رمضان، رحمان اور مسلمان


ماہ رحمت، ماہ ایثار و ماہ انفاق ہے اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہ ہوگا۔ مگر ہمارے مجموعی قومی رویوں سے ایسا ہرگز معلوم نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے کہ اس ماہ مبارک میں اشیائے خورد و نوش کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہر گھرانے کی کوشش ہوتی ہے کہ سحور و افطار میں ان کے دسترخوان پر مختلف اقسام کے کھانے اور پھل وغیرہ ہوں۔ معاشیات کا طلب اور رسد کا قانون بلاشبہ کسی حس تک ہمارے بازار پر اثر انداز ہوتا ہے مگر اس حد تک نہیں پہنچ جاتا جس سطح پر اشیا خورد و نوش کی قیمتیں جا پہنچتی ہیں۔

ہر بیوپاری ماہ صیام میں بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھ کر اسی نسبت سے اشیا کی تیاری بڑھا دیتا ہے البتہ دام تیاری سے کافی زیادہ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ نانبائی روٹیاں، شیر مال اور پراٹھے زیادہ بناتا ہے، بیکرز بھی مانگ کے مطابق زیادہ مال تیار کرتے ہیں، پکوڑے، جلیبی، سموسے اور رول بھی زیادہ بنائے جانے لگتے ہیں مگر ہماری بے حسی اور ہوس کی انتہا دیکھئے کہ قیمتوں میں اتنا ہوش ربا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ معیار گٹھا دیا جاتا ہے۔

رسول اللہ ص نے فرمایا، جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں (مسند احمد 5929 ) مگر ان باتوں پر دھیان کون دیتا ہے۔ اس بار بھی حسب معمول رمضان سے قبل سبزیوں اور پھلوں کے نرخوں میں تیس سے چالیس روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بکرے اور گائے کے گوشت میں بھی اسی سے سو روپے تک اضافہ ہوا ہے۔ جو برائلر رمضان المبارک سے قبل ڈیڑھ سو روپے کلو میں دستیاب تھی اب اس کی قیمت دو سو روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ آخر یہ پرائس کنٹرول کمیٹیز کس مرض کی دوا ہیں، ان کی کارکردگی کو جانچنے کا کیا طریقہ کار ہے کیا اس پر کبھی کوئی از خود نوٹس لیا گیا ہے؟

مغربی ممالک میں مذہبی تہواروں پر خریداروں کو اتنی مراعات دی جاتی ہیں کہ وہ بعض اوقات پورے سال کی اشیا خرید لیتے ہیں۔ اسرائیل میں یوم کپور کے روزوں کی مناسبت سے خاص رعایتیں دی جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میرے ایک دوست نے برطانیہ سے مجھے ایک ویڈیو بھیجی تھی جس میں وہاں رمضان المبارک کے دوران ایک بڑے اسٹور پر کھانے پینے کی اشیا پر دی گئی رعایتی سیل واضح دیکھی جاسکتی تھی۔ بحیثیت مجموعی ہمارے قول و فعل میں بے حد تضاد ہے ہم زندگی فرعونوں والی گزارتے ہیں اور خود کو موسی علیہ السلام جیسا کہلوانا پسند کرتے ہیں۔

کیا ہمیں یہ نہیں معلوم کہ شعیب علیہ السلام کی قوم کو ناپ تول درست نہ کرنے پر عذاب دیا گیا تھا۔ ہمارے ہاں پٹرول پمپ سے لے کر ایک عام جنرل اسٹور اور پھل کے ٹھیلے تک ناپ تول کا کیا حال ہے سب کو معلوم ہے۔ ایندھن کی قیمتوں میں کمی کا اثر تمام اشیا پر پڑتا ہے اسے عوام الناس تک پہنچنا چاہیے۔ ضلعی اور صوبائی پرائس کں ٹرول کمیٹیوں کو فعال کرنا اور ان کے اختیارات میں اضافہ کیا جانا لازمی ہے۔ عوام الناس کو بھی خریداری کرتے وقت بھاؤ اچھی طرح معلوم کر لینا چاہیے۔ اس مصنوعی مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے محض قانون سازی سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد اور مانیٹرنگ بھی ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments