دھند نےکر دیا اندھا یا آنکھیں کھول دیں؟


\"ali

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جب تک پنجاب اور وہ بھی لاہور پر نہ پڑے مصیبت کسی کو نظر ہی نہیں آتی۔ لاہور میں دھندکے چھا جانے کے بعد ایک بحث چھڑ گئی ہے وگرنہ کوئٹہ میں چند سال پہلے اس طرح کی دھند کافی عرصے تک چھائی رہی جس کی وجہ سے جہازوں کی آمدورفت بھی معطل رہی لیکن مملکت خدا داد میں کسی کو شاید ہی معلوم ہوا ہو۔ بلوچستان میں خشک سالی میں سارے درخت کٹ گئے، باغ اجڑ گئے، مویشی ہلاک ہوگئے، لوگ غریب ہوگئے، اپنے سروں پر پانی اٹھا لا لا کر عورتوں کے بال جھڑ گئے مگر ہمیں پتہ ہی نہ چلا کیونکہ ہمیں بند بوتلوں میں پانی کی دستیابی میں کمی نہیں آئی تھی۔ اب سب کو لاہور کے کٹے درخت بھی یاد آگئے اور شہر کے نواح میں کم ہوتا سبزہ بھی۔ اربوں روپے سے بنی سڑکیں بے کار لگیں جب ان پر سفر کرنا دشوار ہوگیا۔ اس دھند کے چھا جانے کی وجوہات بھی پاکستان پر پڑنے والے ہر مصیبت کی وجہ بننے والے ہندوستان کی کوئلے سے چلنے والے صنعتی یونٹوں میں ڈھونڈا گیا۔ ہم اس بحث اور مباحثے میں بہت سی باتوں سے اختلاف رکھنے کا حق رکھتے ہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس دھند نے سب کو اندھا کردیا ہے اور اب ہم سب کو مل کر راستہ تلاش کرنا ہوگا۔

لاہور میں چھا جانے والی دھند کے اسباب کو کسی غیر مرئی سازش یا کسی نادیدہ طاقت کی کارستانی کے طور پر دیکھنے کے بجائے اس کو فطرت کے انتقام کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سمندر سے اٹھنے والے بخارات کے پہاڑوں پر جاکر برف کی شکل میں جمنے اور دریاؤں میں بہہ کر دوبارہ سمندر میں ملنے کے عمل میں انسانی مداخلت سے پڑنے والے خلل سے اس طرح کے خطرات پیدا ہوتے ہیں۔ روئے زمین پر نظام زندگی کے دوام کے لئے انسانی مداخلت سے پڑنے والے اس خلل کو سمجھنے اور اس کے ازالے کی ضرورت ہے۔

\"glacier-river-in-baltoro\"

دنیا بھر کے ماحولیات کے ماہرین چیختے رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں قطبین سے باہر دنیا کا سب سے بڑا برف کا ذخیرہ پگھل رہا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران ”سانوں کی“ کی پالیسی پر گامزن پانی کے ذخیرے بڑھانے کے لئے کوئلہ چھڑک کر برف کو مزید پگھلانے کی باتیں کرتے رہے۔ جب تک اقوام متحدہ یا کوئی اور ادارہ خیرات نہ دے ہم پہاڑوں یا جنگلات جیسی فضول چیزوں کے تحفظ کو نہیں بلکہ کاٹ کر بیچ کھانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ جب خیرات کے پیسے مل جاتے ہیں تو بھی ہماری ترجیحات میں اپنے نا لائق بچوں کے لئے نوکریاں اور اپنی بیگمات کے لئے سیر سپاٹے کے ساتھ اضافی آمدنی کا بندوبست اہم ہوتا ہے باقی کام وام ہوتے رہتے ہیں۔ جب 2010؁ میں برف کے پگھلاؤ اور مون سون کی بارشوں نے مل کر سیلاب سے اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا دیا تو ہمیں معاملے کی سنگینی کا ہلکا سا احساس ہوا تھا لیکن سنجیدگی سے اس خطرے کے مستقل تدارک کا کوئی بندوبست پھر بھی نہیں کیا گیا۔

\"glacier-2\"پہاڑوں پر پڑے گلیشئر اور اس سے بنی برفانی جھیلوں کا تعلق براہ راست ہمارے بہتے دریاؤں سے ہے جو ہماری زمین کو سر سبز اور شاداب رکھتے ہیں۔ اگر برف کے تیزی سے پگھلاؤ کو نہ روکا گیا تو شروع میں تو پانی کے بہاؤ میں سیلابی تیزی آئے گی مگر وقت گذرنے کے ساتھ پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوگی جو ملک میں سبزے کو دشت میں بدلنے کا سبب بنے گی۔

بارشوں کی کمی اور نہری پانی کی کمیابی سے سر سبز و شاداب زمینیں صحرا میں تبدیل ہوتی ہیں جس کو دشت شدتی یا بیابانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عمل بھی ایک عرصے سے پاکستان میں وقوع پزیر ہورہا ہے جس پر ماہرین کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود ہمارے کانوں پر جو تک نہیں رینگی۔

سبزے کے دشت میں بدلنے کے عمل کو روکنے کے لئے بھی بیرونی امداد پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اس عمل کا نتیجہ معاشی نقصانات کے علاوہ ہمارے ہاں فضائی الودگی اور درجہ حرارت میں اضافہ بھی بتا یا جاتا ہے۔ گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت کے دوران زمیں پر درجہ حرارت اپنے معمول سے نیچے گرجاتا ہے یا اس کے معمول سے زیادہ چڑھ جانے کا رجحان ہوتا ہے۔ دشت شدتی یا بیابانی کے عمل میں اضافے سے درجہ حرارت میں بھی تبدیلی آجاتی ہے جو ماحول سے موافق نہیں ہوتی۔

سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر سمندر کے پانی کی دراندازی سے سینکڑوں کلومیٹر کا رقبہ سمندری پانی میں ڈوب چکا ہے اور یہ عمل بھی جاری ہے۔ سمندرکی اس دراندازی کو روکنے کے لئے میٹھے پانی کا دریاؤں اور ندی نالوں سے سمندر میں بہاؤ جاری رہنا ضروری ہے۔ بد قسمتی سے پانی کے سمندر میں بہاؤ کو ہمارے قومی بیانیے میں پانی کا ضیاع کہا جاتا ہے اور اس کو روکنے کے لئے ڈیموں کی تعمیر کو قومی ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے جس کے خلاف بولنا غداری کے مترادف ہے۔

\"mangrove\"یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ میٹھے پانی کے کھارے پانی سے ملاپ پر تیمر(مینگروو) کے درخت اگتے ہیں جن کو ساحل کے سپاہی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سمندری آفات کی صورت میں پہلی دفاعی لائن کے طور پر کام کرتے ہیں۔ میٹھے پانی کے سمندر تک نہ پہنچنے کی وجہ سے تیمر کے جنگلات کو انتہائی سنگین خطرات لاحق ہیں۔ خدا نخواستہ اگر یہ درخت ختم ہوجائیں تو ہمارے ساحل بشمول کراچی شہر کے معمولی قسم کی بھی سمندری آفت کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ بد قسمتی سے میٹھے پانی کے سمندر تک پہنچنے، تیمر کے جنگلات کی اہمیت اور ان کے لئے درپیش مشکلات پرملک تو دور کی بات ہے شہر کراچی کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں میں شعور اور آگاہی کی کمی ہے۔ آپ کراچی شہر کے لوگوں سے پوچھ کر دیکھیے گا کہ کتنے لوگ اس خطرے سے آگاہ ہیں۔

\"forest-cutting\"

جنگلات کسی بھی ملک کے پھیپھڑے کہلاتے ہیں۔ پاکستان میں جنگلات کے اوسط نمو بھی بین الاقوامی طور پر قابل قبول شرح سے نیچے ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جنگلات کی کٹائی اب کوئی جرم رہا ہے نہ کوئی اس میں کوئی برائی ہے۔ گلگت بلتستان کے دیار کے جنگلات کی، جن کوانگریزوں کے دور میں شاہی درخت ہونے کا اعزاز تھا، اب سالہا سال بلا روک ٹوک کٹائی ہوتی رہتی ہے۔ کٹنے والی لکڑی کو ہر دفعہ وفاقی حکومت کچھ رقم قومی خزانے اور کچھ ذاتی خزانے میں جمع کرواکر منڈی میں بیچنے کی اجازت دیتی ہے۔ فضائی الودگی کے علاوہ جنگلات کے اس بے دریغ کٹائی کے نتیجے میں سیلابوں کے دوران زمین کے کٹاؤ سے ڈیم بھر جاتے ہیں۔ اگر جنگلات کی اس بے دریغ کٹائی کو صرف جرمانے کی رقم کے اضافے کے ذریعے ہی روکنے کی پالیسی جاری رہی تو جنگلات آنے والے چند سالوں کے مہمان ہیں۔

\"smog-1\"

گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت کے تناظر میں کئی ممالک نے ماحولیاتی الودگی کو اپنے ملک کے بقا ء کا مسئلہ قرار دیا ہے۔ پاکستان میں زبانی جمع خرچ کے علاوہ اس معاملے کے بارے میں سنجیدگی بہت کم دیکھنے کو آئی ہے۔ اس کی ایک مثال ترقیاتی منصوبوں کے ماحولیاتی نقصانات کے ازالے کا قانون ہے۔ پاکستان کے اپنے قانون کے مطابق کسی بھی ترقیاتی منصوبے کے قابل عمل ہونے کے لئے اس کے ماحولیاتی نقصانات کے ازالے کے منصوبے کی منظوری اور اس پر عمل لازمی ہے۔ لیکن عملاً اس قانون پر صرف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی امداد پر چلنے والے منصوبوں پر ہی اطلاق ہو تا ہے۔

لاہور میں چھا جانے والی دھند نے شہریوں کو تو اندھا کردیا ہے مگر یقیناً اس شہر میں رہنے والے صاحب اقتدار لوگوں کی انکھیں بھی کھول دی ہوں گی۔ دریاؤں میں پانی کے سوکھنے سے پہلے، سبزے کے دشت بننے سے پہلے اور ساحلوں کے سمندر میں ڈوبنے سے پہلے اگر بر وقت اقدامات نہیں کیے گئے توہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments