گھریلو تشدد اور پاکستانی عورت



ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی جینڈر ایکویلٹی انڈیکس 2020 میں پاکستان کو آخری طرف سے تیسرے درجے پر رکھا ہے۔ اس سے پیچھے صرف یمن اور عراق ہیں جو کہ ایک طویل عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ اگر باقی رپورٹس کو اٹھا کے دیکھا جائے تو بھی صورتحال مختلف نظر نہیں آتی۔ جہاں پاکستان میں خواتین باقی کئی لحاظ سے پسماندگی کا شکار ہیں وہیں ان کے خلاف گھریلو تشدد ایک اہم مسئلہ ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق تقریباً 25 فیصد پاکستانی خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

مختلف تنظیموں کے اندازوں کے مطابق ہر سال تقریباً ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہے۔ آج کے کالم میں ہم اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ آخر ہم اس مقام پر کیوں کھڑے ہیں، گھریلو تشدد کے پیچھے کون سا فلسفہ کارفرما ہے اور کون سے وہ عوامل ہیں جو کہ اس صورتحال کو جنم دیتے ہیں۔

نارویجین ماہر عمرانیات جان گل تونگ نے اس ضمن میں شاندار کام کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تشدد ایک تکونی شکل میں کام کرتا ہے۔ مزید برآں، وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس عمل کا ڈھانچہ آئس برگ جیسا ہے جوکہ سطح سمندر پر تو بہت کم نظر آتا ہے مگر حقیقت میں بہت بڑا ہوتا ہے۔ تشدد بھی جتنا نظر آتا ہے اس سے بہت زیادہ وقوع پذیر ہو رہا ہوتا ہے۔

جان گل تونگ کی تشدد کی تکون تین قسموں پر مشتمل ہے : ساختی تشدد، ثقافتی تشدد اور براہ راست تشدد۔ اس تکون میں براہ راست تشدد تو نظر آتا ہے مگر ثقافتی اور ساختی تشدد کو دیکھنے کے لئے دیدہ بینا درکار ہے۔ ساختی اور ثقافتی تشدد ہی دراصل براہ راست تشدد کو جنم دیتے ہیں۔ براہ راست تشدد بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل میں ایسی رکاوٹ ہے جو کہ کسی فرد کے لیے اپنی ضروریات پوری کرنا اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ناممکن یا مشکل بنا دیتی ہے۔ تشدد کے استعمال کی دھمکی بھی دراصل تشدد ہی شمار کی جاتی ہے۔ براہ راست تشدد میں طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں جنسی تشدد، ذہنی تشدد، غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، اغوا برائے تاوان، اور گھریلو تشدد آتے ہیں۔

اس تکون کا دوسرا ساختی تشدد یا سٹرکچرل وایلنس ہے۔ ساختی تشدد دراصل نا انصافی اور استحصال کے وہ رویے ہیں جن کے اوپر معاشرے کی تشکیل کی گئی ہے۔ یہ اکثریت کو مغلوب اور غریب رکھ کر چند لوگوں کے لیے طاقت اور اقتدار مہیا کرتے ہیں۔ یہی انسانیت کی پائیدار ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام پدرشاہی نظام یا کسی بھی اور استحصالی نظام کی اساس ہیں۔ یہ نسل انسانی کو غربت اور نا انصافی کی چکی میں پیس رہے ہیں۔ یہ رویے جب انسانی ذہن میں سرایت کر جاتے ہیں تو یہ براہ راست تشدد کو جنم دیتے ہیں۔

اسی طرح اس تشدد کی تکون کا تیسرا سرا ثقافتی تشدد سے جڑتا ہے۔ یہ نظر نہیں آتا۔ ثقافتی تشدد طاقت اور تشدد کی ضرورت کے بارے میں وہ غالب رویے اور عقائد ہیں جو ہمیں بچپن سے سکھائے جاتے ہیں اور جو کہ ہمارے اردگرد پائے جاتے ہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جنگجو کو ہمیشہ امن کے داعی پر فوقیت دی گئی ہے۔ ان رویوں کی تاہم ایک قیمت ہوتی ہے۔ وہ قیمت بھی کمزور طبقے ہی کو ادا کرنا پڑتی ہے اس میں خواتین سرفہرست ہیں۔

تشدد کے اس تکونی فلسفے کی کسوٹی پر اگر ہم پاکستانی معاشرے کو پرکھیں تو ہمیں یہ اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں ہوگا کہ ورلڈ اکنامک فورم ہمیں صنفی مساوات کے انڈیکس پر ہمیشہ آخر پر ہی کیوں رکھتا ہے۔ اس سارے پس منظر میں پاکستان میں صنفی تشدد کے واقعات کی کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ ایک وجہ تعلیم کی کمی ہے مگر اس بات کا کیا کیجئے کہ کئی دفعہ ایسے واقعات میں پڑھے لکھے لوگ ہی ملوث ہوتے ہیں ابھی کچھ عرصہ قبل ایک لیڈی ڈاکٹر کا اپنے ڈاکٹر شوہر کی جانب سے تشدد کے بارے میں بیان سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہا ہے۔ ایسے کئی واقعات کا تو مجھے ذاتی طور پر علم ہے جہاں پر پڑھے لکھے شوہر اپنی بیگمات پر تشدد کرتے پائے گئے ہیں۔ ایسے واقعات اکثر رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔

اسی طرح کچھ لوگ اسے نفسیاتی الجھنوں سے بھی جوڑتے ہیں مگر ایسا بھی کیا نفسیاتی دباؤ جو کہ اپنی بیوی پر تو نکلتا ہے پر باس پر نہیں نکلتا۔ شراب پی کر بھی لوگ اپنے سے طاقتور پر تو ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ ان کے قہرکا نشانہ اکثر اوقات ان کی بیویاں ہی بنتی ہیں۔ آپ کو لوگ یہ دلیل بھی دیتے نظر آتے ہیں کہ خواتین بعض اوقات خود رکیک لفظی حملوں سے شوہروں کو تشدد پر اکساتی ہیں۔ تاہم ظلم کا ملبہ ظالم کے بجائے مظلوم پر ڈالنے والی ہر دلیل کو میں بھونڈی ہی تصور کروں گا۔

دراصل اس سارے مسئلے کی وجہ وہ ثقافتی وسا ختی تشدد کے رویے ہیں جو براہ راست تشددکو جنم دے رہے ہیں۔ یہ طاقت کا چکر ہے۔ مارنے والا دراصل جانتا ہے کہ وہ مار کھانے والے سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ اپنی طاقت کا اظہار چاہتا ہے۔ اپنی اس برتری کو قائم رکھنے کے لیے وہ نفسیاتی، جنسی اور جسمانی تشدد کے مختلف حربے آزماتا ہے۔ تشدد کا کوئی بھی واقعہ تنہا نہیں ہوتا۔ وہ دراصل ایک پورے نظام کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پدرشاہی نظام اپنی طاقت کو قائم رکھنے کے لیے تشدد کو بطور آلہ استعمال کرتا ہے۔ اب چاہے وہ زورزبردستی ہو یا دھونس دھاندلی، جذباتی زیادتی ہو یا قید و بند، بچوں کا استعمال ہویا معاشی زیادتی، اس سب کے پیچھے ایک ہی فلسفہ کارفرما ہے وہ ہے طاقت کا فلسفہ۔

جب تک طاقت میں توازن نہیں لگایا جاتا کمزور ہمیشہ مظلوم اور طاقتور ہمیشہ ظالم رہے گا۔ پدرشاہی نظام اور سوچ کو تبدیل کیے بغیر گھریلو تشدد پر قابو پانا ناممکن ہے۔ تب تک آپ جینڈر ایکویلٹی انڈکس پر آخری نمبر پر آنے کے لئے تیار رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments