مجھے کرونا پر یقین آ گیا


وہ سب نہیں مانتے تھے کہ کچھ ہے، شاید میں بھی انہیں میں سے تھا۔ ہمارا مزاج ہی ایسا ہے کہ اگر ذہن کوئی بات تسلیم نہ کرے تو پھر چاہے جتنے مرضی دلائل پیش کردیں، کم از کم دل نہیں مانتا۔ پھر کوئی بھی بحث لاحاصل اور بے نتیجہ ثابت ہوتی ہے۔

میں شعبہ طب سے وابستہ افراد میں اٹھتا بیٹھتا تھا، ان میں سے کچھ میری سوچ کی کسی حد تک تائید کرتے کہ وائرس اتنا طاقتور یا مہلک نہیں جتنا پوری دنیا میں عمومی تاثر دیا جا رہا ہے۔ ہماری بات چیت کا محور درحقیقت عالمی سیاسی منظر نامہ تھا جس میں کبھی شک چین کی کسی چال کی طرف چلا جاتا کوئی اسے امریکا کی ایک تیار شدہ جنگ کا نام دیتا۔ ہمارے ایک سیانے ڈاکٹر دوست کو پختہ یقین تھا کہ اس سب کے نتیجے میں امریکا نے پہلے سے تیار شدہ یا پھر فوری طور پر کوئی ویکسین بنالینی ہے جسے پوری دنیا میں مارکیٹ کردیا جائے گا۔

جیسے کہ سوشل میڈیا بھی ایسے خدشات کا اظہار کررہا تھا کہ چین اور دیگر مغربی ممالک کے درمیان معاشی جنگ ایک نئے انداز میں شروع ہوگئی ہے بلکہ اسے عالمی جنگ کہا جا رہا تھا، اس میں جاپان، جرمنی حتیٰ کہ بھارت بھی چین کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کرنے میں کسی سے پیچھے نہ رہا۔

لیکن اس باتوں اور بحثوں کے ساتھ کورونا بڑی خاموشی اپنے قدم رکھ رہی تھی، اب آہستہ آہستہ چھوٹے بڑے، طاقتور کمزور ملک اس کی چاپ واضح طور پر سننے لگے تھے، لوگ اس وبا کا شکار بن کر زندگیوں سے ہاتھ دھونے لگے۔ اس سب کے دوران بھی ہماری گفتگو کچھ ایسی ہی رہی، ہر سال ان دنوں میں فلو کے نتیجے میں پوری دنیا میں لوگ مر جاتے ہیں۔ ابھی یہ کوئی خاص تعداد نہیں۔ اگر کسی کے منہ سے نکل گیا کہ میں نے اپنی زندگی میں پوری دنیا میں ایسی آفت کبھی نہیں دیکھی تو گوگل پر سرچ کرکے کسی دوسرے دوست نے کہہ دیا تمھیں نہیں معلوم پچھلی صدی میں اسپین میں فلو آیا تھا اس میں پانچ کروڑ افراد جان سے چلے گئے تھے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ ایسی باتوں کا مقصد شاید اپنے خوف کو دور کرنا تھا یہ دل کو تسلی دینا تھی کہ ایسے ہی باتیں بنائی گئی ہیں، کچھ خاص ہونے والا نہیں۔

پھر سب سے بڑھ کر ایک معیار چن لیا تھا کہ ایک دوسرے سے گھروں میں بھی پوچھا جاتا تھا کہ کسی کو اپنے اردگرد کورونا ہوتے دیکھا، نہیں نہ، یہ محض میڈیا پر بنی باتیں ہیں، سب سے بڑھ کر اگر کسی کو احتیاط کے لیے کہاگیا تو یہی جواب ملا، جناب ان باتوں میں کچھ نہیں رکھا بس دوسروں سے گلے نہ ملیں، ہاتھ نہ ملائیں باقی سب خیر ہے۔ دینی لوگوں نے پہلے احادیث کے حوالے دیکھ کر محدود اور گھروں تک رہنے پر قائل کیا پھر مساجد بند ہونے پر شور مچادیا۔ کاروباری طبقہ پہلے ہی معاشی بدحالی پر پریشان تھا۔ وہ بھی گومگو کا شکار ہوگیا۔

میں نے جب ڈاکٹر دوستوں سے پوچھا انہوں نے بتایا کہ لوگ کچھ زیادہ وہم کا شکار ہوگئے ہیں، محض نزلہ، کھانسی اور بخار پر ہسپتال آجاتے ہیں۔ اتنی بات پر اتنا مہنگا ٹیسٹ نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں شاید احساس نہیں۔ حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں۔ وہ لاک ڈاؤن کرسکتی ہے، احتیاطی تدابیر بتاسکتی ہے۔ خدانخواستہ زیادہ لوگ متاثر ہوگئے تو ہسپتالوں میں انہیں رکھنا اور بیماری کی شدت بڑھنے پر کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔

میرے سمیت کئی دوست اور عزیز رشتہ دار پریشانی کے ساتھ ایک عجیب ابہام کا شکار تھے، خوف تھا مگر یقین نہیں آرہا تھا۔ کیونکہ پھر وہی بات کسی کے بارے سنا نہیں تھا۔ فلاں کے رشتہ دار، کولیگ، دوست کو بیماری لگی ہے۔ بس ہر جانب باتیں تھیں۔ اب کئی قسم کی خیالات مسترد کیے جارہے تھے، گرمی اور درجہ حرارت بڑھنے سے وائرس ختم ہوجائے گا، امریکا، یورپ یا پھر چین میں علاج تلاش کرلیا گیا۔ جلد ویکسین مارکیٹ ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ عمومی تاثر کہ زیادہ پریشان کن صورتحال نہیں اکثر لوگ ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ٹھیک ہوجاتے ہیں بغیر علامت کے بھی نکل آتا ہے لیکن کچھ نہیں ہوتا۔ دل کو ایک طرح سے تسلی مل جاتی تھی۔

مجھے اتنا ضرور خیال رہ رہ کر آتا کہ بوڑھے والد ہیں، انہیں سانس کا مسئلہ ہے کہیں میں باہر سے آتا ہوں انہیں کچھ نہ ہوجائے۔ یہ بھی دیکھنے اور سننے میں آرہا تھا کہ جس گھر میں سے کسی کو وبا لاحق ہوجائے پھر ساری گھر والوں کو قرنطینہ میں ڈال دیتے ہیں، خاص کر بڑے مشکوک انداز سے پولیس اور رینجرز آتے اور پورے محلے کو سیل کردیتے، اس کے ساتھ پھر ایسی اطلاعات کہ اگر بیماری کا شکار شخص اگر فوت ہوجائے تو اس کے غسل اور پھر جنازے کے بعد تدفین بھی محفوظ لباس میں مختصر افراد انجام دیتے ہیں۔ یہ وسوسے بھی جان کو آنے لگے کہ ایسی بیماری سے بہتر ہے کہ کسی اور مرض میں موت واقع ہوجائے۔

اور پھر ایک دن ہلکا بخار ہوا، جسے شاید دو دن سے زیادہ عرصہ ہوچکا تھا شکایت پر آفس والوں نے ٹیسٹ کرایا، کچھ ڈر سا دل میں بیٹھ گیا نہ جانے کیا نتیجہ آئے، ایک دن کسی کو نہیں بتایا بیوی بچوں سے اپنی کیفیت بھی چھپائی رکھی، لیکن ہونی ہوکر رہتی ہے۔ رزلٹ مثبت آگیا، دوستوں نے تسلی دی، ہسپتال میں داخل کرادیا گیا، اس بات کا شکر ادا کیا کہ میرے گھروالوں کو زیادہ تنگ نہیں کیا گیا۔ ہاں وہ پریشان ضرور ہوگئے۔

ہسپتال میں بیڈ پر لیٹے مجھے سبھی باتیں، بحثیں، اور اکیلے میں گزارے لمحے یاد آنے لگے، خاص کر ایسی سوچ کہ کیا ہوگیا اگر کسی کو بیماری ہو بھی جاتی ہے تو اسے کچھ نہیں ہوگا، لیکن میری کیفیت آہستہ آہستہ خراب ہونے لگی، جن باتوں کا اندیشہ بھی نہ تھا وہ کچھ ہونے لگا، طبی عملے کی کوششوں کے باوجود بخار اتر نہیں رہا تھا بظاہر میری علامات زیادہ مل نہیں رہیں تھیں لیکن اب رفتہ رفتہ سانس کا نظام بگڑنے لگا، اس دوران والد صاحب کا خیال بھی آیا نہ جانے وہ کس حال میں ہوں گے۔

میری حالت اگر انہوں نے دیکھ لی تو شاید انہیں کچھ نہ ہوجائے۔ اللہ نہ کرے، یہی ذہن میں آتا۔ اب مجھے یہ وبا مکمل طور پر احساس دلانے میں کامیاب ہوچکی تھی کہ دیکھ لیا یہ میں ہوں، کیا تمہیں اب بھی یقین نہیں آرہا، اس وقت مجھے اپنی اور اپنے جیسوں کی عقل اور ذہانت کے نتیجے میں کی گئی بہت سے باتوں دلیلوں کی یاد آنے لگی کہ یہ سب ہماری اپنی گھڑی ہوئی کہانیاں یا کوئی افسانہ ہے، کوئی شے بڑے ان دیکھے انداز جیسے مجھے اپنی گرفت میں لے رہی تھی، یہ مرض کی شدت تھی، موت کا شکنجہ تھا، یہ میری کمزوری جسے قوت مدافعت کہا جاتا تھا، لیکن میں بتدریج اپنا آپ جیسے چھوڑ رہا تھا،

ایک ایسی چیز جس کا اکثر خبروں میں ذکر ہوتا تھا، جسے کورونا کے مریضوں کا علاج نہیں کہتے مگر زندگی بچانے کا آخری حربہ یا کوشش، یعنی مصنوعی تنفس کے لیے وینٹی لیٹر لگا دیا گیا۔ جس کے بعد یہ احساس مزید تقویت پکڑ گیا کہ معاملہ میری بساط سے باہر ہوتا جا رہا ہے، مجھے نہیں معلوم کون کون آیا کس نے دیکھا اور ہاتھ ہلایا، میری اس کیفیت پر کئی آنکھیں پرنم بھی تھیں۔ مگر میں بے بسی کی تصویر بنا تھا۔
مجھے یقین ہوگیا کہ کوئی ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments