زوال میں کمال کے چند جزیرے ممکن نہیں


کہیں ایک بڈھا بڑ بڑا رہا تھا۔ اے خدا !کچھ اپنے سسٹم کی بھی اصلاح کر لے۔ تو جوڑے بنا کر آسمانوں پر آرام سے بیٹھ رہا ہے ۔ یہاں کڑی منڈے کے غریب والدین کو ان کا جوڑ میل کروانے میں بڑی خجل خواری ہے ۔اس بوڑھے کو چھوڑیں ۔کالم نگار کی یہ مجال نہیں کہ وہ نظام کبریا پر معترض ہو۔ البتہ وہ اپنی ”کار سرکار“ میں کڑھنے اور رونے دھونے کا حق ضرور رکھتا ہے ۔شاید ہماری جمہوریت ایک عام آدمی کو اتنا ہی حق دیتی ہے ۔ جب اصلی والی ریاست مدینہ میں کچھ قبائل نے زکوٰة (ٹیکس) دینے سے انکار کیا تو خلیفہ اول نے یہ فرماتے ہوئے ان پر لشکر کشی کا حکم دے دیا۔ اگر کوئی اونٹ کا گھٹنا باندھنے والی سرکار کو واجب الادا رسی بھی دینے سے انکار کرے گا تو میں اس سے جنگ کروں گا۔ وہ ریاست کے کسی معمولی حق سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے ۔ ادھر ہماری حکومت پاکستان کواپنے اثاثوں کی مطلق فکر نہیں۔ اوقاف ، ریلوے ، جنگلات ،ہائی وے ، میونسپل کارپوریشن اور وفاقی صوبائی حکومتوں کے بیش بہا رقبے بااثر لوگوں کے قبضے میں ہیں۔ کہیں وہ معمولی کرایہ ادا کرتے ہیں اور کہیں کچھ بھی نہیں۔ مارشل لاءلگانے میں ناکام رہنے والے فوجی جرنیل ظہیر الاسلام عباسی کا خیال تھا کہ ان جائیدادوں کا صرف پورا کرایہ لے کر ہی ملکی قرضہ اتارا جا سکتا ہے ۔ گوجرانوالہ میں ایک بااثر سیاستدان کے قبضہ میں ایک پٹرول پمپ کی قیمتی جگہ تھی ۔ حکومت کی تبدیلی پر وہ ان سے ضرور چھڑوا لی گئی ۔ لیکن 1985ءسے وہ وہاں غیر قانونی قابض تھا ۔ ادھر ہماری ”دریا دل “جدید ریاست مدینہ ہے ۔ اس نے شاید کبھی اس کے پینتیس برس کے کرایہ بارے سوچا ہی نہیں۔ کوئی جائے اور اس کے والی کو بتائے اور سمجھائے ۔ مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا چندہ خیرات ۔ کوئی ریاست چندے نہیں مانگا کرتی ۔ وہ اپنے اثاثوں کی فکر کرے ۔ ان کے پورے کراےے اکٹھے کرے ۔ بقایا جات وصول کرے ۔اس معاملہ میں سبھی شہروں کے حالات میرے شہر سے ملتے جلتے ہونگے ۔ گوجرانوالہ کی حد تک ادنیٰ نرخوں پر چڑھی ہوئی سرکاری جائیدادوں سے اتنی وصولی ہو سکتی ہے جو یہاں کے غرباءکیلے کافی و شافی ہو۔ حکمرانوں کو غریبوں کیلئے چندے اکٹھے کرنے کی بجائے ایسی پالیسیاں لانی چاہئیں جن سے نچلے طبقے کے مالی مسائل حل ہوں۔ ایسی پالیسیوں کی تشکیل میں بہت درد سری چاہئے ۔ کسی حکمران کو اپنا قیمتی وقت صرف ادھر صرف کرنا چاہئے ۔پچھلے دنوں حکومت نے کرونا ریلیف کی مد میں پچاس ارب ر وپیہ ، 12ہزار روپے فی کس کے حساب سے تقسیم کر دیا۔ مزید 74ارب روپیہ بھی جلد تقسیم ہو جائے گا۔ اس کے ڈیٹا میں مکمل رازداری ہے ، کابینہ سے بھی رازداری؟محترمہ ثانیہ نشتر کی دیانت اورنیت پر شک نہیں ۔لیکن اتنی رازداری عقل سلیم میں فِٹ نہیں بیٹھتی ۔ گناہ کی مختصر اور واضح تعریف یہی ہے کہ انسان اسے چھپانے پر مجبور ہو۔ اسے چھوڑیں۔ اصل مسئلہ یوں ہے کہ 12ہزار روپیہ تاجروں کے ایک ہی جھٹکے میں 6ہزار روپیہ رہ گیا ہے ۔ مہنگائی کے باعث خوردنی اشیاءکی قیمتیں یکدم دوگنی ہو گئی ہیں۔ تاجر اشیاءکو مہنگے داموں بیچنا گناہ ہی نہیں سمجھتے ۔ پرائس کنٹرول مجسٹریٹ نامی مخلوق ماضی کا قصہ ہو گئی ہے ۔

حکومت کے کرنے کے اصل کام یہ ہیں۔ اگر کوئی ایدھی بھی حکومت میں آجائے تو اسے صرف حکومت کرنی چاہئے ۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے منبر و محراب سے کبھی ٹریفک کے قوانین کی پابندی ، ملاوٹ اور مہنگائی جیسے مسائل ڈسکس ہی نہیں ہوئے ۔ غربت ایک عذاب عظیم ہے ۔ غریب آدمی کو اس دنیا میں ہی قیامت کا سامنا ہے ۔ انہیں حوروقصور کے دلنشیں قصوں سے شاید یہ باور کروایا جاتا ہے کہ یہ فانی دنیا جیسے تیسے گزار لے ، موج میلہ اگلے جہان دیکھا جائے گا۔ لیکن ایک حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایک ویلفیئرسٹیٹ بنائے اور اپنے شہریوں کے لئے اسی دنیا میں جنت کا اہتمام کرے۔ دنیا میں پہلی بار ایک ویلفیئر سٹیٹ کا تصور اسلام نے ہی دیا ہے ۔ آج دنیا میں مسلمانوں کے زوال کی وجہ عبادات کی کمی نہیں بلکہ اسلام کو صرف عبادات تک محدود کرنے سے ہے ۔ پھر یہ کیا کربلا ہے کہ ”اقرائ“ سے نبوت پر سرفراز کئے جانے والے نبی آخرالزماں کی امت میں سب سے زیادہ بے توقیری علم کی ہے ۔ ہمارے ہاں زیادہ پڑھے لکھے شخص کو پاگل سمجھا جاتا ہے ، پورا نہیں تو آدھا ضرور۔ جس معاشرے میں پڑھنے کی عادت نہ رہے ، وہاں برگسان اور نٹشے جیسے دانشور بھی غیر موثر رہتے ہیں۔ آج کرونا وائرس نے پوری دنیا میں قیامت برپا کر رکھی ہے ۔ بے پناہ قومی درد رکھنے والی محترمہ شاہین مفتی نے اپنے ایک شعر میں کتنا دردناک منظر پینٹ کیا ہے ۔

مرشد!میری گلی کے سب لوگ مر گئے

مرشد!کسی بھی گھر سے جنازہ نہیں اٹھا

اس سے بھی دردناک واقعہ یہ ہے کہ تمام امت مسلمہ اس درد کے درماں کیلئے یورپی لیبارٹریز کی جانب دیکھ رہی ہے کہ کب کوئی ویکسین ڈھونڈ لی جائے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آج مسلمان کسی بھی مذہب کے ماننے والے سائنسدان کی ویکسئن ٹھکرانے کی سکت نہیں رکھتے ۔ یہ صرف طب اور سائنسی علوم کا ہی معاملہ نہیں ۔ ہمارا پورا سماج زوال کا مسلسل شکار ہے ۔ احساس ٹیلی تھون کے دوران دعا کراتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے میڈیا کومعاشرے کا جھوٹا ترین طبقہ قرار دیا ۔ مولانا کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان دیانت میں دنیا بھر میں 116ویں نمبر لیکن حاجیوں کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے ۔ صرف صحافت نہیں، تجارت ، عدالت ، سیاست سمیت ہمارے سبھی ادارے تنزل کا شکار ہیں۔ زوال جب کسی سماج کا رخ کرتا ہے تو اس سماج کے لئے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ کمال کے چند جزیرے آباد کر سکے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments