معمولی سی خواہش


کرونا آفت زدہ دنوں میں اخبارات اور میڈیا سے رابطہ کاری کی وجہ سے بہت ساری معلومات آئیں جن کو لوگوں کے ساتھ بانٹنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دور اور قریب سے بہت سارے لوگوں کے لئے اپنی طرف سے فائدے کا باعث بھی بنے۔ مگر ہمسائے کو حقوق اور حکومتی سہولیات دلوانے میں سب سے زیادہ دشواری ہوئی بلکہ ناکامی ہی ہو گئی۔ ہوا یوں کہ ہمارے ہمسائے بروقت مالک مکان کو کرایہ نہ ادا کر سکے تو مالک مکان نے انہیں گھر خالی کرنے کا کہہ دیا ہم نے بڑے فخر سے کرایہ داروں کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا بیان دکھایا اور ہمت دلائی کہ آپ پولیس کو اطلاع دیں۔

کرایہ دار کہنے لگا بھائی ہم غریب لوگ ہیں اگر پولیس نے ہم سے چا پانی مانگ لیا تب بھی ہمارا نقصان اور اگر مالک نے انہیں کچھ لے دے لیا تب بھی ہمارا نقصان اور اوپر سے ایڈوانس رقم بھی ہے۔ کرائے داروں نے ایڈوانس کے ضبط ہونے پولیس کی عام شہرت کے ڈر سے ہمت نہ کی اور مکان خالی کرنے میں غنیمت جانی مگر جب ایڈوانس طلب کیا تو مالک مکان نے پندرہ دن کاکرایہ ایڈوانس نوٹس نہ دینے کی مد بھی کاٹ لیا اور باقی بلوں کی مدمیں اپنے پاس رکھ لیے کہہ لیں کہ تقریباً ساری رقم ہی ضبط کر لی۔

بڑی کوشش کی کرایہ داروں کو ہمت دلا کر پولیس کو اطلاع دی جائے اور ان کی مشکل کی اس گھڑی میں کسی نہ کسی طرح مدد کی جائے، مگر سب تد بیریں اور تجویزیں بے کار۔ سوائے مالک مکان کو کرایہ داروں کے ساتھ ملکر برا بھلا کہنے کے۔ کرایہ دار دکھ بھر ی آواز میں کہا کہ بھائی پیسے والے کے دوست بہت ہوتے ہیں، اگر پولیس سے بات نہ بنی تو کسی سیاسی بندے کا فون آ جائے گا، اگر پکڑا گیا تو وکیل کے ذریعے کل کو باہر آ جائے گا اور ایک ٹائم پر محلے واے بھی اس کا ساتھ دیں گے۔ وزیر اعلیٰ تو دور ہماری پہنچ میں تو ہمارا کوئی کونسلر یا ایم پی اے نہیں ہے۔

بڑا غور وخوض کیا کہ ایسے لوگوں کی زند گیوں میں بہتری کیسے آ سکتی ہے اور جن لوگوں کی زندگیاں بہتر ہوئیں ہیں وہ کیسے ہوئی ہیں۔ ایک لمبی لسٹ بنانے کے بعد خیال آ یا کہ شاید لوگ اپنی مدد آپ کے تحت لگے رہیں گے تو شاید مشہور ضرب المثل خدا ان کی مددکرتاہے۔ بھی بدلنا پڑے اس لئے مناسب ہے حکومت وقت سے ہی درخواست کر لی جائے کہ گڈگورننس، رول آف لاء، انصاف کی فوری فراہمی، اداروں کی مضبوطی، عوام کا اداروں پر اعتماد اور بہتر حکومتی سہولیات کی فراہمی کے ذریعے ہی غریب اور کمزور آدمی کی زندگی میں تبدیلی آ سکتی۔ مگر کیا کریں یہ باتیں سیاسی پارٹیوں کو سوائے پارٹی منشور یا اپوزیشن کے یاد کہاں آتی ہیں۔

پنجاب حکومت کا ان دنوں بہت سارے اقدامات ہیں جو میرے ذاتی تجربے کے مطابق قابل ستائش ہیں مگر کیا جو لو گ کمزور ہیں جن کو قوانین کے متعلق لاعلمی ہے، جن کو قوانین کے عملدرآمد کروانے والے متعلقہ اداروں سے لاعلمی ہے، جن کو حکومتی احکامات اور پالیسیز کا علم نہ ہے اور جن کا مالک مکانوں اور سکولوں سے لگاتار واسطہ رہنا ہے ان کا کیا کرے گی حکومت۔ عمران خان صاحب کی کرپشن کے خلاف جنگ تو سمجھ آ گئی کرپشن صرف غلط طریقے سے پیسے بنانا ہی نہیں بلکہ پھر ان پیسوں سے طاقت حاصل کر کے انتظامی امور کے کاموں پر اثر انداز ہونا، طاقت سے قانون کو اپنی مرضی کے مطابق موڑنا، کرپشن کی پیدوار افسران کے ذریعے اپنی مرضی سے حکومتی امور چلانا، کرسی کی طاقت کے نیچے کرپٹ عناصر پالنا اور سسٹم کی بقا کے لئے قابل اور ایماندار لوگوں کو قربا ن کرنا۔ اس لئے غریب کا مسئلہ پیسہ نہ ہونا تو ہے ہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انصاف کی عدم فراہمی، حکومتی سہولیات کی فراہمی اور رلیف پیکجز کی عدم فراہمی بھی ہے۔

ٓآج ہی وزیر اعظم کا بیان نظر سے گزرا کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر ریاست مدینہ کا تصور نا ممکن ہے۔ قانون کی حکمرانی، گڈ گورننس، حکومتی سہولیات کی بہتر فراہمی، بہتر اکنامک پالیسزسمیت حکومتی امور کو بہت سے بہترین دیکھنے کی تو ساری قوم ہی خواہش مند ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کرپشن سے پاک پاکستان کا نعرہ لگا کر حکومت میں آئی تھی جس نعرے کا لوگوں نے تبدیلی کے امید میں ساتھ دیا۔ اب جناب وزیر اعظم وقت ہے کہ نچلی سطح پر کرپشن سے پیدا شدہ عناصر اوراس کرپٹ سسٹم کو بھی ایک دھکا دے دیں۔ کم ازکم اتنی بہتری کر دیں کہ عوام پولیس گردی اور افسر شاہی سے آزاد ہوجائے اور پولیس کو اپنا محافظ اور گورنمنٹ افسروں کو اپنا خدمت گار سمجھنا شروع کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments