افسوس ”جاہل سندھیوں“ نے لاٹ صاحب کو بیمار کر ڈالا
سندھ کے لاٹ صاحب عمران اسماعیل نے 27 اپریل کو اپنے ٹویٹر پر اعلان کیا تھا کہ ان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا ہے۔ آج ٹی وی کے مطابق انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اندرون سندھ کے لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ میرے دورے کے دوران وہ میرے بہت قریب آ گئے جس کی وجہ سے مجھے کرونا لگ گیا۔ (آج ٹی وی پر 28 اپریل کو ساڑھے آٹھ بجے چلنے والے ٹکرز کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ ”اندرون سندھ لوگوں کو اتنا ایجوکیٹ نہیں کیا گیا۔ اسی لیے وہ لوگ میرے بہت قریب آئے۔ اسی وجہ سے مجھے کرونا لگ گیا“)۔
انہوں نے کامران خان صاحب کو بتایا کہ ان کی ضعیف والدہ ان کے ساتھ افطار کر کے گئی تھیں، تو انہیں بخار اور جسم میں درد محسوس ہوا اور انہوں نے سٹاف کو کہہ کر ٹیسٹ کروایا تو وہ کرونا کا شکار نکلے۔
لاٹ صاحب کی یہ بات غور طلب ہے کہ اندرون سندھ کے لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں اس وجہ سے ان کے بہت قریب آ گئے، واقعی اگر وہ پڑھے لکھے ہوتے تو ان کے قریب بھی نا پھٹکتے۔ انہیں خود اتنی عقل ہوتی کہ پڑھے لکھے لوگ لاٹ صاحب اور ان کے ساتھیوں سے دور رہتے ہیں۔
ہم نے لاٹ صاحب کی ٹویٹر ٹائم لائن دیکھی ہے۔ وہ 27 اپریل کو کرونا میں پکڑے جانے سے قبل 22 کو جام شورو اور حیدر آباد میں احساس سینٹر گئے تھے تاکہ اپنے مبارک ہاتھوں سے ضرورت مندوں میں کیش تقسیم کریں۔ ہماری رائے میں تو یہ لاٹ صاحب کے سٹاف کی نا اہلی ہے۔ اسے علم ہونا چاہیے تھا کہ عموماً معاشرے کا اتنا غریب طبقہ اس قابل نہیں ہوتا کہ سکول جا سکے۔ سٹاف کو چاہیے تھا کہ انہیں جامشورو میڈیکل یونیورسٹی وغیرہ لے جاتا اور ادھر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ان سے پیسے تقسیم کرواتا، مگر وہ انہیں جہلا میں لے گیا۔
اس کے بعد ان جاہل لوگوں کی حرکتیں دیکھیں۔ چھوٹے سے کمرے میں لاٹ صاحب کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے اور ضد کرنے لگے کہ ان کے ہاتھوں سے ہی پیسے لیں گے۔ حالانکہ پہلے ہمیشہ وہ بے نظیر انکم سپورٹ سکیم کے تحت گھر بیٹھے اپنے اکاونٹ میں پیسے وصول کرتے رہے ہیں لیکن اپنی جہالت کے سبب ضد کرنے لگے کہ ہم تو ہجوم جمع کر کے وہاں لاٹ صاحب کے ہاتھوں سے پیسے پکڑیں لگے۔ ہم نے نوٹ کیا ہے کہ ان جہلا نے ماسک بھی نہیں پہنا ہوا ہے۔ بلکہ انہوں نے تو لاٹ صاحب کے سرکاری افسران کے منہ سے بھی ماسک اتروا رکھا ہے۔
ایک جاہل بڑھیا بھی دکھائی دی۔ اس نے نا صرف لاٹ صاحب کو کھینچ کر کراچی سے حیدر آباد تک بلا لیا بلکہ انہیں مجبور کیا کہ وہ جھک کر اپنا منہ اس کے چہرے سے محض ایک ڈیڑھ فٹ دور لے آئیں اور اس فاصلے سے اس سے بات کریں۔
اس تمام دورے کے دوران لاٹ صاحب نے عام سرجیکل ماسک پہن رکھا تھا۔ اس ماسک کا کمال یہ ہے کہ اگر اسے کرونا کے مریض نے پہن رکھا ہو تو اس صورت میں اس مریض سے صحت مند شخص کو بیماری لگنے کا امکان صرف پانچ فیصد ہوتا ہے، لیکن اگر مریض نے ماسک نا پہن رکھا ہو اور صحت مند شخص نے پہنا ہو تو بیماری لگنے کا امکان ستر فیصد ہوتا ہے۔
اس جاہل بڑھیا اور دیگر جاہل افراد کو خود اس بات کی سمجھ ہونی چاہیے تھی کہ انہوں نے ماسک نہیں پہنا، لاٹ صاحب نے پہنا ہوا ہے تو انہیں وائرس لگنے کا ستر فیصد امکان ہے۔ انہیں خود سمجھ ہونی چاہیے تھی کہ وہ میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم نہیں کر پائے، انہوں نے ایم بی بی ایس نہیں کیا ہوا، تو انہیں لاٹ صاحب سے غریبوں کے احساس پروگرام کے پیسے وصول کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔
بہرحال ان جاہل سندھیوں کی ایسی ہی حماقتوں کی وجہ سے ہمارے لاٹ صاحب کو کرونا وائرس لگ گیا۔ ہم افسوس ہی کر سکتے ہیں کہ اندرون سندھ کے لوگ کتنے زیادہ جاہل ہیں جن میں ہمارے پڑھے لکھے لاٹ صاحب پھنس گئے۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).