کورونا وائرس: ‘مجھ سے یہ فرمائش کی گئی کہ کورونا وارڈ کے اندر سے لائیو کر دیں’


پاکستان کا شمار ان ممالک کی فہرست میں کیا جانے لگا ہے جہاں ان صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جنھیں کووڈ-19 کا مرض لاحق ہو گیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 40 سے زائد صحافیوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی جبکہ کئی صحافی اپنی رپورٹ کے منتظر ہیں۔

اس بارے میں بی بی سی نے پاکستان کے چند نجی چینلز سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سے کورونا وائرس پر رپورٹنگ کے دوران تجربات اور رائے جاننے کی کوشش کی۔

یا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے

 

‘مجھے میسج آیا کہ آپ کی کورونا رپورٹ مثبت آئی ہے’

میڈیا میں جب کورونا کے مریض رپورٹ ہونا شروع ہوئے تو محکمہ صحت نے کہا کہ ہم سب صحافیوں اور آفس کے عملے کے ٹیسٹ کریں گے۔ چند روز قبل میرا بھی سمپیل لیا گیا۔ سیمپل لینے کے ایک دو دن بعد میں رپوٹنگ کر رہا تھا تو مجھے میسج آیا کہ آپ کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔

اس وقت میں بے حد پریشان ہوگیا۔ میں نے قریب میں واقع ایک نجی لیبارٹری گیا اور میں نے اپنی تسلی کے لیے وہاں دوبارہ ٹیسٹ کے لیے اپنا سیمپل دے دیا۔

اسی دوران میری والدہ کی کال آ گئی جنھوں نے بتایا کہ گھر آجاؤ محکمہ صحت والے آئے ہوئے ہیں تمھیں لے جانے کے لیے۔ جب میں گھر پہنچا تو میرے گھر کے باہر محکمہ صحت کے کچھ لوگ کھڑے تھے اور ایمبولینس والا مسلسل ہوٹر بجائے جا رہا تھا۔ میں پہلے تو اسے کہا کہ یہ سائرن تو بند کریں آپ کیوں پورے محلے کو تنگ کر رہے ہیں۔ بہرحال، میں نے اپنا سامان لیا اور انھوں نے مجھے پی کے ایل آئی ہسپتال میں شفٹ کر دیا۔

ہسپتال میں مجھ سے پوچھا گیا کہ کہ آپ کو کورونا کہاں سے لگا؟ میں نے کہا مجھے کیا پتا کہاں سے لگا۔ پھر اس نے کچھ مزید معلومات لی اور وہ چلا گیا۔ 12 گھنٹے بعد مجھے نجی لیبارٹری کی رپورٹ موصول ہوئی جس میں لکھا تھا کہ میرے سیمپل میں کورونا وائرس نہیں ہے۔

جب میں نے ہسپتال انتظامیہ کو بتایا کہ تو انھوں نے کچھ دیر بعد میرا سیمپل دوبارہ لیا اور اس کی رپورٹ بھی منفی تھی۔ میں اسی وقت سیکریٹری ہیلتھ پنجاب کو فون کیا تو انھوں نے مجھے کہا کہ ایسا ہوتا تو نہیں ہے پتا نہیں یہ کیسے ہوا ہے۔

میں ان سے کہا کہ مجھے آپ نے تین دن کورونا وارڈ میں رکھا ہے اگر مجھے نہیں بھی ہونا تھا تو اب یقیناً ہو گیا ہو گیا۔ اوپر سے میرے گھر اور محلے میں تماشہ الگ لگایا۔ اس سے بہتر تھا کہ مجھے میرے گھر پر ہی آئسولیٹ کر دیتے۔ دو ٹیسٹ منفی آنے کے بعد مجھے انھوں نے گھر بھیج دیا اور اب میں پچھلے چھ دن سے اپنے گھر میں ہی آئسولیٹ ہوں۔’

پاکستان

‘میں اب بھی کورونا کے باعث سیل کیے جانے والے علاقوں سے رپورٹ کرتی ہوں’

بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے ایک نجی چینل کی رپورٹر نے بتایا کہ ہم روزانہ آٹھ سے دس گھنٹوں کی ڈیوٹی کرتے ہیں۔ جس میں تقریباً پانچ سے چھ گھنٹے ہمارے آفس سے باہر ہی گزرتے ہیں۔ صحت کے شعبے پر رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے مجھ پر آج کل کام کا دباؤ کافی زیادہ بڑھ گیا ہے۔

اس رپورٹر کا کہنا تھا کہ انھیں نیوز ڈیسک سے روزانہ روزانہ ‘عجیب و غریب فرمائشیں آتی ہیں۔’

انھوں نے بتایا کہ جس سے کورونا پھیلا ہے تب سے لے کر اب آفس کی طرف سے عملے کو کسی قسم کی حفاظتی کٹس نہیں دی گئی ہیں۔

‘مجھے یاد ہے کہ جب کورونا شروع ہوا تھا تو مجھےزبردستی لاہور کے میؤ ہستال بھیجا گیا کہ جا کر آیسولیشن وارڈ سے براہ راست خبریں نشر کریں جو کہ میں نے کی۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘پہلے تو یہ صورتحال تھی کہ پاکستان میں کورونا کے بارے میں لوگوں کو اور ہمیں بھی اتنا زیادہ پتا نہیں تھا۔ لیکن اب جب سب کو معلوم ہے اور اس وائرس کی سنگینی کا بھی علم ہے اس کے باوجود بھی ہمارے آفس کے لوگ مجھے اور باقی صحافیوں کو روزانہ کی بنیاد پر رش میں رپورٹنگ کے لیے بھجتے ہیں۔’

انکا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے چینل کو کئی بار درخواست کی کہ ایسے مت بھیجا کریں تو جواب ملتا ہے کہ پلیز کردیں دیکھیں نوکری بھی تو کرنی ہے۔ ‘ابھی دو روز پہلے ہی میں ایک سیل کیے گئے علاقے سے رپورٹنگ کرکے آئی ہوں’

انھوں نے بتایا کہ ان کی دفتر میں جب چند لوگ کورونا وائرس کا شکار ہونے لگے تو یہ کہا گیا کہ اب شفٹوں میں کام ہوگا۔

‘جب یہ سلسہ شروع ہوا تو ہمیں بتایا گیا کہ تین دن دفتر اور تین دن گھر سے کام ہوگا۔ ایک ہفتے تک تو یہی معمول رہا پھر اس کے بعد وہی سب دوبارہ شروع ہو گیا اور اب ہم چھ دن ہی دفتر جا رہے ہیں۔’

پاکستان

‘مجھے روزانہ صبح صبح میسج آتا تھا کہ آج ہسپتال سے رپورٹ کریں’

میں شروع سے ہی بطور ہیلتھ رپورٹر کام کر رہی ہوں اور جس وقت سے کورونا شروع ہوا تھا تو میں مجھے روزانہ آفس سے پیغام آتا تھا کہ ہسپتال سے رپورٹ کر دیں۔ م

یری کورونا کے بارے میں ڈاکٹرز اور ماہرین صحت سے اکثر بات چیت ہوتی تھی اس لیے مجھے اس وائرس کی سنگینی کا اندازہ ہے۔ میں نے شروع دن سے ہی کام کے لیے اپنی ذاتی گاڑی کا استعمال کیا۔

اور جب بھی آفس والے اسی فرمائش کرتے تھے تو میں صاف جواب دے دیتی تھی کہ بیشک نوکری سے نکال دو لیکن میں اپنی ہسپتال کے اندر جا کر رپورٹ نہیں کروں گی جس کی وجہ سے میں ابھی تک محفوظ ہوں۔

صحافيوں کی حفاظت پر بین الااقومی تنظمیوں کے تحفظات

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ موجودہ بحران کے دوران عوام کو آگاہ کرنے میں صحافیوں کا کردار بہت اہم ہے اور صحافیوں کے کام کی وجہ سے ہی ہم بہت ہی جانیں بچا سکتے ہیں۔

صحافیوں کی زندگی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا تمام ملکوں کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے اس لیے کسی بھی صحافی کو رپورٹنگ پر بھیجنے سے پہلے اس بات ہو یقینی بنایا جائے کہ انھیں تمام حفاظتی سامان دیا جائے۔

اس کے علاوہ صحافتی تنظیمیں رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) اور فریڈم نیٹ ورک پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں انھوں نے پاکستان میں کورونا وائرس کے پاکستانی صحافیوں میں تیزی سے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے بہت سے ایسے میڈیا آفسز ہیں جہاں کورونا وائرس بڑی تعداد میں صحافیوں میں پایا گیا ہے جو ایک خطرناک بات ہے۔

پاکستان

آر ایس ایف اور فریڈم نیٹ ورک پاکستان نے صحافتی تنظیمیوں کے لیے 15 سفارشات مرتب کیں ہیں جو درجہ دیل ہیں تاکہ وہ اپنے صحافیوں کو کورونا وائرس کے خطرے میں ڈالنے سے بچا سکیں۔

1.ان مقامات پر نامہ نگار مت بھیجیں جہاں ایک بڑے ہجوم کی توقع ہے۔

2.بازاروں یا دیگر ہجوم والی جگہوں سے براہ راست کھڑے ہونے کا مطالبہ نہ کریں۔

3.کیمرا مین اور ڈی ایس این جی ٹیکنیشنوں کو کام مکمل کرنے کے بعد جلد از جلد اپنی گاڑی میں دوبارہ داخل ہونے کی ترغیب دیں اور یہ یقینی بنائیں کہ وہ اپنے ساتھ پانی ، صابن اور ہینڈ سینٹائزر لے کر جائیں۔

4.نیوز رومز میں، عملے کو سماجی فاصلے پر سختی سے عمل کرنے کی ترغیب دیں اور ہر گھنٹے بعد اپنے ہاتھ اور چہرہ دھوتے رہیں۔

5.ملازمین کو کمپیوٹر اور استعمال کا دیگر سامان صاف رکھنے کا کہیں۔

6.غیر ضروری پریس کانفرنس کے لیے نامہ نگاروں کو بھیجنے سے گریز کریں

7.عہدیداروں جیسے وزیر صحت ، وزرائے اعلیٰ اور حکومتی ترجمان شامل ہیں انھیں بذریعہ ویڈیو پیغامات اور ویڈیو پریس کانفرنس کرنے پر زور دیں۔

8.اس بات کو یقینی بنائیں کہ ٹی وی سٹوڈیو میں آنے والے مہمانوں کے درجہ حرارت ہمیشہ تھرمل سکینر کے ساتھ چیک کیا جائے ، اور ان سے ہینڈ سینیٹائزر استعمال کرنے کو کہا جائے۔

9.نامہ نگاروں اور کیمرا مینوں کو ہسپتالوں کے اندر سے براہ راست رپورٹنگ کرنے کے لیے نہ کہیں اور طبی عملے کی سفارشات پر عمل کرنے کو کہیں۔

  1. یا تو کینٹین اور کیفیٹیریا تو فی الحال بند کر دیں یا پھر لوگوں کو سختی سے محدود کرتے ہوئے سماجی فاصلے کو یقینی بنائیں۔

11.اس بات کو یقینی بنائیں کہ کچن صاف رکھے جائیں اور عملہ حفظان صحت کے قواعد پر عمل کرے۔

12.تمام ملازمین کو خصوصی ‘کورونا لائف انشورنس’ مہیا کریں اور اگر کسی ملازم یا اس کے فیملی ممبر کا کورونا ٹیسٹ مثبت آجائے تو ان کے علاج کے اخراجات اٹھائے جائیں۔

13.اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملازمین کی تمام بیماریوں سے متعلق بیمہ کی فراہمی فوری طور پر نافذ کی جائے۔

14.پریس کلبوں اور یونینوں کو صحافیوں اور ملازمین کے لیے حفاظتی فنڈ قائم کرنا چاہئے ، جس میں ماہانہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ کمانے والے صحافیوں کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔

  1. مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو میڈیا خصوصی کریڈٹ دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے ملازمین کی ادائیگی جاری رکھ سکیں اور کسی بھی غیر معمولی اخراجات کو پورا کرسکیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp