحب نے اسی نشست میں کسی پاکستانی میڈیا چینل کے مالک سے ہوئی ان کی اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب مولانا صاحب نے انہیں جھوٹ سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا تو ان صاحب نے تسلیم کیا کہ پھر تو میڈیا چینل ہی بند کرنا پڑے گا۔ اس ساری گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سارے میڈیا اینکر پرسن غصہ میں نظر آئے جن میں چند بڑے نام کامران شاہد، حامد میر، محمد مالک اور رؤف کلاسرہ بھی شامل ہیں۔ کچھ حضرات انہیں اس چینل کے مالک کا نام افشا کرنے کے لیے اخلاقی، قانونی اور معاشرتی لحاظ سے انہیں مجبور کرتے بھی نظر آئے جو بذات خود اپنی خبروں کے لیے انحصار خفیہ ذرائع پر کرتے نظر آتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی ببانگ دہل کہتے نظر آتے ہیں کہ ذرائع ظاہر نہ کرنا ایک اچھے صحافی کے نمایاں اوصاف میں شامل ہے۔ ایسے تمام لوگوں کی محنت کے بعد مولانا طارق جمیل صاحب نے تو معافی مانگ لی مگر میری نظر میں نیشنل میڈیا میں موجود ایسے نامور لوگوں کی قلعی مزید کھل گئی ہے۔

ایسے لوگوں کی سوچ کو دور سے ہی سلام کیا جا سکتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل صاحب کو سیلیبریٹی بنانے میں میڈیا کا ہی کردار تھا ورنہ مولانا ان زمینی خداؤں کے سامنے کہاں کھڑے نظر آتے؟ کچھ حضرات نے ان کی تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ افراد سے میل ملاقات کو ملفوف انداز میں الزامات کی شکل میں انہیں سیاسی گروہوں سے فائدہ اٹھانے کا حامل قرار دینے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر عمران خان کی فکر کے مخالف لوگوں نے عمران خان صاحب کی تعریف کے عوض انہیں ”درباری ملا“ ، ”دین فروش ملا“ اور نہ جانے کیا کیا کہ ڈالا۔ خیر الزام عائد کرنا کوئی نئی روایت نہیں ہے لیکن ایک شخص کی بات کا تجزیہ کرنے کی بجائے اپنی انا کی تسکین کی خاطر اس کے کردار کو ہی میلا کرنے کی جسارت کرنا اگر سچ کے زمرے میں آتا ہے تو ایسے سچ کو میلا ہونے میں بھی زیادہ دیر نہیں ہو گی۔

مولانا طارق جمیل صاحب کی عزت ان کی اپنی کمائی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں وعظ و نصیحت اور علم و اخلاق کی ترویج کے سبب انہیں تمام گروہوں، فرقوں، سیاسی جماعتوں میں مقبول ٹھہرایا۔ کسی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی تعریف اور جھوٹ کی روش سے پرہیز کا درس دینے پر اگر کچھ لوگ ان کا مقام، مرتبہ اور عزت کم کرنے کے درپے ہیں تو انہیں جان لینا چاہیے کہ عزت اور ذلت میرے پروردگار کے ہاتھوں میں ہے۔

نوٹ: اگر مولانا طارق جمیل صاحب کے حوالے سے جائز تنقید ہوتی تو میں کبھی بھی یہ تحریر رقم نہ کرتا کیونکہ میرا ماننا ہے کہ تنقید سے کوئی بھی بالاتر نہ ہے چاہے وہ کوئی عالم دین ہو، سائنس دان ہو، سیاست دان ہو یا تاریخ کا کوئی نامور کردار مگر تنقید اور کردار کشی میں فرق ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments