وزارت اطلاعات میں نئے چہرے


وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کرسی اُور اختیار کب کہاں اُور کیسے کسی سے چھن جائے یا مل جائے۔ یہ یک ایسا راز ہے جس کاصرف اللہ کی ذات کو علم ہے۔ عمران خان کی بائیس سال کی جدوجہد کی کامیابی میں مسلسل آگے بڑھنے کا جنون اُور وقت کے مطابق صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت کا بڑا عمل دخل نظر آتا ہے۔ ایک کھلنڈرا نوجوان جس کو شہرت بھی ایسی ملی کہ جس کا ہر بندہ خواب دیکھے۔ جو چاہا، وہ پالیا، جسے چاہا، اپنا بنا لیا۔ کامیابی کی دیوی پیچھے پیچھے اُور خان آگے آگے۔

پھر وقت بدلا اُور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ طبیعت میں ٹھہراؤ آنے لگا تو پتا چلا کہ جن لوگوں نے اُس کو بے پناہ عزت اُور پیار دیا اُن کا بھی حق ہے کہ بدلے میں وہ بھی پیار پائیں۔ تب عمران خان نے لمبی اننگز کا ارادہ کیا اُور میدان میں اُتر پڑا۔ در در جا کر دستک دی، گلی گلی صدائیں لگائیں اُورحاکم وقت سے عام آدمی کے مفاد کی خاطر درخواستیں کیں اُور منظوریاں لیں۔ بس پھر کیا تھا یہ سفر چلتا رہا یہاں تک کہ اس قوم کے نصیب بدلنے کا الہامی فیصلہ آگیا۔

وزیر اعظم بننے کے بعد سے ہر لمحہ اپنے لوگوں کا درد محسوس کرنے والا یہ شخص نہ توخود آرام کرتا ہے اُور نہ ہی اپنی ٹیم کو آرام کرنے دیتا ہے۔ دیانت کا داعی اُور کرپشن کا دشمن، ہر دم اپنی صفوں میں بھی بہتر تبدیلی کا خواہاں نظر آتا ہے۔ جب محسوس کیا کہ اب کھلاڑی کی ذمہ داری کو تبدیل کرنا ہے یاکھلاڑی تبدیل کرنا ہے، کھلے دل سے اُور بغیر سیاسی دباؤ کے، سیاسی پنڈتوں کی باتوں سے گھبرائے بغیر اُور اپوزیشن کی نشتر بازی سے پریشان ہوئے بغیر وہ اپنے ملک اُور عوام کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔

تازہ فیصلہ کچھ یوں ہے کہ محترمہ فردوس عاشق اعوان کو اُن کی ذمہ داری سے ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا ہے اُور نئی تقرری کے لیے مایہ ناز شاعر احمد فراز کے بیٹے اُور سینٹ میں قائد ایوان شبلی فراز کو وزیر اطلاعات اُور جنرل (ر) عاصم باجوہ کو معاون خصوصی اطلاعات کے لیے چُنا گیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سبکدوش ہونے والی فردوس عاشق اعوان نے اپنی ذمہ داری کو ایک مخصوص عرصے تک اچھے طریقے سے نبھایا۔ اُن کی طرف سے ہمیشہ اپوزیشن کو کرارا جواب ملتا، حکومتی موقف کو بھی اچھے انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا، میڈیا سے بھی اُن کے تعلقات اچھے تھے۔

البتہ ناقدین نے اُن کی اقتدار سے علیحدگی کی وجہ بعض جگہوں سے مالی فائدے اُٹھانا اُور چند خلاف ضابطہ تقرریاں قرار دیا ہے۔ اب یہ بات تو اللہ جانے کیا سچ ہے اُور کیا جھوٹ، مگر ہمیں اصل کہانی چند دن تک ضرور واضح ہو جائے گی۔ جہاں تک نئی ذمہ داریاں لینے والے لوگوں کا تعلق ہے محترم شبلی فراز ایک ٹھنڈے مزاج کے دھیمے سے انسان ہیں جو روایتی انداز میں رکھ رکھاؤ کے ساتھ گفتگو کا ملکہ رکھتے ہیں۔ سمجھدار اُور پڑھے لکھے رُکن سینٹ سمجھے جاتے ہیں۔

اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں میں اُن کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب جنرل (ر) عاصم باجوہ اس وقت سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، انہیں پچھلے سال نومبر میں چار سال کے لیے اس عہدے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ماضی میں وہ پاک افواج کے ترجمان کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریاں نہایت کامیابی سے نبھا چکے ہیں۔ وہ ماضی میں ایک پیشہ ور فوجی ترجمان کے طور پر پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منو ا چکے ہیں۔

اگر تبدیلیوں کی بات کریں تو سیاسی مبصرین ابھی مزید تبدیلیوں کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔ ان آنے والی تبدیلیوں کے لیے ہمیں کتنا انتظار کرنا ہو گا اُور ان تبدیلیوں پر کس کس کے خواب پُورے ہوں گے اُور کن کے ارمانوں پر پانی پھرے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر ایک بات صاف ہے کہ اب صرف وہی اقتدار کے پنگھوڑے پر سوار رہے گا جو عمران خان کے مشن کے مطابق کام کرے گا۔ کرپٹ لوگوں کی ایک لمبی فہرست بمعہ ثبوت بہت جلد عوام کے سامنے آنے والی ہے۔

اس فہرست میں اپوزیشن کے رہنماء تو ہوں گے ہی مگرپی ٹی آئی کے لوگ بھی شامل ہیں۔ کوئی تعلق، رشتہ داری یا قریبی رفاقت کسی کے کام نہ آئے گی، انصاف کا ترازو سب کے لیے ایک سا ہوگا۔ پاکستانی سیاسی تاریخ میں بہت کچھ پہلی بار ہو رہا ہے جس میں کرپٹ لوگوں کا جیلوں میں جانا کرپشن کی رپورٹوں کا پبلک ہونا، کرپشن کے خلاف موثر قانون سازی اُور یقینی عمل درآمد اُورسابق ڈی جی آئی ایس پی آر کا سیاسی حکومت میں باقاعدہ شمولیت بھی شامل ہے۔

یہ اقدام شاید اس لیے اُٹھایا گیا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو عالمی دنیا میں اپنے تشخص کو اُبھارنے اُور موقف کی پذیرائی کے لیے ایک مضبوط اُور تربیت یافتہ چہرے کی ضرورت محسوس کی گئی ہوچنانچہ قرعہ فال محترم عاصم باجوہ صاحب کا نکل آیا۔ یہ قدم سیاسی حکومت اُور افواج پاکستان کے مضبوط رشتے اُور عمدہ تال میل کو بھی ظاہر کرتا ہے جو یقیناً پاکستان کے مستقبل اُور ترقی کے لیے ایک خوش آئند بات ہوگی۔

اس مادیت پسندی اُور ریا کاری کے دُور میں اگرچہ ہماری سیاسی قیادت نے اپنے لوگوں کو ہر طریقے سے لوٹا ہے اُور اس لوٹ مار کے نتیجے میں آج پاکستان کا کوئی بھی ادارہ کرپشن، اقرباء پروری اُورسفارش سے پاک نہیں وہاں افوج پاکستان ہی واحد ادارہ ہ بچتا ہے جس پر عوام الناس کا ابھی تک اعتماد برقرار ہے اُورساری پاکستانی قوم اپنی افواج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ لہذا عوام کی اکثریت وزیر اعظم کے اس اعلان سے متفق ہے اُور اُمید کرتی ہے کہ پاکستان جلد عالمی دنیا میں ایک اُونچا مقام حاصل کر لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments