ڈاکٹر لورنا برین نے خود کشی کر لی!


ہم کہانیاں سنتے ہیں اور دیکھتے بھی ہیں، دن رات، صبح شام!

رنج و الم، مظلومیت، محکومیت، بےبسی، درد، انہونی کا ڈر، بے چینی، مجبوری، آس و نراس، پریشانی، امید و ناامیدی، موت و زندگی، خوف، ڈپریشن، انگزائٹی!

کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم یہ کہانیاں وہیں کے وہیں بھلا دیں؟ ہم وہی رہیں جو داستان سننے اور دیکھنے سے پہلے تھے۔ ہم گھر کو لوٹیں تو زندگی کا وہ ورق اپنی کتاب ہستی سے حذف کر کے دہلیز پار کریں۔ یا ایسی سمارٹ الزائمر ہو جو روز کے روز ان کہانیوں کو یادداشت سے مٹا ڈالے۔

کیا کبھی کسی نے سوچا کہ حساس ڈاکٹر اپنے دامن میں کیا کچھ لیے پھرتا ہے، اپنی زندگی اور بہت سے دوسرے لوگوں کی زندگی۔ آخر میں سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس پوٹلی میں کونسا سامان اپنا ہے اور کونسا کسی دوسرے سے مستعار لیا گیا ہے۔

خبر ملی ہے “نیویارک کے ایک ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر لورنا برین نے اپنی جان لے لی”

اڑتالیس سالہ ڈاکٹر لورنا کئی ہفتوں سے کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑ رہی تھیں۔ اس دوران وہ خود بھی کورونا کا شکار ہوئیں اور صحت یاب ہو کے پھر سے کام پہ آ گئیں۔ لیکن چاروں طرف پھیلے موت کے کھیل کی دہشت سے نہ بچ سکیں اور زندگی ختم کر بیٹھیں۔

ان کے والد، جو خود بھی ڈاکٹر ہیں، کا کہنا ہے کہ میری بیٹی نے ان دنوں میں ان تھک کام کیا۔ وہ اور اس کے ساتھی اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد وہیں کہیں کچھ دیر کے لئے سو جاتے تھے۔ جب وہ خود بیمار ہوئیں تب بھی اپنے ساتھیوں اور مریضوں کی فکر تھی۔

“وہ زندگی سے بھرپور تھی، سالسا ڈانس اور کھیلوں کی شوقین تھی۔ کورونا نے اس کی ہنسی چھین لی، وہ بجھ سی گئی تھی۔ اس واقعے سے کچھ گھنٹے پہلے جب میری بات اس سے ہوئی تو میں نے محسوس کیا، وہ وہ نہیں تھی، کہیں کچھ ختم ہو چکا تھا”

امریکہ میں ابھی تک ساٹھ ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جن میں سے چوبیس ہزار کا تعکق نیویارک سے ہے۔ زندگی سے بھرپور شہر میں چوبیس ہزار لاشیں!

میں سوچتی ھوں، ان چوبیس ہزار میں سے کتنے ہزار افراد کو ڈاکٹر لورنا نے دیکھا ہو گا؟ کتنے ہزار افراد نے سانسوں کی تلاش میں بے بسی سے ڈاکٹر لورنا کی طرف دیکھا ہو گا؟ کتنے افراد کا ہاتھ لورنا نے بے بسی سے تھاما ہو گا؟ موت کو منڈلاتے دیکھ کے بھی جھوٹی امید دلائی ہو گی۔ بے بسی سے ادھر ادھر بھاگی ہو گی۔ جیسے تیز ہوا سے درختوں سے پتے جھڑتے ہیں اور ادھر ادھر پھیل جاتے ہیں شاید اسی طرح لاشیں اس کے ہر طرف بکھری ہوں گی۔ وہ سوچتی ہو گی، یہ تو بہار کا موسم تھا، شگوفے پھوٹنے کے دن تھے، موت کا عفریت اس برس کی بہار کو کیوں نگل گیا؟ دل گرفتگی میں وہ اپنے آپ سے کہتی ہوگی، نہ جانےکبھی بہار آئے گی بھی کہ نہیں ؟ آئی بھی تو یہ دنیا ویسی نہیں ہوگی۔

کون کہتا ہے کہ ڈاکٹر لورنا نے ستائیس اپریل کو زندگی ہاری؟ اس نے تو اسی دن آہستہ آہستہ زندگی کو خدا حافظ کہنا شروع کر دیا تھا جب اس کے ہاتھوں میں لوگ زندگی ہار رہے تھے۔

ایک ڈاکٹر کی زندگی میں سب سے مشکل مرحلہ کسی کے آخری سانس دیکھنا ہوتا ہے۔ موت اس کے ہاتھوں سے زندگی کو چھین کے لے جا رہی ہوتی ہے اور وہ بے بسی سے اپنے آنسو پینے کے سوا کچھ نہیں کر پاتا۔ ہر مرنے والا جاتے جاتے ڈاکٹر کے اندر کچھ خالی پن، کچھ اضطراب اور کچھ یادیں ضرور چھوڑ جاتا ہے۔

ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مختصر مدت میں ہزاروں افراد کی اپنے ہاتھوں میں موت دیکھ کے ڈاکٹر لورنا کے من کا دیا کیسے بجھا ہو گا؟

تیس برس ہو چلے، زندگی اور موت کا کھیل کھیلتے لیکن جب جب ہارے، وہ لمحات دل پہ آج بھی کندہ ہیں۔ وہ چہرے ابھی تک یاد ہیں، وہ ہمارے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور جب بھی ان کا جی چاہتا ہے، یادداشت کے پردے پر خاموشی سے اتر آتے ہیں۔

ہم نے پہلی موت طالب علمی کے زمانے میں دیکھی جب ایک چولہا پھٹنے سے بری طرح جلی نوبیاہتا کو ہم خون کا عطیہ دینے گئے تھے۔ بعد میں اماں سے خون دینے پہ بے بھاؤ کی پڑیں کہ ہمارے ہوسٹل کی غیر معیاری غذا اور ہماری پیلی رنگت انہیں تشویش میں مبتلا کرتی تھی۔ لیکن ہمارا خون اس قدر کم مایہ تھا کہ اس لڑکی کو نہ بچا سکا۔ وہ بھی بیس برس کی تھی اور ہم بھی، قدرت کی اس ستم ظریفی پہ ہم پہروں روئے۔

چولہا پھٹنے کی کہانیاں ہم نے بعد میں بھی بہت سنیں۔ یہ نہیں سمجھ سکے کہ چولہا پھٹنے سے گھر کی بہو ہی کیوں جل کر مرتی ہے، اور وہ بھی نوبیاہتا بہو۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ہم کبھی نہیں سمجھ سکے کہ بھائی یا باپ کے ہاتھ سے بندوق کا غلطی سے چل جانا تو قرین قیاس ہے، بندوق کے چیمبر میں غلطی سے رکھی گولی تاک کر اسی بہن یا بیٹی کا نشانہ کیوں لیتی ہے جو یا تو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی خواہش مند ہو یا ماں باپ کی مرضی سے شادی کرنے سے انکار کر رہی ہو!

ہاؤس جاب کے دوران حامد نامی نوجوان لڑکا کینسر سے لڑ رہا تھا۔ اس کی آخری سانسوں کے وقت ہم پاس موجود تھے۔ آخری لمحات کی آنکھوں کی بے بسی اور آنکھ کے گوشوں سے پھسلتے قطرے ابھی تک دل پہ گرتے ہیں۔

عائشہ نامی لڑکی اپنے ہونے والے بچے کے خواب دیکھتی تھی اور ممتا کے رنگ اسے مزید حسین بناتے تھے۔ آپریشن ٹیبل پہ خون بہت زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے زندگی ہار بیٹھی اور کتنے ہی دن ہم سو نہ سکے۔ سوچتے رہتے کہ آنے والا کیسا بدقسمت ٹھہرا کہ ماں کا لمس ہی نہ پا سکا۔ کاش ہم کہیں سے خون کی بوتلیں جمع کر پاتے، لوگوں میں یہ احساس بیدار کر پاتے کہ خون کے عطیے سے بھی جنت خریدی جا سکتی ہے۔

کیسے بھولیں عطیہ نامی تیس سالہ عورت کو جسے تین بیٹیوں کے بعد بیٹا ملا تھا۔ اس کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی تھی، اور وہ ناز و انداز سے شوہر کی طرف تکتی تھی۔ زچگی کے دوران ہونے والے جاں لیوا انفیکشن نے اس کے خون کو پانی سے زیادہ پتلا کر دیا تھا۔ خون رگوں سے باہر بہتا تھا۔ اپنے بچوں کو دیکھتی الوداعی آنکھوں کی حسرت بھلائے نہیں بھولتی۔ دل کے گھاؤ بڑھ جاتے ہیں!

کچھ ہی ہفتوں میں موت کا بے حساب اور بے رحم ناچ دیکھ کے تم کیسے زندہ رہ سکتی تھیں، ڈاکٹر لورنا!

تم تو ان سب کے ہمراہ قطرہ قطرہ پگھلیں، اب تو سانس کی ایک ڈور اٹکی تھی اور وہ تم نے کاٹ ڈالی!

Rest in peace!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments