انڈیا: تبلیغی جماعت کورونا پر لگے ’بدنامی‘ کے داغ مٹا کر نعمت ثابت ہونے لگی


تبلیغی جماعت

انڈیا کی معروف مذہبی تبلیغی جماعت کے درجنوں افراد کورونا کی وبا سے صحت یاب ہونے کے بعد اپنے خون کا پلازمہ عطیہ کرنے کے لیے سامنے آئے ہیں۔

انڈیا کے شہر دلی میں تبلیغی جماعت کے ایک بڑے اجتماع کے بعد ان میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی تھی۔ جس کے بعد اس جماعت کے کارکنوں کو ملک کے بہت سے حصوں میں کورونا پھیلانے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا تھا۔

دلی اور ملک کی دو دیگر ریاستوں میں پلازمہ تھراپی کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کا ابھی تک کوئی علاج یا ویکسین نہیں ہے۔ کورونا وائرس سے متعلق ویکسین پر انڈیا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں تحقیق جاری ہے۔

پلازمہ تھراپی کے متعلق اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ بہت حوصلہ افزا ہیں۔ دلی کے تین ہسپتالوں میں تبلیغی جماعت کے اراکین سے خون لیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ تقریباً ایک ماہ تک قرنطینہ میں رہنے کے بعد باہر آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’تبلیغی جماعت کا نام آیا تو افواہوں نے مسلم مخالف رنگ اختیار کر لیا‘

انڈیا میں تبلیغی جماعت کے سربراہ پر قتلِ کی دفعات کے تحت مقدمہ

انڈیا میں مذہب کی بنیاد پر کورونا کے مریضوں میں تفریق کی شکایات

دہلی میں تبلیغی اجتماع کے بعد کورونا کے متاثرین کی تلاش

انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والے فاروق باسا کا تعلق تبلیغی جماعت کے ان دس ارکان سے ہے جنھوں نے اتوار کو اپنے خون کے پلازمہ کا عطیہ کیا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ملک کے لوگوں کی مدد کرنے پر خوش ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’کورونا کی تشخیص ہونے کے بعد میڈیا نے ہماری شناخت کو نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہمارا (پلازمہ دینے کا) یہ قدم ہماری شناخت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو گا۔‘

نظام الدین

دلی کے علاقے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کا اجتماع ہوا تھا

تبلیغی جماعت پر الزام

دلی کے اجتماع کے بعد تبلیغی جماعت اور اس کے ارکان اس وقت سرخیوں میں آئے جب ان پر ملک بھر میں متعدد علاقوں میں کورونا پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ یہ اجتماع مارچ کے دوسرے اور تیسرے ہفتے کے دوران تبلیغی جماعت کے صدر دفتر دلی کے نظام الدین میں ہوا تھا۔

اس کے بعد سے ہی ان کے صدر دفتر کو سیل کر دیا گیا ہے۔

24 مارچ کو ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے اچانک اعلان کے بعد بہت سے لوگ وہاں پھنس گئے تھے جس میں تقریباً ڈھائی سو غیر ملکی شہری بھی شامل تھے۔ وہاں اکٹھا ہونے والے تبلیغی جماعت کے ارکان میں ایک ہزار سے زیادہ افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی تھی اور اس کے بعد انھیں قرنطینہ میں بھیجا گیا تھا۔

پولیس نے جماعت کے سربراہ محمد سعد کاندھلوی کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا ہے۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے ان پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ بھی درج کیا ہے۔ اہل خانہ اور مولانا سعد کے حامیوں کا خیال ہے کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات ’پولیس کی خام خیالی‘ ہے۔

میڈیا کے ایک حصے نے تبلیغی جماعت کے اراکین کو ’وائرس‘ اور ’کورونا وائرس پھیلانے والے‘ کے نام سے مخاطب کیا تھا۔

کورونا بینر

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟

کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟


انڈیا کے سوشل میڈیا پر ’کورونا جہادی‘ کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کرتا رہا اور بہت سے لوگوں نے تبلیغی جماعت پر دانستہ طور پر کورونا پھیلانے کا الزام عائد کرنا شروع کر دیا۔

لوگوں نے الزام لگایا کہ جماعت کے ارکان نے اجتماع میں جا کر جان بوجھ کر دوسروں میں انفیکشن پھیلایا۔ ان کا موازنہ خودکش بم سکواڈ سے کیا گیا۔ حکومت کی طرف سے کئی دن تک کورونا انفیکشن کی روزانہ تازہ ترین معلومات میں تبلیغیوں کے ذریعہ پھیلنے والے کورونا کے بارے میں الگ سے معلومات دی گئیں۔ اس کے بعد ملک کے بیشتر علاقوں سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

تبلیغ جماعت

تبلیغی جماعت ایک عالمی تنظیم ہے جس کی مغربی ممالک میں موجودگی ہے۔ یہ سنہ 1926 میں قائم کی گئی تھی۔ ان پر ہونے والے ان حملوں کے جواب میں متحدہ عرب امارات نے گذشتہ ہفتے سخت اعتراض کیا ہے۔ عرب ممالک کے بہت سے بااثر افراد نے سوشل میڈیا پر انڈیا میں سیکولرزم پر سوالات اٹھائے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹویٹ کر کے یکجہتی کی اپیل کی اور کہا کہ وائرس کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ جبکہ دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اتوار کو کورونا سے متعلق بریفنگ کے دوران اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

انڈیا کی تبلیغی جماعت کے اراکین کی جانب سے پلازمہ دینے کی خبر سے پہلے انھوں نے اس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’مجھے ایک خیال آیا کہ کل کوئی ہندو مریض مسلمان کے پلازمہ سے یا مسلمان مریض ہندو کے پلازمہ سے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ جب خدا نے دنیا بنائی تو اس نے صرف انسانوں کو ہی پیدا کیا۔ تمام انسانوں کی دو آنکھیں اور ایک جسم ہے۔ سب کا خون سرخ ہے۔ خدا نے انسانوں میں کوئی دیوار نہیں کھڑی کی ہے۔‘

اتوار کو انس سعید پہلے شخص تھے جو مولانا کی اپیل پر پلازمہ دینے گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’گذشتہ کچھ ہفتے ہمارے لیے مشکل سے بھرے رہے کیونکہ ہر شخص ہمیں کورونا پھیلانے کے لیے ذمہ دار ٹھہرا رہا تھا۔ اب ہمارا قرنطینہ مکمل ہو گیا ہے۔ مولانا نے پلازمہ عطیہ کرنے کی درخواست کی ہے لہذا ہم نے اسے دینے کا فیصلہ کیا کیا ہے۔‘

دوسری ریاستوں میں بھی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد خون کا پلازمہ دینے کے لیے سامنے آئے ہیں۔

نظام الدین

گذشتہ ماہ جماعت کے رکن برکت خلیل کو احمد آباد میں اپنے اہلخانہ کے آٹھ افراد سمیت کورونا وائرس سے متاثرہ پایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم میں سے چار اب مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ہیں اور ہم جلد ہی پلازمہ کا عطیہ کرنے جا رہے ہیں۔’

لیکن جماعت کے لوگوں کے ساتھ جس طرح سلوک کیا گیا ہے اس پر وہ رنجیدہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمارا معاشرہ سیاست کا شکار ہو گیا ہے۔‘

ڈاکٹر شعیب علی کا بھی تبلیغی جماعت سے گہرا تعلق ہے۔ انھیں دلی میں جماعت کے ارکان کو پلازمہ عطیہ کرنے کے لیے ترغیب دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ انھوں نے کہا کہ ’جو لوگ پچھلے مہینے کورونا مثبت پائے گئے تھے اور اب مکمل صحت یاب ہو چکے ہیں وہ سب پلازمہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگلے چند روز میں 300 سے 400 افراد دلی میں پلازمہ دیں گے۔‘

ڈاکٹر شعیب علی کا کہنا ہے کہ جماعت کے لوگ بحیثیت شہری اپنے فرائض پورے کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس اقدام کو ڈیمیج کنٹرول ماننے سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر گذشتہ ماہ تبلیغی جماعت کو بدنام نہیں کیا جاتا تو بھی یہ لوگ پلازمہ دینے کے لیے آگے آتے کیونکہ یہ لوگ خدا کا خوف رکھنے والے ہیں اور انھیں قربانی دینا بھی سکھایا گیا ہے۔‘

ڈاکٹر شعیب علی کا خیال ہے کہ پلازمہ دینے کے عمل کو مکمل ہونے میں کئی دن لگیں گے کیونکہ دہلی کے ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آٹھ سے دس افراد اتوار کو پلازمہ دینے آئے تھے جبکہ پیر کو 60 افراد نے اپنا پلازمہ دیا ہے اور دیگر بہت سارے افراد کا نام پلازمہ عطیہ کرنے والوں کی فہرست میں شامل تھا۔

دلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کورونا کے مریض پلازمہ تھراپی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔

پلازمہ

پلازمہ عطیہ کرنے کا عمل اور علاج

لکھنؤ کے سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر توصیف خان ملک میں پلازمہ عطیہ کرنے والے پہلے شخص ہیں۔ وہ مارچ میں کسی متاثرہ مریض کا علاج کرتے ہوئے اس انفیکشن کی زد میں آئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ جس مریض کو انھوں نے پلازمہ دیا ہے وہ صحت یاب ہو رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہم کورونا انفیکشن کے شدید بیمار مریضوں کا ہی پلازمہ تھراپی سے علاج کرتے ہیں۔ ایسے مریضوں کے جسم میں وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز تیار نہیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر ہے۔‘

پلازمہ دینے کے عمل کے بارے میں وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’یہ ایک آسان طریقہ ہے۔ کورونا مریضوں کو اس کے لیے دو بار کورونا منفی ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد انھیں 14 دن کے قرنطینہ میں بھیجا جاتا ہے۔ اگر وہ پلازمہ دینا چاہتے ہیں تو انھیں آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ کروانے کے لیے ہسپتال جانا پڑے گا۔ اگر نتیجہ منفی آتا ہے تو وہ پلازمہ دے سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ خون میں 55 فیصد پلازمہ ہوتا ہے اور اس کا نوے فیصد حصہ پانی ہوتا ہے۔ اس میں صرف دس فیصد اینٹی باڈیز ہوتا ہے۔ صرف صحت مند پلازمہ ہی کورونا سے متاثرہ مریضوں کو دیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم 500 ملی لیٹر پلازمہ نکالتے ہیں جس سے کم سے کم ایک مریض کو بچایا جاسکے۔’

انڈیا میں پلازمہ تھراپی ابھی آزمائشی مرحلے سے گزر رہی ہے جو دلی، اترپردیش اور کچھ دیگر ریاستوں میں جاری ہے۔ بہت سی انڈین ریاستوں میں حکومت اس تھراپی کے ذریعے علاج شروع کرنے کی اجازت حاصل کرنے کی منتظر ہے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ تبلیغی جماعت کے اراکین سے لیے جانے والے پلازمہ سے کتنے مریضوں کا علاج کیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پلازمہ کو ایک سال کے لیے منفی 30 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر اور منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر پانچ سال تک رکھا جا سکتا ہے۔ مستقبل میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی صورت میں اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp