اقبالؒ اور نہرو کی تاریخی ملاقات


جنوری 1938ء میں پنڈت جواہر لال نہرو کا لاہور سے گذر ہونا قرار پایا تھا ،جہاں وہ ایک مقدمہ کے سلسلے میں گواہ کے طور پہ بلائے گئے تھے۔ مقدمے کی نوعیت برصغیر کی اُس زمانے کی سیاست سے وابستہ تھی۔ میاں احمد یار خان دولتانہ نے لاہور کے ”سول ملٹری گزٹ “میں شائع شدہ ایک بیان میں الزام لگایا تھا کہ مولانا آزاد کے توسط ڈھائی لاکھ روپے لاہور بھیجے گئے ہیں تاکہ کانگریس کو پنجابی مسلمانوں میں مقبولیت بخشنے کی خاطرتشہیری مہم کا آغازکیا جائے جس کے لئے ایک اخبار کا اجرا اور متعدد رپورٹروں کا حصول ہونا قرار پایا ہے۔ دولتانہ کے بیاں میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مولانا آزادعبدالقادر قصوری و ڈاکٹرمحمد عالم بیرسٹر اِن لا کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے کیلئے لاہور تشریف لانے والے ہیں۔ بیرسٹر عالم نے گزٹ کے برطانوی ایڈیٹر کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور نہرو کو بطور گواہ بلایا گیا جو حسب گذشتہ میاں افتخار الدین کے ہاں ٹھہرنے والے تھے۔ میاں صاحب نہرو خاندان کے ذاتی دوست اور لاہور میں کانگریس کے سرغنہ تھے۔ علامہ اقبال نے اُن کو پیغام بجھوایا کہ ’جواہر لال سے کہیے گا کہ ملتے جائیں‘۔

اِس تاریخی ملاقات کا حوالہ کئی کتابوں میں موجود ہے جن میں نہرو کی ’ڈسکوری آف انڈیا‘ اور عاشق حسین بٹالوی کی معروف کتاب ’اقبال کے آخری دو سال‘ قابل ذکر ہیں ۔ اِس کے علاوہ ملاقات میں جو کچھ زیربحث آیا اُس سے منسلک حوالہ جات کا ذکر ایڈورڈ ٹامسن کی تصانیف (انلسٹ انڈیا فار فریڈم 1940ء و ایتھکل آئڈیاز اِن انڈیا ٹو ڈے 1942ء) میں موجود ہے۔ ٹامسن آکسفورڑ یونیورسٹی میں بنگلہ زباں و تاریخ ہند کے پروفیسر تھے ۔ اقبالؒ  کے علاوہ اُن کے ہند کی بر گذیدہ شخصیات گاندھی ،نہرو، پٹیل و ٹیگور سے قریبی روابط تھے۔ عاشق صاحب اُن محبانِ اقبال میں مانے جاتے ہیں جنہیں علامہ سے عشق تھا اور جو اُن کی خدمت میں رہنا سعادت سمجھتے تھے۔ بٹالوی و نہرو کی تصانیف میں ٹامسن کا ذکر ہے۔ بٹالوی خود اِس ملاقات میں گرچہ موجود نہیں تھے لیکن دو اور شائقین اقبالؒ میاں فیروز دین احمد و راجہ حسن اختر موجود تھے جنہوں نے ملاقات کی جزیات کے بارے میں بٹالوی کو آگاہ کیااور اور یہ قلمبند ہونے کے بعد بٹالوی نے اپنے رفقا سے نظر ثانی کی درخواست کی تاکہ سب کچھ صیح پیرائے میں منعکس ہو جائے۔ نظر ثانی کا ذکر فوٹ نوٹ میں ہے لیکن بٹالوی کے مفصل ذکر سے پہلے آئیے یہ دیکھیں کہ نہرو نے کن الفاظ میں ملاقات کا ذکر کیا ہے۔

جواہرلال نہرو اپنے والدین کے ہمراہ

 نہرو رقمطراز ہیں کہ ” وفات سے کچھ مہینے پہلے اقبال نے مجھے بلایا جبکہ وہ بستر علالت پہ درازتھے اور اُن کا پیغام میرے لئے باعث مسرت تھا۔ وہ پرانی یادیں تازہ کر رہے تھے اور بات مختلف موضوعات پہ ہوتی رہی جس میں میں نے کم حصہ لیا زیادہ تر اُن کی ہی سنتا رہا‘‘ نہرو نے ملاقات کے تاثرات کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اختلافات کے باوجود مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ باہمی اشتراک کے سبب اُن کے ساتھ کام کرنا آساں ہو سکتا ہے۔ نہرو نے اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ وہ اقبال کی شاعری کے شیدائی تھے اور اُنہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اقبال بھی اُنہیں پسند کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات کہ اقبال نہروکو پسند کرتے تھے وہ اُن کے اِس بیاں سے بھی عیاں ہے کہ ”جناح سیاستداں ہیں جبکہ نہرو محب وطن“ !نیہ دونوں کی عظمت کا اگر چہ اعتراف بھی تھا لیکن اِس بیاں کو گہرائی میں جانچنے سے کچھ اور رخ عیاں ہوتے ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔ سیاست و حب وطن سے صرف نظر اقبال ؒ و نہرو میں قدر مشترک دونوں کا آبا ئی وطن کشمیر تھا جس کے فرزند ہونے کا ہمیں بھی شرف حاصل ہے۔ یہ اُن کی شاعری میں بھی عیاں ہے۔ چنانچہ ’جاوید نامہ‘ میں اپنی مشہور و معروف فار سی زباں میں طویل نظم بعنواں ’ زیارت امیر کبیر حضرت سید علی ہمدانیؒ و ملا طاہر غنی کشمیری‘‘ میں علامہؒ نے سوالیہ لہجے میں شعر کو یوں باندھا ہے:

 ہند را این ذوق آزادی کہ داد

صید را سودائے صیادی کہ داد؟

  (ترجمہ 🙂  ہندوستان کو آزادی کا ذوق کس نے دیا؟ شکار کو شکاری بننے کا سودا کیسے سوار ہوا؟

  علامہ اقبالؒ کے زمانے میں ہندوستان انگریزوں کا شکار ہو چکا تھا ۔ آزادی ہند کی تحریک شروع ہو چکی تھی اور  1929ء میں پنڈت جواہر لال نہرومدراس میں اپنے والد پنڈت موتی لال نہرو سے کانگریسی صدارت کا عہدہ لے کر ”پورن سوراج“ (مکمل آزادی) کا اعلان کر چکے تھے۔ اُنہی دنوں میں ’جاوید نامہ‘ تخلیق ہوئی ۔ علامہ اقبالؒ اپنے مخصوص لہجے میں سوال کا جواب خود ہی فراہم کرتے ہیں

 آں برہمن زادگان زندہ دل

لالہ احمر ز روئے شاں خجل!

 (ترجمہ:)  یہ زندہ دل برہمن زاد ے ہیں۔  جن کی وجاہت سے لالہ احمر بھی خجل ہوتا ہے!

تیز بین و پختہ کار و سخت کوش

از نگاہ شاں فرنگ اندر خروش!

 (ترجمہ:-) تیزنظر کام میں پختہ کار اور سخت محنتی۔ فرنگی محفلوں میں اُن کی نگاہ سے شور برپا ہوا

 مفہوم یہ کہ انگریز سوچنے پہ مجبور ہوئے کہ نئی صورت حال سے کیسے نمٹا جائے کیونکہ اُن کا سامنا ہوشیار و بیدارکشمیری برہمنوں سے پڑا۔

  اصِل شاں از خاک دامنگیر ماست

مطلع ایں اختراں کشمیر ماست!

 (ترجمہ:)-اصل میں یہ ہماری خاک کے ہیں۔ اور فضا پہ ہمارے کشمیرکے ستارے چھائے ہیں

 باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments