اجتماعی دیوانگی میں وبا کے منظر


طالب علم کی رائے ہے کہ ہندوستان کی مسلم تاریخ میں امیر خسرو اور میر تقی میر سے بڑے ذہن پیدا نہیں ہوئے۔ امیر خسرو نے یہ تو کہا کہ کافرِ عشقم، مسلمانی مرا درکار نیست لیکن دوسرے ہی مصرعے میں اپنی رگ رگ کے تار ہو جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کفر کے زنار سے بھی دست کشی کا اعلان کر دیا۔ تین سو برس بعد میر تقی نے فرمایا، سخت کافر تھا جس نے پہلے میر، مذہب عشق اختیار کیا۔ تو کیا میر نے بن کہے خسرو کی ثنا لکھی تھی۔ رکیے بھائی، خسرو اور میر کے بیچ ایک پڑاؤ بھگت کبیر کا بھی پڑتا ہے، پندرہویں صدی کا گیانی جس نے ذات پات کے بندھن اور عقیدے کی جکڑ بندیوں سے اوپر اٹھ کر روا داری اور محبت کی روشنی پھیلائی۔ خاک نشین انسانوں کے گیت گائے۔

ہماری دھرتی کی اس کہکشاں کا ذکر آتا ہے تو کیوں نہ حضرت یسوع مسیح کے اس ہم عصر کو یاد کر لیں جسے تاریخ سینیکا (Seneca) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ سینیکا نے اعلیٰ ترین ذہانت میں دیوانگی کے آثار دریافت کئے تھے۔ پھر کیا تعجب کہ میر نے اپنی شناخت یوں بیان کی، کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ…. بس ٹھہریے، یہی نکتہ آپ کی توجہ چاہتا ہے، دانش جہاں ہجوم کی تقلید سے کنارہ کرتی ہے، اس پیش رفت پر چوکنے شعور کا پہرہ لگا لیتی ہے۔ شعور کی یہ لکیر ہی فرد کی فراست کو ہجوم کے تباہ کن جنون سے جدا کرتی ہے۔ علم اختلاف میں اشتراک ڈھونڈتا ہے، جہالت سے پھوٹنے والا عدم تحفظ جنگل کی وحشت کو جنم دیتا ہے۔ شعور تعلق کی ڈور دریافت کرتا ہے، تعصب تفرقے کی دیواریں اٹھاتا ہے۔

ان دنوں انسانیت کو ایک بڑی آفت کا سامنا ہے۔ کووڈ 19 کی ابتلا کا حجم مرنے والوں کی تعداد سے طے نہیں ہو گا۔ اس ایک دزدیدہ بیماری میں معیشت کا بولو رام ہو چکا۔ سیاست کی قبا چاک ہو چکی۔ اخلاقیات کے نئے سانچے متشکل ہوں گے۔ اجتماعی بندوبست کی نئی صورتیں نمودار ہوں گی۔ ہم مقبولیت پسند تفرقے کی سیاست کے دیو سے لرزاں تھے۔ سمجھ سے باہر تھا کہ بحر اوقیانوس کے پار سفید فام نچلے متوسط طبقے کی رعونت کے سیل بلا کو روکنے کی کیا تدبیر ہو۔ اب قصر ابیض کا نابغہ روز ایک تازہ پھلجڑی چھوڑ رہا ہے اور قوم کو منفعل کر رہا ہے۔ ساٹھ ہزار تابوت اٹھ چکے اور ابھی گنتی جاری ہے۔

دیوار چین کے پار نارسا براعظم میں ریاست کی جبروت نے نہتے شہری کے چہرے پر چپ کا نقاب ڈال رکھا تھا۔ چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر…. ہمارا ہمسایہ سات سے آٹھ فیصد سالانہ کی رفتار سے کلانچیں بھرتا 5 کھرب ڈالر کی معیشت کا خواب دیکھ رہا تھا۔ دہلی کے فسادات سے اٹھنے والے دھوئیں نے کووڈ 19 کی دھجی سے زعفرانی بہروپ کی تہہ اتار پھینکی۔ اور عجب یہ کہ جنوبی کوریا، ویت نام اور نیوزی لینڈ جیسے ذمہ دار منطقے اس امتحان میں پورے اتر رہے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں جہاں لاہور، پشاور اور کراچی بوکھلا گئے ہیں، قبائلی علاقوں اور بہاولپور جیسے نام نہاد پسماندہ خطوں سے اچھی خبریں مل رہی ہیں۔ منو بھائی مرحوم حیات ہوتے تو انہوں نے اپنی مخصوص معصومیت سے پنجابی کہاوت دہرائی ہوتی، لونگاں والیاں دے بھج گئے گوڈے تے تیلی والی کھال ٹپ گئی (بیاہتا عورتیں دیکھتی رہ گئیں اور کچی عمر کی طرح دار لڑکی پار اتر گئی)۔ یہ رعونت پر انکسار، تفرقے پر اتحاد اور نعرے پر تدبیر کی فتح ہے۔

بحران کیسا ہی مہیب کیوں نہ ہو، انسان اس طوفان سے عہدہ برا ہو سکتا ہے بشرطیکہ انسانیت کی اجتماعی میراث اور بنیادی دیانت پر بھروسہ کیا جائے۔ جمہوریت کا طرز کلام ’ہم‘ سے عبارت ہے۔ اجتماعی فراست سے اعتماد کشید کرتا ہے۔ غیر جمہوری سوچ سازش کی تجربہ گاہ میں ’دیدہ ور‘ کی پنیری لگاتی ہے اور پھر آنکھیں مل مل کے بدقسمتی کا نوحہ پڑھتی ہے۔ مہرے بڑھانے اور ہٹانے کی مشق کرتی ہے۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ دل پہ کس کس کا نقش باقی ہے، کون سے نام بجھ گئے ہیں…. ابھی تو ابتدائی منظر ہیں۔ کہانی آگے بڑھے گی۔

کووڈ 19 کی تحقیق اور علاج میں دنیا بھر کے طبی ماہرین شبانہ روز مصروف ہیں۔ اس کوچے کی ہمیں خبر نہیں۔ ہماری علمی استعداد، پیشہ ورانہ وسائل اور تحقیقی ادارے اس سعی کے مکلف نہیں۔ کچھ غیر مصدقہ خبریں ادھر ادھر سے آئی تھیں۔ فواد چوہدری نے بتا دیا کہ خورسند ہونے کی ضرورت نہیں۔ حسب سابق، دنیائے علم یہ گتھی سلجھا لے گی تو ہم دریوزہ گری کا باب کھول لیں گے۔ فی الحال ہم دعاؤں کے منجدھار میں ہیں اور ایک دوسرے کی اہانت کا آزمودہ کھیل جاری ہے۔ کہیں اہل محراب اور اہل تجدد میں مناقشہ ہے تو کہیں کراچی کی تعلیم اور اندرون سندھ کی پسماندگی میں مکالمہ ہو رہا ہے۔ ایک قد آور مدبر نے اس ہنگام 18 ویں آئینی ترمیم کی بحث چھیڑ دی ہے، گجرات کے پیر دانا نے عقیدوں کے جام سفال میں طوفان اٹھا دیا ہے۔ واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں…. وبا کے ان دنوں میں پڑھنے والوں کے پاس معمول سے کچھ زیادہ فراغت کا امکان ہے۔ اجتماعی ذہن کی تفہیم کے باب میں کچھ بنیادی کتابیں تجویز کر رہا ہوں۔ عام دستیاب ہیں۔ اگر توجہ فرمائیں تو شاید ہماری مجموعی فہم میں بہتری کا امکان پیدا ہو۔

ہجوم کی نفسیات پر گستاف (Gustave) کی کتاب The Mind of the Crowd دیکھ لیجئے۔ میکس ویبر کی کتاب Protestant Ethics and the Spirit of Capitalism ضرور دیکھ لیجئے۔ انتونن گرامچی کی کتاب ’زندان کا روزنامچہ‘ پڑھ ڈالیے۔ جبر کی تنہائی میں سیاسی بصیرت کا خوبصورت بیان ہے۔ حنا آرڈنٹ کی تاریخ ساز کتاب فسطائیت کی بنیادیں (The Origins of Totalitarianism ) ضرور پڑھیے۔ ولہم رائخ کی کتاب The Mass Psychology of Fascism پڑھنے سے ذہن کی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔ نوجوان ترک صحافی آچے تمرکلین کی کتاب ابھی حال ہی میں آئی ہے How to lose a country: 7 steps from Democracy to Dictatorship. دائیں بازو کی مقبولیت پسند سیاست کے ابھار کا شاندار تجزیہ کیا ہے۔ دیکھیے، ہم تو اپنے معاشرے کے اجتماعی رویوں کی کھوج میں نکلے تھے، وہ بات تو رہ گئی۔ عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments