یاور حیات ملک تمثیل کا شہزادہ تھا


\"khizerبےجان کرداروں کو زندہ جاوید کر دینے والے چن جی لیجنڈ یاورحیات اللہ کو پیارے ہو گئے۔

\”وقت کا دھارا کبھی کبھی ایسے انسانوں کو جنم دیتا ہے جو اپنی محنت شاقہ ، ہنر ، فن اور خداداد صلاحیتوں سے سمندروں کے مہیب اندھیروں میں لائٹ ہاؤس بن جاتے ہیں ..آنے والی نسلیں تادیر ان سے روشنی اور منزلوں کے نشان پاتی ہیں ..پاکستان ٹیلی ویژن کی جھولی انمول موتیوں سے بھری ہوتی تھی ..انہیں موتیوں میں ایک در نایاب یاور حیات تھا جس کے اعلی و ارفع خیالات کی قوس قزح نے سکرین پر دھنک کے ایسے رنگ بکھیر دییے کہ دنیا ورطہ حیرت میں پڑ گئی اور لوگ اس کے فن کی باریکیوں اور بالیدگیوں کے سحر میں مبتلا ہو گۓ ..سوچ کے سمندر سے وہ بے مثال موتی نکال کے لاتا اور اپنے کمال ہنر و فن سے ان کو سکرین پر یوں سجاتا کہ پلک جھپکنا مشکل ہو جاتا اور یوں لگتا سکرین پر گویا ایک گلستان کھل گیا. بے جان کرداروں کو زندہ جاوید کر کے امر کر دینے والا، چھوٹی سی بات  کو نئے اور خوبصورت زاویے دینے والا، سوچ کی روشنی سے قلب و ذہن کو منور کر دینے والا، ڈرامے کے فن کو بالکل ایک نئے انداز پر ڈالنے والا، ان سب باتوں کو سن کر جو نام بے ساختہ ذہن میں آتا ہے وہ ہے سردار یاور حیات \”

یہ ایک اقتباس ہے یاور حیات صاحب کے بارے میں ایک ڈاکومنٹری سے جو اب ہم میں نہیں رہے۔ یاور صاحب کے یہ ڈرامے اس وقت چلتے تھے جب صرف پی ٹی وی ہی کا چینل تھا اور واحد سورس تھا ہماری تفریح کا_مگر یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ تفریح آج کے بھانت بھانت کے ٹی وی چینل میں کہیں دور دور نظر نہیں آتی ۔۔۔ سڑکیں سنسان اور بازاروں میں الو بولتے تھے جب یہ ڈرامے آن ایر ہوتے تھے ۔

یاور حیات پنجاب کے ایک معروف زمیندار اور سیاسی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے دادا سر سکندر حیات خان تھے_ انکی پیدائش 1943 میں ہوئی تھی _ لاہور سے پیار یاور صاحب کو گارڈن کالج راولپنڈی سے ایف سی کالج لاہور لے آیا جہاں ان کے فیورٹ ماموں شہرہ آفاق فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر انور کمال پاشا بھی رہتے \"yawar-yahat\"تھے _ انور کمال پاشا صاحب اگرچہ خود فلم میڈیا سے منسلک تھے مگر انہوں نے یاور صاحب کو کہا کہ فلم کا مستقبل زیادہ بہتر نظر نہیں آ رہا۔ اس لیے کسی اور میڈیم میں طبع آزمائی کرنا بہتر ہو گا_ اس طرح یاور صاحب ایڈورٹائزنگ سے ہوتے ہوے پی ٹی وی میں آئے اور پھر اس کے بعد ایک کامیاب ترین ڈرامہ نگار اور پروڈیوسر بنے _ یاور حیات کے شاہکار ڈراموں میں جھوک سیال ، سدھراں ، زنجیر ، سمندر اور فرار شامل تھے جنھیں دیکھ اکر ایک پوری نسل جوان ہوئی

یاور صاحب کی خاص بات ان کے ڈراموں کے کرداروں کا بہت جاندار ہونا تھا – اور اس کے لئے بہ ریہرسل پر بہت زور دیتے تھے – اگر کوئی سینیر فنکار ریہرسل سے اجتناب کرتا نظر آتا تو وہ کہتے \” تساں جیہڑے سب کدنین ماں ہن کڈ کے وکھاؤ \” یعنی جو اداکاری ٹیک کے وقت کر کے دکھانی ہے، وہ ابھی مجھے کر دے دکھائیں۔ ایک اداکار کے بقول یاور صاحب جب ریہرسل کرا رہے ہوتے تو سگریٹ کے کش لگاتے ہوے آنکھوں کو گھما رہے ہوتے تھے اور انکی بڑی بڑی آنکھوں میں اداکار اپنا کردار دیکھ سکتا تھا – ہمارے دوست اصغر سہیل کے بقول ان کا یاور صاحب کے ساتھ سیریل وادی جو پوٹھوہار کے دو خاندانوں کی کہانی تھی – مگر کمال دیکھیں کہ ہم لوگوں اس کے لئے ایک دن بھی اس وادی میں نہیں گئے- بلکہ یاور صاحب کی کیمرے جیسی آنکھوں نے سارا سیریل شملہ پہاڑی پر کر کے دکھا دیا

یاور حیات صاحب نے میڈیا کو بہت کم انٹرویو دیے – ان کے بقول ان کا کام ہی ان کا انٹرویو تھا – ان کے بقول اللہ کو ہماری عاجزی پسند ہے اور یہ زندگی اللہ کا ہمارے لیے ایک حسین تحفہ ہے – ہمیں یہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور ہمیں اسے بہترین طریقے سے گزارنا چاہئیے _ یاور صاحب یہ بھی کہتے تھے کہ اس سیارے ہم صرف ایک دفعہ ہی آتے ہیں – ہو سکتا ہے شاید کس اور سیارے پر ہم آسکیں اور پتہ نہیں وہاں کی زندگی کیسی ہو\"moorat-by-yawar-hayat-bindiya-tarar\"

آخر میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کا یاور حیات صاحب کے لئے tribute کا ذکر کرنا مناسب ہوگا

 \” اگر یاور حیات نہ ہوتا تو پاکستان ٹیلی ویژن بھی یوں نہ ہوتا۔۔۔

’’چن جی‘‘ تم کیا جانو کہ یاور حیات کون تھا،

 وہ ایک شہزاد ہ تھا، ملک تمثیل کا شہزادہ۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments