مقتدر قوتیں آخر کیا چاہتی ہیں؟


ادارے کسی بھی ملک کی پہچان اور استحکام کے ضامن ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آج تک کوئی سیاسی ادارہ مضبوط نہیں ہو سکا یا مضبوط ہونے نہیں دیا گیا۔ اگر پاکستان آئینی ادارے خودمختار ہوتے تو آج ملک میں عدم استحکام نہ ہوتا۔ انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کو وزیراعظم کی آنکھ اور کان کہا جاتا ہے۔ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں ملک کی سب سے بڑی سویلین خفیہ ایجنسی آئی بی کی استعداد کار بڑھانے کے لئے اسے جدید ایکوئپمنٹ سے لیس کیا گیا۔ ان اصلاحات سے آفتاب سلطان کے زیر قیادت آئی بی آئی بی نے نہ صرف انسداد دہشتگردی میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں بلکہ مبینہ طور پر 2014 کے دھرنے کے دوران ایک اہم افسر کی کال ریکارڈ کر کے دھرنا سازش کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن سلیکٹڈ کے نام سے مشہور عمران خان کے دور حکومت میں سب سے پہلے آئی بی کے پر کاٹے گئے اور صف اول کی ایجنسی کو انسداد دہشتگردی سے ہٹا کر دوبارہ صرف سیاستدانوں کی مانیٹرنگ تک محدود کر دیا گیا ہے۔ آئی بی کی بڑھتی استعداد سے کسی سیاسی جماعت کو تو کوئی پریشانی نہیں تھی پھر کیوں ایسا کیا گیا؟

عدلیہ میں ججز پر دباؤ ڈال کر فیصلے کروانے کی انگنت مثالیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر جسٹس نسیم حسن شاہ کا اعتراف تاریخ کے اوراق پر لکھا ایسا سچ ہے جو کبھی جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ حالیہ دور میں نواز شریف کے خلاف جج ارشد ملک کا ویڈیو سکینڈل بھی ہمارے نظام انصاف پر خفت کا وہ بدنما داغ ہے جو عدل کو شرمندہ کرتا رہے گا۔ مارشلائی ادوار میں کبھی ’ایل ایف او‘ اور کبھی ’پی سی او‘ کے نام پر آزاد منش ججز کو گھر بھیجا جاتا رہا ہے۔ آئین کی پاسداری کی بات کرنے والے کسی جج کے خلاف اگر کوئی ”ویڈیو“ نہ ہو تو پھر اسے ریفرنس سے نشان عبرت بنانے کی کوشش جاتی ہے۔ یہی حال الیکشن کمیشن کا ہے جو آج تک آر ٹی ایس بند کروانے والی کال کی تحقیقات نہیں کروا سکا۔ وجہ سب جانتے ہیں کہ ایسے واقعات کی تحقیقات کیوں مکمل نہیں ہو پاتیں۔

مشرف دور میں ایک آرڈیننس کے ذریعے بننے والے نیب کے قیام کا مقصد کرپشن کا خاتمہ بتایا گیا مگر عملی طور پر ڈکٹیٹرز کی سیاسی مہم جوئی کی تکمیل کے لئے استعمال ہوا۔ موجودہ چیئرمین نیب جاوید اقبال سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں۔ انہوں نے آئین پر چلنے کا حلف اٹھایا ہے لیکن سرکاری دفتر میں قائداعظم کی تصویر کے نیچے بیٹھ کر نازیبا ویڈیو بنوا بیٹھنے والے چیئرمین نیب جب کہتے ہیں کہ وہ ’فیس نہیں کیس‘ دیکھ کر نوٹس لیتے ہیں تو بے ساختہ لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔

عملی طور پر وہ ’کیس نہیں فیس‘ دیکھ کر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ کسی کو صرف عدم تعاون کی بنا پر گرفتار کر لیتے ہیں جبکہ حکومتی ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد ہونے کے باوجود انکوائری بھی شروع نہیں کرتے۔ فیصل واوڈا، خسرو بختیار سمیت حکومتی زعماء کی مثالیں سب کے سامنے ہیں جبکہ میرشکیل الرحمٰن کو 34 سالہ پرانے مقدمہ میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ تاثر یہ ہے کہ نیب ظاہری حکمرانوں کی بجائے اصل حکمرانوں کی سنتا ہے جنہوں نے دراصل نیب کا ادارہ قائم کیا تھا۔

شہبازشریف کے اعتراف پر گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا۔ گزشتہ دنوں شہبازشریف نے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ الیکشن سے پہلے دو نامور صحافی انھیں اگلا وزیراعظم بنانے کا پیغام لائے تھے۔ شہبازشریف کی سیاست کا محور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ الیکشن کے بعد انہوں نے نہ صرف ایکسٹینشن کے لئے ووٹ دیا بلکہ کسی وعدہ خلافی کا شائبہ تک نہیں ہونے دیا۔ شہبازشریف لندن سے واپسی پر حکومت کو غیرمشروط تعاون کی پیشکش کی مگر انھیں نیب میں دوبارہ طلب کر لیا گیا۔ ایک جانب نیب میں طلبی ہو گئی اور دوسری جانب اہم تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہوئیں جن میں سب سے اہم وزارت اطلاعات میں دھیمے مزاج کے جنرل عاصم باجوہ کی آمد ہے۔

ان تقرریوں سے اس حکومت کے جانے یا امسال نئے الیکشن کی امیدوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ وعدے ٹوٹنے پر ایک جانب شہباز شریف شکوہ کناں ہیں تو دوسری جانب ’سلیکٹڈ‘ کا کردار قبول کرنے والے عمران خان بھی دبے لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ اہم فیصلوں میں ان سے مشاورت نہیں ہوتی۔ حکومت اور اپوزیشن کو آپس میں لڑانے والے آخر کیا چاہتے ہیں۔ وہ یہ چومکھی کھیل کیوں کھیل رہے ہیں۔ اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان کے اس کھیل کا پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان۔

آئین کو بار بار پاؤں تلے روندنے کے بعد ملک میں اداروں کی کمزوری کا شکوہ بے جا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ خود کو دیگر آئینی و انتظامی اداروں پر مقدم جانا ہے۔ مقتدر قوتیں یہ سچ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ جمہوری طرز عمل نظرانداز کرنے سے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں اور ملک کمزور ہوتا ہے۔ اب پہلے جیسا دور نہیں رہا۔ اظہار رائے پر قدغن لگا کر وقتی کامیابی تو حاصل کی جا سکتی ہے مگر اپنے حق کے لئے اٹھنے والی ایک آواز کو خاموش کرنے سے مزید سینکڑوں آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ عوام اب سوال اٹھانے لگے ہیں کہ جمہوری حکومتوں کو پانچ سال مکمل کیوں نہیں کرنے دیے جاتے؟ ایک وقت آتا ہے جب خوف بے معنی ہو جاتا ہے۔ طاقت کے ذریعے آپ خود کو مسلط تو کر سکتے ہیں مگر طاقت آپ کو عقل کل نہیں بنا سکتی۔

مقتدر قوتوں نے جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والے ملک کو آمریت کی نرسری بنا دیا ہے۔ سیاست میں مداخلت روزمرہ کا مشاہدہ بن چکا ہے۔ ہر نیا آنے والا اپنے ہی انداز میں تجربات کرتا ہے۔ اگر تین سالہ مدت میں تجربات کا شوق پورا نہ ہو تو پھر ایکسٹینشن کی خواہش مچلنے لگتی ہے۔

گزشتہ الیکشن سے پہلے اہم سرکاری افسر نے ایک سروے جاری کروایا تھا جس میں سیاسی جماعتوں کی نشستوں کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ طاقت کے بھرپور استعمال سے آر ٹی ایس بند کروا کر من پسند الیکشن نتائج سے ذہنی تسکین تو حاصل ہو گئی مگر اقتدار میں لائی گئی جماعت عوام میں سند مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اگر وہی سرکاری افسر آج ایک اور غیر جانبدار سروے کروائیں تو انھیں اندازہ ہو جائے گا کہ چوک اور چوراہوں میں بیٹھے لوگ صرف اس حکومت کو ہی نہیں کوس رہے بلکہ درپردہ کرداروں کو بھی ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ بہتر ہے اپنی غلطیاں تسلیم کی جائیں اور نت نئے تجربات سے گریز کرتے ہوئے اس نظام کو اس کی روح کے مطابق چلنے دیا جائے وگرنہ مدت پوری ہونے کے بعد پرویز مشرف کا حال سب کے سامنے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments