کورونا وائرس: فضائی آلودگی اور کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی شرح کے درمیان تعلق


امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ کے اُن علاقوں میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی شرح زیادہ ہے جہاں فضا میں پی ایم 2.5 نامی ذرات کی بڑی مقدار موجود ہے۔

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے حکام کا کہنا ہے کہ فضا میں آلودگی کی بڑھی ہوئی سطح ایسے افراد کے لیے ایک اضافی خطرہ بن سکتا ہے جو کووڈ 19 سے بری طرح متاثر ہو رہے ہوں۔

ہارورڈ یونیورسٹی سمیت دو تازہ تحقیقوں میں فضائی آلودگی اور کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی شرح کے درمیان تعلق سامنے آیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او میں صحتِ عامہ اور ماحول کے ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریہ نیرہ نے کہا کہ وہ ممالک جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے انھیں کووڈ 19 کے خلاف لڑائی کی تیاری میں اِس عنصر کو بھی مددِ نظر رکھنا ہو گا۔

‘ہم لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں ایسے ممالک کا جائزہ لے رہے ہیں جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے اور ہم وہاں کے حکام کی جانب سے مہیا کیے جانے والے اعداد وشمار کی مدد سے اِن علاقوں میں سب سے زیادہ آلودہ شہروں کا نقشہ بنائیں گے تاکہ وہ اِس کے مطابق حالیہ وبا کے خلاف منصوبہ بندی کر سکیں۔’

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا اور فضائی آلودگی کے درمیان کسی براہ راست تعلق کو ثابت کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔ لیکن کئی ایسے ممالک میں، جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے، طبی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے کچھ ایسے مریضوں کو بھی دیکھا ہے جن کو فضائی آلودگی کی وجہ سے پہلے ہی صحت کے مسائل تھے اور انھیں کورونا وائرس نے زیادہ نقصان پہنچایا۔

کورونا بینر

دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟

کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں

کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟


فضائی آلودگی سے ہونے والی ہلاکتیں

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 70 لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔

عالمی سطح پر فضائی آلودگی کے بارے میں گزشتہ برس شائع ہونے والی ورلڈ بینک کی پورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے زیادہ متاثر ہونے والے بہت سارے ممالک جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطی، سب صحارن افریقہ اور شمالی افریقہ میں ہیں۔

ماحول سے متعلق ڈبلیو ایچ او اور اقوامِ متحدہ کی کئی رپورٹوں میں لاطینی امریکہ کے ممالک چلی، برازیل، میکسیکو اور پیرو کے کئی شہروں کو فضائی آلودگی کے لحاظ سے خطرناک قرار دیا جا چکا ہے۔

امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں اِس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے کئی برس پہلے سے اگر فضائی آلودگی میں کمی ہوتی تو اِس وائرس سے ہلاکتوں کی شرح کافی کم ہوتی۔

اِس تحقیق کے مطابق وبا شروع ہونے سے پہلے کے کچھ برسوں میں ہوا میں آلودہ ذرات کا تھوڑا سا اضافہ کووڈ 19 سے اموات کی شرح میں 15 فیصد تک اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

تحقیق میں امریکہ کے زیادہ تر شہروں کو شامل کیا گیا ہے۔ ملکی سطح پر فضائی آلودگی اور مردم شماری کے اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے انھیں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے کورونا وائرس ریسورس سینٹر کے ہلاکتوں کے اعداد و شمار سے موازنہ کیا گیا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ٹی این چین سکول آف پبلک ہیلتھ کی اِس تحقیق کے مطابق اُن علاقوں میں شرحِ اموات بڑھی ہے جہاں فضا میں پی ایم 2.5 نامی ذرات کی مقدار زیادہ ہے۔

پی ایم 2.5 فضا میں موجود بہت چھوٹے ذرات ہوتے ہیں جن کا سائز انسانی بال کے قطر سے 13 گنا کم ہوتا ہے۔ اِن ذرات کو نظامِ تنفس کے انفیکشن اور پھیپڑوں کے کینسر کی ایک وجہ قرار یا جا چکا ہے۔

شمالی اٹلی میں کی جانے والی ایک دوسری تحقیق میں بھی یہ سامنے آیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران خطے میں زیادہ اموات کی ایک وجہ فضائی آلودگی کی بڑھی ہوئی سطح ہے۔

اٹلی کی یونیورسٹی آف سائنا اور ڈنمارک کی آرہس یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں بھی فضائی آلودگی اور کورونا وائرس سے اموات کے درمیان تعلق کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔

21 مارچ تک کے اعداد و شمار کے مطابق اٹلی کے علاقوں لومبارڈی اور ایمیلیا میں باقی ملک کے مقابلے میں کورونا وائرس سے اموات کی شرح 12 فیصد زیادہ تھی۔ سائنس ڈائریکٹ میں شائع ہونے والی اِس تحقیق کے مطابق شمالی اٹلی میں فضائی آلودگی کو زیادہ اموات کی ایک اضافی وجہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

ترقی پزیر ممالک میں فضائی آلودگی

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا کی 90 فیصد آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں فضائی آلودگی کی سطح مقررہ حد سے زیادہ ہے۔ ایسی زیادہ تر آبادیاں غریب ممالک میں ہیں۔

فلپائن میں سانس کی بیماریوں کے معالج سیزر بوگاوسن کہتے ہیں کہ ان کے ملک میں ابتدائی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے تقریباً تمام افراد کو پہلے ہی صحت کے ایسے مسائل تھے جن میں زیادہ تر کا تعلق فضائی آلودگی سے تھا۔

گزشتہ برس ورلڈ ایئر کوائلٹی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انڈیا میں ایسے شہروں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جہاں فضائی آلودگی کی سطح بہت بڑھی ہوئی ہے۔

انڈیا میں کچھ ڈاکٹروں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ فضائی آلودگی اور کووڈ 19 کے درمیان ممکنہ تعلق کو بہت سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔

دلی میں ایک سینئر ڈاکٹر ایس کے چھابڑا کا کہنا ہے کہ ‘اگر یہ وبا انڈیا میں بھی تیزی سے پھیلتی ہے تو ایسے لوگ جو فضائی آلودگی کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہیں زیادہ متاثر ہوں گے۔

پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن کے صدر پروفیسر سری ناتھ ریڈی نے بھی اِس بات سے اتفاق کیا۔

‘آلودگی کی وجہ سے اگر کسی کی سانس کی نالی اور پھیپڑوں کے ٹشو پہلے ہی خراب ہو چکے ہیں تو ایسے شخص کا کورونا وائرس سے بچنا بہت مشکل ہو گا۔’

لیکن انڈیا میں صحتِ عامہ کے حکام کہتے ہیں کہ ابھی اِس تعلق کے بارے میں معلومات اور شواہد موجود نہیں ہیں۔

‘انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ کے ترجمان ڈاکٹر رجنی کانت شری واستوا کہتے ہیں کہ ‘ابھی شواہد کافی نہیں ہیں اور ہم نے بھی ابھی تک ایسی کوئی تحقیق نہیں کی ہے۔’

سارس وائرس اور فضائی آلودگی

سنہ 2002 میں سارس کی وبا کورونا وائرس کے ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے وائرس کی وجہ سے پھیلی تھی۔ سارس کی وبا 26 ممالک میں پھیلی جس سے آٹھ ہزار افراد بیمار ہوئے اور تقریباً 800 اموات ہوئیں۔

سنہ 2003 میں یونیورسٹی کالج لندن کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ سارس میں مبتلا ایسے مریضوں کے مرنے کا امکان دگنا ہے جو ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے۔

کورونا وائرس کی وبا کے دوران دنیا بھر میں فضائی آلودگی کی سطح کم ہوئی ہے لیکن خدشہ ہے کہ جیسے ہی لاک ڈاؤن میں نرمی کی جائے گی آلودگی میں دوبارہ اضافہ ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp