کورونا، مسلمان اور ہندوستان


یو ں تو ابتدا ہی سے ہندوستان کے مسلمان ظلم کا شکار رہے ہیں مگر اس میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب مودی نے حکومت سنبھالی۔

گجرات میں مسلمانوں کے بدترین قتل عام میں جو اس ظالم کا کردار رہا سب کو معلوم ہے۔

اس بار مودی نے نہایت عیاری سے مسلمان مخالف قانون سازی کرکے این آر سی اور سی اے اے کے ذریعے مستقل طور پر مسلمانوں کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں اب ان کو اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی اور دوسری صورت میں بے دخل ہونا پڑے گا۔ یہی مکروہ سازش کشمیر کے معاملے پر بھی کی گئی اور اس کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے وہاں غیر مسلموں کی آبادکاری کو قانونی جواز فراہم کر دیا گیا۔

اس عالمی وبا کے آغاز کے ساتھ ہی وہاں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مذموم مہم چل پڑی۔طسب سے پہلے تو تبلیغی جماعت اس کا نشانہ بنی دراصل تبلیغی جماعت تو ایک بہانہ تھا اور مسلمان اس کا نشانہ تھا۔

صدرالدین اویسی نے جب ایک قانون لانے کا مطالبہ کیا کہ جو ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستانی کہے ان کو سزا دی جائے تو بی جے پی ایک نہایت متعصب ممبر پارلیمنٹ ونے کٹیار نے یہ بیان دیا کہ ”مسلمانوں کو تو ہندوستان میں رہنا ہی نہیں چاہیے انہیں پاکستان یا بنگلہ دیش چلا جانا چاہیے“ موصوف اس معاملے پر کیوں لب کشائی نہیں کرتے کہ جن مسلم اکثریتی علاقوں کو ہندوستان میں جبراً شامل کیا گیا ان کو بھی واپس پاکستان یا بنگلہ دیش کو واپس کر دینا چاہیے۔ جیسے آسام بنگلہ دیش کو اور گورداسپور، فیروز پور اور کشمیر پاکستان کو دے دینا چاہیے۔

ساتھ ہی پچانوے فی صد مسلم اکثریت والے جزائر لکش دیپ کو مالدیپ کے حوالے کر دینا چاہیے۔

ہندوستان کے مسلمانوں کو ابتدا ہی سے قیادت کے فقدان کا مسئلہ درپیش رہا ہے، ۔ اویسی صاحب بہت جارحانہ ضرور ہیں مگر پاکستان سے وہ بھی ضرورت سے زیادہ ہی دور بھاگتے دکھائی دیتے ہیں ان کے ایک جلسے میں کسی غیر مسلم نے جب پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تو وہ از حد گھبراہٹ میں دوڑتے ہوئے اسے روکنے پلٹے۔ اسی طرح انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کے خلاف بھی تضحیک کی حد تک الفاظ استعمال کیے مگر یہ سب کے باوجود بھی وہاں کے مسلمانوں کی وفاداری ہندو اکثریت کے سامنے مشکوک ہی رہتی ہے۔

سکھ برادری کا تعداد کے لحاظ سے مسلمانوں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں مگر آبادی کے تناسب کے برخلاف وہ ہر سرکاری محکمے میں کافی تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔ سچر کمیٹی کی سفارشات ابھی تک عملدرآمد کی راہ تک رہی ہیں۔

ہندوستان کی معروف کھلاڑی ببیتا پھاگوٹ نے تبلیغی جماعت کو ناروا طور پر ہندوستان میں کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ مسلمان ریڑھی والوں کو مختلف علاقوں میں داخلے سے روکا جا رہا ہے۔

اگر ہندوستان اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے حقوق ادا نہیں کرسکتا تو خود کو سیکولر کہنا چھوڑ دے۔

حال ہی میں ایمینسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی مسلمانوں کو کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دینے کو غلط اور گمراہ کن قرار دیا ہے اسی طرح امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے سال دوہزار انیس میں بھارت کو پہلی بار اقلیتوں کے لیے خطرناک ممالک قرار دیا ہے اور بھارتی حکام پر پابندی کی بھی شفارش کی ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارت کی اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے امتیازی سلوک کے خلاف مسلم امہ سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔

ملائشیا کے ہر دل عزیز راہ نما مہاتیر محمد نے جب اس امتیازی سلوک کا معاملہ اٹھایا تو ہندوستان نے وہاں سے پام آئل کی درآمدات پر پابندی لگا دی اسی طرح ایران کی جانب سے کشمیر کے معاملے پر بیان سے بھی ہندوستان بہت سیخ پا ہوا تھا۔ اسلام دشمنی کا معاملہ اب بہت بڑھ چکا ہے معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر ناجائز الزامات، مسلم کش فسادات، کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی، وہاں متعصب ہندوؤں کی آباد کاری، بابری مسجد کا غیر منصفانہ فیصلہ، اور مسلم شناخت والے شہروں اور قصبوں کے ناموں کی تبدیلی وہاں کی متعصب حکومت کی مسلم دشمن پالیسیوں کے ٹھوس شواہد ہیں۔

اس بارے میں تمام مسلم ممالک کو اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر ایک مستقل پالیسی بنانا ضروری ہو گیا ہے۔ تاکہ کسی بھی ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بلاوجہ امتیازی کارروائی نہ ہوسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments