عارف وزیر: جیل ان کا دوسرا گھر اور قبرستان آخری آرام گاہ


پشتون تحفظ موومنٹ جنوبی وزیرستان کے رہنما عارف وزیر کو گولیاں وانا میں لگیں اور زندگی کی آخری سانس اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں لی۔

بھٹو خاندان کی طرح عارف وزیر کو نہ صرف غیر طبعی موت مرنا بلکہ ان کے قاتلوں کو سزا نہ ملنا بھی میراث میں ملا ہے۔ وہ محض بیس سال کے تھے کہ اسی وانا بازار میں ان کے والد، بھائی، چچا اور چچا زاد بھائی کو ہلاک کیا گیا لیکن ان کے خاندان کے افراد کو قتل کرنے کا سلسلہ نہیں رکا ہے۔ عارف وزیر اپنے خاندان کا اٹھارہواں فرد ہے جنہیں قتل کیا گیا ہے۔

ان پر اور ان کے چچا زاد بھائی علی وزیر کے رہائش گاہ پر دو سال پہلے بھی مسلح طالبان نے حملہ کیا تھا جس میں عارف وزیر زخمی ہوئے تھے۔

عارف وزیر پشتون تحفظ موومنٹ کے وہ رہنما تھے جو سب سے زیادہ مرتبہ جیل جا چکے ہیں۔ موومنٹ کی 25 مہینے کی عمر میں عارف وزیر 13 ماہ سے زیادہ عرصے تک پس زنداں رہا ہے۔ ان کو سات مرتبہ گرفتار کرکے ہری پور، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں اور وانا کی جیلوں میں رکھا گیا۔ گویا جیل ان کا دوسرا گھر بن چکا تھا اور اب قبرستان مستقل آرام گاہ ہے۔

اس سال آٹھ فروری کو دو ماہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں گزارنے کے بعد انہیں رہائی ملی تو میں نے انٹرویو کے دوران جب ان سے بار بار گرفتار ہونے کے بارے میں سوال کیا تو ان کا جواب تھا ”جیل جانا ہمیں باچا خان اور خان عبدالصمد خان سے میراث میں ملا ہے اور میں جب بھی جیل کے احاطے میں داخل ہوتا ہوں تو فخر محسوس کرتا ہوں کہ اپنے اکابرین کی راہ پر چل کر یہاں پہنچا ہوں“۔

قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں شامل ہونے کے بعد سب سے پہلی ایف آئی آر بھی عارف وزیر کے خلاف کاٹی گئی تھی۔ وہ اتنے سرگرم سیاسی کارکن تھے کہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے رہائی کے بعد گھر کی جگہ سیدھے بلوچستان کے شہر لورا لائی گئے اور تحریک کے ہلاک ہونے والے ساتھی ارمان لونی کی پہلی برسی میں نہ صرف شرکت بلکہ انتہائی پرجوش تقریر کی۔

وہ جب سے پشتون تحفظ موومنٹ کا حصہ بنے تھے تب سے وہ یا تو حکومت کے نشانے پر رہے یا مقامی مسلح طالبان کے۔

حکومت ان کی تقریروں کو بنیاد بنا کر بغاوت، غداری اور امن عامہ میں خلل ڈالنے کے الزامات کے تحت گرفتار کرتی رہی اور عدالت انہیں ضمانت پر رہا کرتی رہی۔ وہ جن پرخطر حالات سے گزر رہے تھے شاید جیل ان کے لئے سب سے زیادہ محفوظ جگہ تھی۔

عارف وزیر آپریشن تھیٹر سے زندہ واپس نا آئے

انٹرویو کے دوران انہوں نے الزام لگایا کہ ٹانک جیل میں کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور ان کی تصویریں نکال کر دھمکی دی کہ ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے تو بقول عارف وزیر کے میں نے کہا ”جب تک میرے جسم میں خون کا آخری قطرہ بھی باقی ہو میں آپ لوگوں کے خلاف آواز بلند کرتا رہوں گا۔“

لیکن بالآخر اس آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا ہے البتہ اس کی گونج تادیر برقرار رہے گی اور مزید آوازوں کو جنم دیتی رہے گی۔ محسن نقوی کے الفاظ میں،

تونے مجھے چراغ سمجھ کر بجھا دیا
لیکن تیرے لئے میں سحر چھوڑ جاؤں گا
قاتل میرا نشان مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کے نوک پر سر چھوڑ جاؤں گا
میں اپنے ڈوبنے کی علامت کے طور پر
دریا میں ایک آدھ بھنور چھوڑ جاؤں گا۔
( عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ منسلک ہیں۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments