ہمارے پیارے مولانا طارق جمیل صاحب کو کچھ نہ کہیں


ذہنی کاہلی جس کے ساتھ ہمارے قریبی تعلق کی کہانی بہت لمبی ہے، اس نے مولانا صاحب کے معاملے میں بھی پاؤں باہر نکالنے سے روکے رکھا اور یوں بھی اس گھاٹ اترنا کچھ گوارا نہیں تھا مگر برادرم ڈاکٹر افتخار شاہ کا حکم نامہ لندن سے موصول ہوا ہے۔ فرماتے ہیں کہ تم نے میڈیکل کی دو چار کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ پاکستان میں ٹی وی پر کرونا وبا کی وجوہات کی تلاش ہو رہی ہیں اور تمہیں اپنے علم پہ ناز بھی بہت رہتا ہے تو ابھی تک کچھ لکھا کیوں نہیں۔ اب فرار کا کوئی راستہ نہیں۔

اللہ بھلا کرے ہمارے ممدوح مولانا صاحب کا، ہم ان کی گرہ گیر گوہر افشانی کے ایک زمانے سے اسیر ہیں۔ آج ان کی مہربانی سے وبا کی وجہ بھی معلوم ہو گئی ہے۔ اس وبا کی وجہ عورتوں کی بے حیائی ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے بہت سے دوست احباب عورتوں کی بے حیائی کے معاملے میں کافی سنجیدہ ہیں۔ یہ پرانے زمانوں میں بھی ہوتا آیا ہے کہ سیلاب، وبا یا زلزلے عذاب الہی سے تعبیر کیے جاتے رہے ہیں اور ان کی توجیہ اخلاقیات میں ڈھونڈی جاتی رہی ہے۔ ہم نے اپنی انجیل اور قرآن میں ایک مہربان خدا کا تصور دیکھ رکھا ہے۔ ہم نے عذاب کی باتوں کو استعاراتی معنوں میں سمجھ رکھا تھا مگر بات آج واضح ہو گئی ہے۔

کرونا کے موسم میں کاروبار زندگی میں ایک تبدیلی آ چکی ہے۔ لکھنے کو ابھی قلم بھی نہیں اٹھایا تھا کہ ایک جانب نظر گئی تو جالا لگا ہوا تھا۔ یا خدا یہ کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ ہمارے سب گلی کوچوں کا حال یہی ہے۔ جب دیکھ ریکھ پر دھیان نہ دیا جائے تو زوال کی پہلی علامت جالے ہی ہیں، کمروں میں، عمارتوں میں اور ذہنوں پر بھی۔ ایک پسماندگی ہے جس کے اپنے بہت سے مسائل ہوتے ہیں اور پھر ذہنی پسماندگی بھی ہے۔ اگر طب یا طبیعات میں اسباب اور نتیجے کا تعین کرنے کے لئے ایمان کی حرارت کی ضرورت محسوس ہو تو یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے اندر اور باہر جالے لگے ہوئے ہیں۔

جب کرونا سے بچاؤ کے واسطے ہم نے اپنے محترم مولانا کو گڑ گڑا کر دعائیں کرتے دیکھا اور ہمارے عزیز از جان وزیر اعظم نے پورے مجمعے کے سامنے ان کے ساتھ ہاتھ اٹھائے، یقین مانیے ہم پر بھی رقت طاری ہو گئی۔ دعاؤں پر ہمیں بھی بے پناہ اعتماد ہے مگر ہم ایسی فاسق بات کیوں سوچ رہے ہیں کہ اس وقت ہمارے سیاسی لیڈر اورحکمرانوں کو وبا کے موسم میں عملی فیصلے کرنے کے لئے سائنسدانوں اور انتظامی ماہرین کے حلقے میں بیٹھا ہونا چاہیے تھا۔

ہماری سماجی مثلث چمکتے بوٹوں، مذہبی رہنماؤں کے تبحر علمی اور حکمرانوں کی سیاسی فراست سے عبارت ہے۔ سینے پر آویزاں تمغے اور چمکتے بوٹ ہمارے پر عزم ہونے کی علامت ہیں۔ ہم اسی عزم کے ساتھ کرونا وائرس کا مقابلہ کریں گے۔ مذہبی رہنما ہمارے لئے جنت میں داخلے کی کلید ہیں، ہمیں اس دنیاوی زندگی سے کیا لینا دینا اور حکومتی لیڈروں سے پاگل پن کی حد تک محبت ہماری حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کبھی ہم سوچتے تھے کہ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے کیونکہ اللہ اور انسان کے دل کے بیچ کوئی پردہ نہیں۔

مگر ہمارے شعوری زاویے جو ہماری شاندار مثلث نے طے کیے تھے، انہوں نے مل جل کر ہر دل میں مذہبی نور کی قندیل روشن کر دی ہے اور شاید یہ اسی وجہ سے ہے کہ گلی محلے کے بچے سکول میں سیکھنے والی باتیں مدرسے سے سیکھ کر یا اپنے بچپنے میں کھیلنے کی بجائے مزدوری کر کے آج ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ ان کا مطمح نظر زمینی حقائق اور ان کا سماجی حل نہیں، وہ آسمانوں پر کمندیں ڈالنے میں مصروف ہیں۔ اب ہر طرف ہمیں جالے نظر نہ آئیں تو اور کیا نظر آئے۔ ع: چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر۔

تنزل کے واقعات ایک دن میں رونما نہیں ہوتے۔ اس لئے ان کا ادراک اور اہتمام بہت پہلے سے کر کے رکھنا ہوتا ہے۔ یہ عین ممکن تھا کہ ہم لوگ پہلے دن سے تعلیم کی اہمیت کا خیال کرتے اور ان ساری وجوہات کابھی جو معاشرے کو طبقات میں باں ٹ کر امیر اور غریب کے درمیان تفاوت بڑھاتی ہیں۔ اگر کچھ خیال ان کا بھی کر لیتے تو آج جب یہ وبا چاہے آسمانوں سے نازل ہوئی ہے یا زمین سے انسانوں میں پھوٹی ہے، اس کا حل آسمانوں میں ڈھونڈنے کی بجائے یہیں اسی مادی زمین اور ظاہری دنیا میں ہاتھ پاؤں مار کر کرتے۔

غربت ختم کرنے کے لئے طبقاتی حقائق کا خیال اگر کسی وجہ سے کرنا دشوار تھا تب بھی تعلیم کے بار ے میں باقاعدہ پالیسی پہلے دن سے موجود ہونی چاہیے تھی جو کبھی بھی نہیں رہی۔ پچھلے بیس تیس سال میں تو بات بہت ہی بگڑ گئی ہے۔ تعلیم کا عام ہونا معاشروں میں طبقاتی برابری کا موثر طریقہ کار ہے۔ آج جو پاکستان میں غربت اور بیماری کی توجیہات کرتے ہوئے ہر شاخ پہ بیٹھے الو کے منہ سے کرپشن کرپشن کی گردان، عورتوں کی بے حیائی اور لباس کے پیمانے سنتے کان پک گئے ہیں، اس کی بجائے ایک سنجیدہ گفتگو سننے کو ملتی۔ سنجیدہ خیال لوگ جانتے ہیں غلطی ہو جانا یا کسی وقت ایک رائے کا غلط ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں مگر یہ کہ غلط رویے اور غلط پالیسی کی پہچان تک نہ ہو، یہ جالے لگے ہوئے معاشرے میں کچھ زیادہ عجیب بھی نہیں۔

بات وبا کی وجوہات کی ہو، بات تعلیمی پسماندگی کی ہو یا طبقاتی ناہمواری کی، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاتال کی جانب رواں سماجی اعشاریے سسٹم کی سطح پر نہ سوچے گئے تو انجام گلستان کیا ہو گا، یہ نظر آرہا ہے۔ ایسے میں آج کارل مارکس کی یاد آ گئی۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے دوستوں کو مارکس کے نام کے ساتھ تکلیف ہے لیکن مارکس سے کم از کم ایک بات تو ضرور ہی سیکھ لینی چاہیے اور وہ ہے سرمائے یا کیپٹل کی اندرونی خصوصیت کہ سرمایہ کچھ عرصے میں ”ارتکاز“ کرنے لگتا ہے۔

ہمارا معاشرہ اس کی منہ بولتا ثبوت ہے۔ اردگرد نظر دوڑائیں تو غریب طبقے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ان میں تعلیم کی کمی ہوئی ہے۔ ہماری تاریخ نے یہ المیہ ہماری جولی میں ڈال دیا ہے ورنہ بیماریوں سے نمٹنے کے طریقے ہمیں ٹی وی پر بیٹھ کر مذہبی اعتقاد میں ڈھونڈنے کی ضرورت پیش نہ آتی اور نہ ہی وباوں کی وجوہات کو عورتوں کی بے حیائی کے ساتھ جوڑا جاتا۔

ہمارے محترم مولانا طارق جمیل خود سے کوئی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہیں، وہ ایک بڑے مسئلے کی، جسے المیہ کہیے، کی علامت ہیں جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ سماجی نفسیات میں ایک چیز ہے جسے ”سوشل کیریکٹر“ کہتے ہیں۔ یہ کیریکٹر اس عمل کا انجن ہوتا ہے جس سے معاشرے کا کاروبار چلتا ہے۔ معاشرہ اسی سماجی کیریکٹر کو مزید پروان چڑھاتا ہے۔ معاشرہ چاہتا ہے کہ یہ کیریکٹر اس کی بقا کا ضامن ہو جائے۔ اسی وجہ سے اس کیریکٹر کے چاروں جانب سیاست کے زور پر اور مذہب کے ریشمی دھاگے سے ایک ”کوکون“ بنایا جاتا ہے تا کہ سماج اور معاشرے کے اصلی اور مشکل مسائل کا ادراک اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے۔

مکڑی کے وہ جالے جو ہمیں تھوڑی دیر پہلے نظر آئے تھے اب تو یوں لگتا ہے کہ ہم سب ان میں پھنسے ہوئے وہ کیڑے ہیں جن کے فرار کی راہیں مسدود ہیں۔ کیا اب ہمیں اپنی مادی زندگی اور فکری بقا کی راہیں عورتوں کے کپڑوں کی لمبائی میں اور ان کی حیا میں ہی تلاش کرنا ہوں گی؟ ن۔ م۔ راشد یاد آ گئے۔ ع: میں گداگر اور مرا دریوزہ فہم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments