بارے شنگھائی کا بیاں ہو جائے


یہ سن 2016 کا قصہ ہے۔ کافی دنوں سے دفتر کی جانب سے نوید مل رہی تھی کہ اکتوبر میں ہم کو 5 دیگر ہم کاران کے ساتھ جو گراؤنڈ سروس سے وابستہ ہیں شنگھا ئی بھیجا جائے گا تا کہ ہوائی جہاز کے ساتھ منسلک ہونے والی کچھ مشینری پسند کر کے آرڈر دیا جائے۔ پھر اچانک اک گونہ خاموشی چھا گئی، کافی عرصہ بے صبری سے انتظار کرنے کے بعد اکتوبر میں رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ابھی انتظامی معا ملات کی وجہ سے دو چار ماہ کی دیر ہے۔

خیر صاحب خدا خدا کر کے اپریل 2017 کے شروع میں کہا گیا کہ کراچی آ جائیں تا کہ سب کا ویزا ایک ساتھ اپلائی کیا جا سکے۔ کراچی کے ہوائی مستقر پر ہوٹل کا نمائندہ ہمارے نام کا کارڈ تھامے، استقبال کے لئے چشم براہ تھا۔ ٹھاٹھ سے ہوٹل کی کار میں براجمان ہو گئے اور سیدھے ہوٹل کے لئے روانہ ہو گئے۔ بکنگ تو ہماری پہلے سے ہو چکی تھی۔ ایک فارم پر دست خط کیے اور برقی کارڈ (جی ہاں! اب چابی کا زمانہ لد گیا) لے کر کمرے میں آباد ہو گئے گئے۔

اپنے دیگر ہم وطنوں کی طرح ایں جانب بھی بے چین تھے کہ کسی طرح سے چار دانگ عالم میں یہ ڈھنڈورا پیٹ دیا جائے ہم ایک پنج ستارہ اقامت گاہ میں قیام پذیر ہیں۔ بس صاحب پھر کیا تھا۔ ایک مصنو عی سی سنجیدگی طاری کر کے کہ ”بھئی ہم کراچی آئے ہوئے تھے۔ سوچا آپ کی خیریت دریافت کر لیں“ ۔ سب جاننے والوں کو فون کھڑکا دیے۔ اب اگر سامنے والے کے بھیجے میں ذرا سی بھی عقل ہے تو ضرور پوچھے گا۔ کہ ”اچھا۔ کب آئے؟ کہاں ٹھیرے ہو اورکیسے آئے؟“

بس حضور۔ منزل مراد پا لی۔ بظاہر بڑی ہی عاجزی مگر ملفوف احساس تفاخر کے ساتھ بتایا گیا ”کمپنی کے کام سے چین جا رہے ہیں۔ ویزا لگوانے آئے ہیں۔ شام کو فارغ ہو تو آ جاؤ۔ گپ شپ لگا لیں گے۔“ اسی طرح تین چار دوستوں سے رابطہ کیا اور پرگرام بنا کہ شام کو دو دریا کی سیر کی جائے اور کھانا بلکہ کھابا بھی وہیں کھایا جائے۔ اگر آپ کراچی جا کر دو دریا نہیں گئے تو واللہ آپ کا ٹرپ بیکار گیا۔ یقین کیجئے کلفٹن کی پرانی سیر گاہ دو دریا کے آگے پانی بھرتی ہے۔

بانس اور لکڑی سے تیار کردہ بڑی بڑی ہٹس میں قائم ریسٹورنٹ، کھلے سمندر میں کچھ یوں استادہ ہیں کہ آپ لکڑی کے خوبصورت فرش پر عین سمندر کے درمیان آرام دہ صوفوں پر براجمان کام و دہن سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مست نیلگوں لہریں آپ کی ہٹ سے ٹکرا کر چھینٹے اڑا رہی ہیں۔ سامنے بگلے سمندر سے اپنا رزق حاصل کر رہے ہیں۔ دور حد نگاہ تک لا تعداد بجرے ے رواں دواں ہیں۔ خوش فعلیاں ہو رہی ہیں۔ غرضیکہ عجب کیف و سرور کا عالم طاری ہوتا ہے۔

ہم ملتانی۔ مٹیاں پھانکنے والے۔ ہم نے کاہے کو یہ مناظر دیکھے ہوں گے، ۔ واللہ یہی خیال آیا کہ جنت میں اس سے زیادہ اور کیا ہو گا، وہی اعرابی والا حال تھا جو بادشاہ کے لئے دجلہ کا پانی بھر کے لے آیا تھا۔ (معاف کیجئے گا۔ یہ کوئی الف لیلوی داستان نہیں ہے اور نہ ہی خلیفہ ہارون رشید اور ملکہ زبیدہ کی کہانیوں سے مقتبس ہے۔ بچشم خود جا کر ملا حظہ کر لیجیے گا۔ کرونا سے نپٹنے کے بعد) ۔ یہاں انتہائی خوش ذائقہ بار بی کیو سے انصاف کرنے کے بعد آپ کی تواضح کے لئے اسی سڑک پر کچھ آگے ماڈرن ڈھابوں پر بہترین چائے۔

لسی، ملک شیک وغیرہ پینے کا انتظام بھی ہے۔ ”جو چاہے آپ کا دہن کرشمہ ساز پئے“ یہ با لکل ایسے ہے کہ جب آپ کا لام یا بحرین جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ مقامی ہوٹل والوں نے دریا کے عین وسط میں کرسیاں اور ماچے رکھے ہوئے ہیں جہاں آپ دریا میں پاؤں لٹکا کر ایک تصویر ضرور بنواتے ہیں اور بطور یادگار چا ئے کے ساتھ پراٹھے بھی کھا تے ہیں۔ لیجیے حسنین میاں آپ کہتے ہیں ہم تفصیل اور باریکیوں میں نہیں جاتے۔ ہن ارام اے؟

رات ایک بجے کے قریب واپسی ہوئی۔ کراچی کے ہم کار ارشد عظمت سے طے ہو چکا تھا کہ وہ از راہ تلطف صبح ہمیں ہوٹل سے لے لیں گے۔ اور ہم ایک ساتھ چینی سفارت خانے جائیں گے۔ چنانچہ حسب پروگرام 8 بجے ہوٹل سے روانہ ہو کر تقریباً آدھ گھنٹے میں ہم لوگ سفارت خانے پہونچ گئے۔ یہاں بقیہ تین ساتھیوں سے بھی ملاقات ہو گئی اور سب حسب دستور لائن میں لگ گئے۔ قریب 2 گھنٹے کے بعد جب متعلقہ کھڑکی پر اپنا فارم جمع کرانے پہنچے تو ہمارے سر پر بم پھوڑا گیا کہ چونکہ ہمارا تعلق پنجاب سے ہے اس لئے ہم کراچی کے قونصلیٹ میں ویزا کی درخواست دینے کے مجاز نہیں ہیں، ہمیں اسلام آباد کے سفارت خانے سے رابطہ کرنا چاہیے۔

اور یہ کہ کسی بھی قسم کی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ براہ کرم اپنے پیچھے والے کے لئے جگہ خالی کریں۔ بندہ گھبراہٹ میں انگریزی بولے تو خوا ہ مخواہ ہی ہکلانے لگتا ہے ”مگر مم میں تو کک کمپنی کی طرف سے جا رہا ہوں۔ یہ دیکھیے چینی کمپنی کا سپانسر لیٹر۔ وغیرہ وغیرہ“ ۔ ”کہا نا کہ اسلام آباد جائیے۔ ڈبل اے استاد۔ با اا اائے“ ۔ لیجیے صاحب چونکہ چنانچہ گویا کہ مثلاً بات کچھ یوں بنی کہ یہاں تو ناکامیوں نے ہمارے قدم چومے اور نا امیدیوں نے سہرے باندھے۔

یہ شکر ہے کہ ہم اکیلے نہیں تھے اور اس ابتلا میں پشاور اور لاہور کے ہم کار بھی شریک تھے اس لئے ہم سب کی مشترکہ بے عزتی ”خراب“ ہوئی۔ اب کیا کیا جائے۔ ٹوٹے ہوئے دل اور جگر پاش آہوں کے ساتھ واپس جا کر ایڈمن آفس میں دہائی دی کہ ہمارے ساتھ تو یہ انیائے ہو گیا ہے۔ وہاں ایک مہربان افسر موجود تھے۔ انہوں نے اطمینان دلایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ سپانسر کی جانب سے تین ماہ کی چھوٹ ہے اس لیے آپ کے اسلام آباد سے ویزا اپلائی کرنے کا انتظام کر دیا جائے گا۔

سو ہم ٹھنڈے ٹھنڈے گھر کو سدھارے اور نئے سرے سے انتظار کے چرخے میں امید کا سوت کات کات کے متوقع خوش رنگ مناظر کی بنت شروع کر دی۔ ہاں آپ سے کیا پردہ۔ جن دوستوں کے ساتھ کل رات دو دریا پر خوب شیخیاں بگھار رہے تھے، ان کو ہوا بھی نہیں لگنے دی کہ ہمارے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے۔ اگر وہ یہی سمجھتے رہیں کہ ہم تو ویزا لگوا کر کامران و با مراد لوٹے ہیں تو کیا مضائقہ ہے۔ ارے صاحب کس کے پاس اتنی فرصت ہے۔ رات گئی با ت گئی۔

چونکہ یہ دورہ سپانسر کی معرفت ہو رہا تھا اس لئے ہمارے آفس نے ان کو نئی صورت حال سے آگاہ کیا اور ہم کو پھر سے انتظار کرنے کو کہا گیا۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ ”فقیروں کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا“ ۔ (واہ حضور واہ۔ مان گئے آپ کو۔ کیسے بجلی کے کوندے کی طرح۔ گویا سیکنڈ کے ہزارویں پل میں یہ محاورہ اپنی اصل زبان میں آپ کے ذہن میں لپکا) ۔ سو حال ہمارا تھا۔ معزز قارئین بجا طور پر احتجاج کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ اس سارے فسانے میں شنگھائی کہاں ہے۔

ہمیں دھوکے سے یہاں تک پڑھوا دیا اور عنوان کے مطابق شنگھائی کے قریب تک نہیں پھٹکے۔ تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ حضور دھیرج رکھیں۔ ذرا ویزا تو لگنے دیں۔ چلتے ہیں۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ آخر زیب داستان بھی تو کسی چڑیا کا نام ہے۔ ابھی تو ہم ”الانتظار اشد من الموت“ کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ ورنہ تو اس سمندر کو کوزے میں یوں بھی بند کیا جا سکتا تھا کہ ”آفیشل دورے پر شنگھائی گئے، بڑا مزا آیا۔ خوب سیر کی اور لوٹ آئے۔

“ یہاں ہمیں ایک فارسی محاورے کا مفہوم یاد آ رہا ہے کہ ”حضرت یوسف زلیخا کا قصہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ۔ زلیخا کو ان سے محبت ہو گئی، شادی ہو گئی اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے،“ ۔ اگر کسی صاحب کو یہ محاورہ فی الاصل یاد ہو تو ضرور رہنمائی کر دیں۔ الجھن سی ہو رہی ہے۔ بہر کیف اس کے بعد کیا ہوا۔ اس کے لئے ”اک ذر ا انتظار۔ سن صدائیں دے رہی ہے منزل چین کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments