احمدی نہ رہے تو کیا بنے گا؟


یہ کیسا المیہ ہے کہ ہمیں اپنے مذہب اور نظریے سے محبت ثابت کرنے کے لیے کسی دوسری کمیونٹی سے نفرت کا ثبوت دینا پڑتا ہے؟ تمسک کے بیان حلفی پر کسی سے بیزاری کا انگوٹھا لگانا پڑتا ہے؟ کیا محبت نفرت جیسی بائی پروڈکٹ سے الگ اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی؟ کیا محبت کے پیکج میں نفرت کا سودا لازم و ملزوم ہے؟ کیا اعتقاد کی بیل طعن و تعریض کے بغیر منڈھے نہیں چڑھ سکتی؟ کیا عقیدت کا پھول دشنام کے کانٹوں کے بغیر نہیں کھل سکتا؟ کیا جذبات کی تہذیب کسی دوسرے کی دل سوزی سے ہی مشروط ہے؟ کیا خدمت دین کے نعرہ برداروں نے اکابر امہ سے یہی طریق سیکھا؟ کیا اسوہ محسن انسانیت انہی رویوں سے تعبیر ہوتا ہے؟

ایک ریاستی فیصلے کے تحت غیر مسلم قرار پانے والی کمیونٹی کو غیر مسلموں ہی کے کمیشن میں جگہ دینا انہیں مسلمانیت کا سرٹیفیکیٹ دینا کیسے ہو گیا؟ کیا اس شمولیت سے احمدیوں کی آئینی و قانونی شناخت بدلتی ہے یا وہ ان عہدوں پر براجمان ہو جاتے ہیں جو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں؟ کیا اس کمیشن کا عقیدہ ختم نبوت سے کوئی تعلق یااختلاف ہے؟ کیا اس کمیشن میں بیٹھ کر احمدی اپنے خلاف کفر کے فیصلے کی توثیق نہیں کرتے؟ کیا یہ کمیشن ملک میں قانون سازی کرنے جا رہا ہے یا آئینی تبدیلیوں کی سکت رکھتا ہے؟ کیا اس کمیشن میں احمدیوں کو مسلمان ہونے کی سند دے کر شامل کیا جا رہا ہے کہ جب کمیشن کا نام ہی اقلیتی کمیشن ہے؟ اور شمولیت بھی کیا کہ جس کا فیصلہ ابھی کابینہ نے کرنا ہے اور سوشل میڈیا پر مچی ہاہاکار اور جہادی نعرہ بازیوں کے بعد جو فیصلہ ہونا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

بنا تحقیق، تفکر اور تجزیے کے لٹھ لے کر پیچھے پڑ جانا ہمارا قومی ٹریڈ مارک ہے۔ عقیدوں کی بے نیام تلواریں لہرانے والوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی نہ کی کہ اس کمیشن کا قیام سپریم کورٹ کا حکم ہے اور احمدیوں کی شمولیت صرف ایک خبر ہے جس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ اودھم صرف سوشل میڈیا پر عام لوگوں ہی نے نہیں مچایا بلکہ ہم نے ٹویٹر پر سینیٹر مشاہد اللہ خان اور وزیر مملکت علی محمد خان کو بھی جذبات کی اس گنگا سے نیک نامی کی مچھلیاں پکڑتے دیکھا۔ ایسے نادر مواقع کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دینے والے چوہدری برادران نے بھی ہیجان کے اس گلال سے اپنا منہ خوب لال کیا۔ انہی چوہدری برادران نے حال ہی میں جب مسلکی محاذ پر کورونا کورونا کھیلا جا رہا تھا تو تبلیغی بھائیوں کے حق میں جھنڈے لہرا کر گرمی بازار سے خوب فائدہ اٹھایا تھا۔

سوشل میڈیا پر نظر ڈالی جائے تو وہاں اس خبر کے گرم ہوتے ہی جنت کی لوٹ سیل لگ چکی ہے۔ ہر ایوبی اور قاسمی روح بیدار ہے اور کشتوں کے پشتے لگانے کو تیار ہے۔ سر تن سے جدا کی گردانیں ہیں اور حرمت و عصمت کے قصیدے ہیں۔ اور اگر ان نیک بختوں کی والز پر تھوڑی آوارہ گردی کی جائے تو انہیں دنیا کے ہر اس ملک میں اقلیتوں کے حقوق عزیز ہیں جہاں اقلیت کا مطلب مسلمان ہے۔

ان خدائی فوجداروں کو اب یہ تجویز کون دے کہ بھیا جب دنیا بھارت کو مذہبی آزادیوں کے تناظر میں بلیک لسٹ کرنے اور پابندیاں لگانے کا سوچ رہی ہے ایسے میں بھارت دشمنی ہی میں اس بات کو ہضم کر لو کہ اس کمیشن سے انگلی کٹوا کر ہم شہیدوں میں نام لکھوا سکتے ہیں اور دنیا کی نظر میں اپنا داغدارامیج کچھ بہتر کر سکتے ہیں۔

گاہے گاہے احمدیوں کے خلاف سلگتا نفرت کا یہ آتش فشاں مجھ جیسے کم عقلوں اور کوڑھ مغزوں کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے کہ اگر کسی غیر مسلم کو ہم نے غیر مسلم کے کھاتے میں بھی نہیں ڈالنا تو اس کے ساتھ کرنا کیا ہے؟ اگر کسی کے بطور مسلمان حقوق نہیں تو اسے بطور غیر مسلم ہی ان بنیادی حقوق تک رسائی دے دو جن کا وعدہ اس سے اس ملک کا آئین بھی کرتا ہے قانون بھی اور غالب مذہب بھی۔

چچا غالب نے کہا تھا  “ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق “۔ سوچتا ہوں اگر کل کلاں سارے پاکستانی احمدی ڈنڈے پیر کے ہاتھ پر بیعت ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گئے تو اس رونق کا کیا بنے گا؟ عقیدے کی اتنی ڈھیر ساری دکانوں اور برانڈز کا کیا بنے گا؟ چیختے چنگھاڑتے حلقوم اور آگ اگلتے لہجے کہاں پناہ لیں گے۔ شاید پھر ہمیں نفرت کا سودا بیچنے کے لیے کوئی اور احمدی کمیونٹی تخلیق کرنا پڑے۔ کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments