پھر 18 ویں ترمیم کا شوشہ؟


اپریل 2010 ء میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آئین میں 18 ویں ترمیم متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے صاد کیا تھا۔ اس ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے زیادہ تر اختیارات اور مالی وسائل صوبوں کو منتقل کردیئے گئے۔ اس کا مقصد 1973 ء کے آئین کووفاقی اور پارلیمانی بنانے کے علاوہ مالی اختیارات صوبوں کو منتقل کرنا تھا۔ دیکھا جائے تومتذکرہ ترمیم کا زیادہ فائدہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کو ہی ہوا، اس وقت پنجاب میں شہبازشریف وزیر اعلیٰ تھے، مرکز میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم جبکہ مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں تھی۔

چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی 18 ویں ترمیم کی حمایت کی کیونکہ وہ روز اول سے ہی مصر تھیں کہ 1973 ء کے آئین جس کی بعد میں آنے والے آمروں نے شکل ہی بگاڑ دی، وفاقیت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا تھا۔ بعض نا قدین وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے 18 ویں ترمیم چھیڑنے سے متعلق انکشاف کو عین اس وقت جب وطن عزیز کورونا وائرس کے باعث سقوط ڈھاکہ کے بعدسب سے بڑے قومی بحران کا شکار ہے بے وقت کی راگنی قرار دے رہے ہیں۔

ویسے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت روز اول سے ہی 18 ویں ترمیم سے خائف ہے اور اس کا متعدد بار ذکر کر چکی ہے۔ فوجی قیادت بھی اس ترمیم کو پسند نہیں کرتی اورآرمی چیف اس کا اظہار اپنی میڈیا کے ساتھ میٹنگز میں بھی کر چکے ہیں۔ 18 ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ جس کے ذریعے صوبوں کو وفاق سے مالی وسائل میں حصہ ملتا ہے، میں ترمیم کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ترمیم کے نتیجے میں صوبے زیادہ با اختیار اورامیرہو گئے ہیں جبکہ وفاق غریب۔

مثال کے طور پر صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبے صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ گویا کہ سب لے دے کر وفاق کے پاس بہت کم وسائل باقی رہ جاتے ہیں۔ کو رونا وائرس کو جواز بنا کر ہی آئین میں ترمیم کرنے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ اسد عمرکا کہنا ہے کہ اس ترمیم کی بنا پر صوبوں اور وفاق کے مابین وبا سے نبٹنے کے لیے مکمل ہم آہنگی نہیں ہو پائی، دوسرے الفاظ میں وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے کورونا وائرس سے نبٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات پر معترض ہیں۔

اس امر کے باوجود کہ مراد علی شاہ کے فیصلوں کو عالمی اداروں نے بھی سراہا ہے، حکومتی ترجمانوں نے اپنی توپوں کا رخ ان کی طرف کردیا ہے شاید اس لئے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم عوام کی نظروں میں ہنوز قائدانہ اور فیصلہ کن رول ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کی حکومت کے انوکھے فیصلے 18 ویں ترمیم کی وجہ سے نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کے مخصوص میلان طبع کی بنا پر ہیں۔ مثال کے طور پر کورونا لاک ڈاؤن روز اول سے ہی ہر چندہے کہ نہیں ہے، ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کی پالیسی کا 18 ویں ترمیم سے کیا تعلق ہے؟

اسی طرح رمضان المبارک میں ساری اسلامی دنیا کے برعکس صدر مملکت کی طرف سے علما کے ساتھ 20 نکاتی معاہدے کے تحت مساجد کھول دینا ہے، کیا 18 ویں ترمیم کی وجہ سے ملک بھر کے سینئر ڈاکٹرز اس گومگوکی پالیسی پر سراپا احتجاج ہیں لیکن ان کی باتوں پرکان دھرنے کے بجائے مسلسل یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ یہ سب شرارت سندھ کے وزیراعلیٰ کی ہے جو انہیں اکسا رہے ہیں۔ 18 ویں ترمیم میں ردوبدل تحریک انصاف کی حلیف چھوٹے صوبوں کی جماعتوں کے علاوہ قوم پرست جماعتوں کو بھی قابل قبول نہیں ہو گی۔

نہ جانے اسد عمر نے کس بنا پر کہا ہے حکومت کے ایسے فیصلوں کے حوالے سے مثبت اشارے ملے ہیں۔ اسد عمر نے درست کہا ہے کہ جب تک وفاق اور صوبے مل کر کام نہیں کریں گے معاملات درست نہیں ہوں گے۔ ان کاکہنا ہے یہ اختیارات کی جنگ نہیں، ہم مل کر کام کرنا چاہتے ہیں اور محض 18 ویں ترمیم میں بعض خرابیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں لیکن یحییٰ خان کے قریب ترین جرنیل لیفٹیننٹ جنرل عمر کے صاحبزادے جو سیاست میں نسبتاً نوآموز ہیں، کو گویا پاکستان کے وفاق کی پیچیدگیوں کا ادراک نہیں ہے۔

یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، ایسے مرحلے پر جبکہ حکومت نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو دھتکارنے اور لعن طعن کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے یہ نیا پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہو گا۔ 18 ویں ترمیم کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جیساکہ اس ترمیم کی منظوری کے موقع پر اتفاق رائے ہوا تھا، ایسا ماحول ہوتا تو کچھ لو اور کچھ دو کی بنا پر بات چیت آگے بڑھ سکتی تھی۔ اس وقت تو صورتحا ل یہ ہے پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں آ ئین میں چھیڑ چھاڑ کو صوبائی خود مختاری ختم کر کے وفاقی سسٹم لانے کے مترادف سمجھ رہی ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے اٹھارہویں ترمیم پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کریں گے اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس حوالے سے بلاول اور مولانا فضل الرحمان کے مابین ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے جس میں 18 ویں آئینی ترمیم کے تحفظ کے حوالے سے اتفاق کیا گیا۔ بلاول نے مزید کہا ملک کورونا وائرس کی وجہ سے سنگین حالات سے گزررہا ہے، وفاق آئین میں ردوبدل کے بجائے صوبوں کی مدد کرے۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ صوبوں کو مالی اور انتظامی امور میں با اختیار بنانے سے متعلق آئین میں کی گئی 18 ویں ترمیم کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے منظور کیا، حکومت کی طرف سے اس ترمیم کو ختم کرنے کے حوالے سے شرانگیز بیانات کا مقصد قوم سمجھنے سے قاصر ہے، انہوں نے کہا ایک نیا انتشاراورتنازع کھڑا کرنے کا مقصد کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

ادھر مولانا فضل الرحمان نے میاں شہباز شریف سے بھی صلاح مشورہ کیا ہے۔ ان حالات میں موجودہ پارلیمنٹ سے اس قسم کی آئینی ترمیم منظور کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ شاید اسد عمرکو یہ غلط فہمی ہو کہ اپوزیشن کی کنپٹی پر نیب کی پستول تان کر اور ماورائی قوتوں سے دباؤ ڈلوا کر آئینی ترمیم منظور کرائی جا سکے گی لیکن تاریخ سے اتنا مذاق شایدعملی طور پر ناممکن ہو گا۔ 18 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ میں منظور کرانے کے پیچھے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا دو سالہ باہمی اتفاق رائے تھا۔

اس کے ذریعے 1973 ئکے آئین کو اوور ہال کیا گیا اور آئین کی 102 اہم شقوں میں ترامیم بھی کی گئیں۔ یہ 18 ویں ترمیم ہی تھی جس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کی 1973 ء کے آئین میں اپنے اختیارات کے لیے کی گئی 17 ویں ترمیم ختم کر دی گئی تھی۔ اسی طرح آرٹیکل 52 ٹو۔ بی جس کے تحت صدر مملکت فوجی قیادتوں سے ملی بھگت کر کے وزیراعظم کو گھر بھیج سکتا تھا ختم ہو گئی۔ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس میں صوبائی حکومتوں کو گھر بھیجنے اور گورنر راج کے نفاذکے عمل کو خاصا مشکل اور پیچیدہ بنا دیا گیا۔

18 ویں ترمیم سے صوبوں کو مالی اختیارات اور وسائل تومل گئے لیکن ان کی عوام کی فلاح وبہبود پر ذمے داری سے خرچ کرنے کی صلاحیت نہ بڑھ سکی۔ اگرچہ پنجاب میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس ترمیم کے بعد اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں خاصے نئے منصوبے بنائے اور ان پر عمل درآمد کیا گیا تاہم ان کی ترجیحات پر آج بھی شدید نکتہ چینی کی جاتی ہے۔ 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد جو کام ہونے چاہئیں تھے وہ نہیں کیے گئے۔

مشترکہ مفادات کونسل کاغذوں میں تو موجود ہے لیکن اس کا کوئی سیکرٹریٹ بن سکا اور نہ ہی یہ ادارہ صوبوں اور وفاق کے درمیان ہم آہنگی اور تال میل بڑھانے کا ذریعہ بن سکا۔ کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال میں اپوزیشن نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا متعدد بار مطالبہ کیا لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس ضمن میں یہ عذر لنگ پیش کیا گیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا سیکرٹریٹ ہی نہیں بن سکا۔

یہاں یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر سابق حکومتوں نے اس بارے میں کوتاہی برتی تو آپ کی حکومت کو کس نے روکا ہے کہ وہ ایسا سیکرٹریٹ نہ بنائے جبکہ کورونا وبا کے باوجود باقی امور تو معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ 18 ویں تر میم کی سپرٹ کا تقاضا تو یہ تھا کہ صوبوں سے اختیارات نچلی سطح پر حکومتوں کومنتقل کیے جاتے لیکن بد قسمتی سے ایسانہیں ہواکیونکہ اس کے لیے فنڈز بھی لوکل باڈیز کو منتقل کرنے پڑنا تھے۔ حکومتیں ہوں یا اپوزیشن جماعتیں انہیں فنڈز خود استعمال کر نے کی لت پڑ گئی ہے اور یہ لت جنرل ضیاء الحق نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے ڈالی تھی جوآج بھی جاری ہے۔

حال ہی میں حکومتی حلیف مسلم لیگ (ق) کے جھگڑے کی ایک وجہ نام نہاد ترقیاتی فنڈ زبھی تھے حالانکہ اصولی طور پر دیکھاجائے تو ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کاکام قانون سازی کرنا ہے، سڑکیں اور نالیاں بنوانا نہیں۔ اس پس منظر میں دیکھاجائے تو عملی طور پر 18 ویں ترمیم صرف آئین سے ماورا طریقے سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments