کہاں ہے ڈیجیٹل پاکستان؟


دسمبر 2019 میں پاکستان کو تانیہ ادروس کی خدمات میسر ہوئیں۔ وہ اس سے پہلے گوگل کے ساتھ کام کر رہیں تھیں۔ وزیراعظم کے ڈیجیٹل پاکستان کے ویژن سے متاثر ہو کر گوگل کو خیرباد کہہ کر پاکستان کی خدمت کرنے کی ٹھان لی۔ میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی ملی اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے اور کچھ عرصہ میں ہمارا ملک ڈیجیٹل دنیا کو لیڈ کر رہا ہوگا۔

کچھ ہی دنوں بعد ایک عالمی وبا رونما ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا اس وبا نے پوری دنیا کو مفلوج کر دیا۔ روایتی انداز کے تمام کاروبار بند ہوئے تعلیمی ادارے، بازار حتی کہ عبادت خانے بھی بند کرنے پڑے۔ اس وبا نے دنیا کو معاشرتی زندگی کو فعال رکھنے کے لئے روایتی انداز کے برعکس نئے زاویے سے زندگی گزارنے کے طریقوں پر سوچنے پر مجبور کیا۔ جہاں سماجی دوری اس وبا سے بچنے کی واحد دوا ٹھہری وہیں ہمیں سماجی طور پر جڑے رہنے کی تلقین بھی کی گئی تاکہ لوگ اس وبا سے لڑتے لڑتے تنہائی کا شکار نہ ہو جائیں۔

پوری دنیا نے اپنے حکومتی اور انتظامی معاملات سے لے کر صحت عامہ کے امور تک ہر شعبہ کو ڈیجیٹل کر دیا اور ان سہولیات تک لوگوں کی رسائی کو آسان بنا دیا۔ متعدد ریستوران نے آن لائن ڈلیوری کے ذریعے لوگوں تک کھانے پینے کی اشیا بہم پہنچائی اور اس وبا سے سیکھتے ہوئے اب ان ریستوران کی ڈلیوری کونٹیکٹ لیس تک کی منازل طے کر چکی ہے۔ یہی حال آن لائن خریداری کا ہے دنیا بھر کے لوگوں نے روایتی خریداری کو ترک کر کے آن لائن خریداری کو اپنایا۔ اس سے دوہرا فائدہ دیکھنے کو ملا، لوگوں کی ضرورت پوری ہوئی اور کاروبار بھی بند ہونے سے بچ گیا۔ بہت سے ممالک معیشت کو بھی ڈیجیٹل سسٹم میں لے آئے اور اس وبا سے ہونے والے معاشی نقصان کو کم سے کم سطح پر لے آئے۔

پاکستان کا معاملہ پوری دنیا سے مختلف بلکہ متضاد ہے۔ جہاں پوری دنیا نے ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر اس عالمی وبا سے اپنی جنگی حکمت عملی کو مضبوط بنایا، وہیں ہم نے اس وبا سے جنگ کے دوران ٹیکنالوجی کا استعمال ترک کرنا بہتر سمجھا۔ اس امر کی مثال احساس پروگرام کے تحت تقسیم کی جانے والی رقم کے طریقہ کار میں تبدیلی ہے۔ پہلے یہی رقم مستحق لوگوں کو بینک اور یو بی ایل اومنی کے ذریعے بھیجی جاتی تھی۔ مستحقین اپنی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی وقت اے۔ ٹی۔ ایم مشین سے رقم نکلوا سکتے تھے۔ نجانے ثانیہ نشتر صاحبہ کو یہ مشورہ کس نے دیا اور وزیراعظم نے کیسے منظوری دی کہ ڈبلیو۔ ایچ۔ او کی ہدایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے احساس پروگرام کی رقم دستی طریقے سے تقسیم کی جائے گی۔

شاید اس امر کے پیچھے چھپی منطق یہ ہو کہ اس سے حکومتی جماعت کو سیاسی فائدہ ہوگا لیکن کسی نے اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ اس عمل کی وجہ سے ہونے والا نقصان اس سیاسی فائدہ سے کئی گنا زیادہ اور تکلیف دہ ہو گا۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ احساس پروگرام کے تحت رقم کی تقسیم کے وقت اکثر مراکز پر سماجی فاصلہ نامی کوئی تکلف نظر نہیں آیا بلکہ مراکز پر موجود عملہ جن میں اساتذہ اور پٹواری شامل ہیں ان کو بھی مناسب حفاظتی سامان مہیا نہیں کیا گیا۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ تمام حکومتی ممبران بھی ان مراکز پر فوٹو سیشن کے لئے پہنچ جاتے ہیں اور ان میں سے بیشتر ماسک پہننے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ حالانکہ سیاستدانوں کا مراکز کا دورہ کرنا غیر ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ الٹا نقصان دہ بھی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال گورنر سندھ کی ہے جو بد قسمتی سے ایسے ہی مراکز کے دوروں کے دوران کرونا کا شکار ہو گئے ہیں اور نجانے کتنے اور لوگ ان سے ملنے کی وجہ سے کرونا کا شکار ہوں گے۔

سننے میں آیا ہے کہ گورنر سندھ کے بقول سندھ کے ان پڑھ عوام کی وجہ سے وہ کرونا کا شکار ہوئے ہیں۔ گورنر صاحب کو کوئی بتائے ان پڑھ عوام نہیں بلکہ ہم لوگ ہیں جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنی اور عوام کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر بھی اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ اللہ تعالی گورنر سندھ سمیت ہر مریض کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور حکومت کو مسئلے کی سنگینی سمجھنے اور اس سے نمٹنے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments