کورونا وائرس: اگر انڈیا میں صورتحال قابو میں ہے تو لاک ڈاؤن میں توسیع کیوں؟


انڈیا کورونا

انڈیا میں لاک ڈاؤن 17 مئی تک بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے جب لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کی گئی ہے۔ اس سے قبل 24 مارچ کو 21 روزہ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس لاک ڈان کی 21 دن کی مدت پوری ہونے سے صرف ایک دن قبل 13 اپریل کو لاک ڈاؤن میں پہلی توسیع کی گئی۔ یہ مدت تین مئی کو مکمل ہونی تھی لیکن یکم مئی کو لاک ڈاؤن کو دوبارہ دو ہفتوں کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے متاثرین 33 لاکھ سے زیادہ ہو گئے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ 37 ہزار سے زیادہ ہے۔

اس وبا سے امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جہاں ہلاکتوں کی تعداد 62 ہزار سے زیادہ ہے۔

انڈیا کی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کے 35 ہزار سے زیادہ مصدقہ متاثرین موجود ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 1152 ہے۔

ملک کی سب سے زیادہ متاثرہ ریاست مہاراشٹر ہے جہاں متاثرہ افراد کی تعداد 10 ہزار سے زیادہ ہے۔ دوسری سب سے زیادہ متاثرہ ریاست گجرات کی ہے جہاں وائرس کے چار ہزار سے زیادہ کیسز ہیں۔

مہاراشٹرا میں اموات کی تعداد 450 سے زائد جبکہ گجرات میں ہلاکتوں کی تعداد 214 سے تجاوز کر چکی ہے۔

بی بی سی

انڈیا میں مسلمان مریضوں کے ساتھ مبینہ تفریق کیسے روکی جائے؟

انڈیا میں تبلیغی جماعت کے سربراہ پر قتلِ کی دفعات کے تحت مقدمہ

انڈیا میں کورونا سے پہلی موت کی پراسرار کہانی

کورونا وائرس: انڈیا میں مسلمانوں کا رمضان کیسا گزرے گا؟


انڈین حکومت کی طرف سے شروع سے ہی یہ دعوی کیا جاتا رہا ہے کہ انھوں نے صحیح وقت پر صحیح حکمت عملی اپنائی اور سخت فیصلے کیے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انڈیا میں کورونا وائرس کے متاثرین بہت سے دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔

حکومت یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ اس نے صورتحال کو بہتر طریقے سے سنبھالا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) بھی انڈیا کے اس دعوے کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے کورونا انفیکشن کے حوالے سے انڈیا کی جانب سے اب تک اٹھائے گئے اقدامات کی تعریف کی ہے۔

انڈیا

لیکن وقتاً فوقتاً یہ سوالات بھی پیدا ہوتے رہے ہیں کہ انڈیا میں انفیکشن کی اصل تصویر سامنے نہیں آ رہی ہے۔

انفیکشن کے کچھ ہاٹ سپاٹ پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کا دعویٰ ہے کہ ملک میں وائرس کے انفیکشن کی اصل تصویر سامنے نہیں آ رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر جانچ نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ افراد کی تعداد حکومت کی بیان کردہ تعداد سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ تاہم حکومت ٹیسٹ کم ہونے کے الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔

انڈیا میں انفیکشن کے 35 ہزار سے زیادہ کیس ہیں اور یکم مئی کی صبح نو بجے تک ملک میں مجموعی طور پر نو لاکھ سے زائد نمونے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ انڈیا میں روزانہ 50 ہزار سے زیادہ ٹیسٹ کروائے جا رہے ہیں۔

وزارت صحت نے یکم مئی کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا انفیکشن کے 1993 واقعات پیش آئے۔ پریس کانفرنس میں لو اگروال نے کہا کہ انڈیا میں مریضوں کی صحت یابی کی شرح 25.37 فیصد ہے۔

30 اپریل کو سرکاری ایجنسی پریس انفارمیشن بیورو کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق انڈیا میں اموات کی شرح تقریبا 3.2 فیصد ہے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ انڈیا میں کورونا وائرس سے مرنے والے مردوں کی تعداد خواتین سے زیادہ ہے۔ مرنے والے ہر سو افراد میں سے 65 مرد جبکہ 35 خواتین ہیں۔

مرنے والوں میں 45 سال سے کم عمر افراد تقریباً 14 فیصد ہیں۔ 45-60 سال کے درمیان لوگوں کی شرح 34.8 فیصد ہے۔ 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی اموات 51.2 فیصد ہے۔

انڈیا میں گذشتہ 11 دنوں کے دوران انفیکشن کے کیس دگنے ہو گئے ہیں۔

حکومت کے دعوؤں کے مطابق انڈیا میں حالات قابو میں ہے۔ لاک ڈاؤن کو اس کی ایک بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے لیکن جب ہر چیز کنٹرول میں ہے تو لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

انڈیا کورونا

لاک ڈاؤن کے بارے میں عالمی ادارہ صحت کے چیف سائنسدان ڈاکٹر سومیہ سوامی ناتھن نے ایک میڈیا ادارے کو بتایا کہ عالمی ادارہ صحت نے کبھی بھی اس لاک ڈاؤن کے بارے میں بات نہیں کی۔

ڈاکٹر سوامی ناتھن نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے ہر قسم کے اقدامات کیے ہیں۔ جس میں وائرس کی نشاندہی اور جانچ، ٹیسٹ اور علیحدگی اور قرنطینہ کے اقدامات اور احتیاطی تدابیر دی گئیں، لیکن بہت سے ممالک نے خود سے بھی زیادہ سخت اقدامات اور لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے لیکن اب لاک ڈاؤن سے نکلنے کے لیے قدم بہ قدم آگے بڑھنا ہو گا۔

لاک ڈاؤن میں اضافے پر پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل پرکاش سنگھ کا خیال ہے کہ ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر لاک ڈاؤن کو فوری طور پر ہٹا دیا گیا تو انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اسی لیے اسے مرحلہ وار انداز میں ہٹایا جا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے حکومت نے طویل مدتی لاک ڈاؤن کیا تھا اور اب اس نے دو ہفتوں کی توسیع کی ہے۔ اس میں حیرت کی بات نہیں ہو گی کہ اگر دو ہفتوں کے بعد مزید ایک ہفتے کا اضافہ ہو اور پھر اسے ختم کر دیا جائے۔ ہم قدم بہ قدم اس میں آگے بڑھ رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پہلے کے لاک ڈاؤن کے مقابلے میں اس بار بہت زیادہ رعایت بھی دی گئی ہے۔ زون کی بنیاد پر کارروائی کی جا رہی ہے۔

لیکن جب حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ انڈیا میں کورونا وائرس کنٹرول میں ہے تو پھر لاک ڈاؤن کیوں؟

اس کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ حکومت زیادہ خطرہ نہیں لینا چاہتی، لہذا یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کی آبادی بہت زیادہ ہے اور اگر لاک ڈاؤن کو ہٹانے میں ذرا بھی بھول ہوئی تو کورونا کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے۔ اسی وجہ سے یہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔‘

پرکاش سنگھ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں کہ انڈیا کورونا وائرس کی زد میں ہے اور جو اعداد و شمار نظر آرہے ہیں وہ واضح تصویر پیش نہیں کرتے ہیں۔

انڈیا کورونا

وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت نے کورونا وائرس کے انفیکشن کے حوالے سے جو حکمت عملی اپنائی ہے وہ بہت کارآمد ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جتنی بڑی آبادی ہے اور اس کے پاس جس طرح کی طبی سہولیات ہیں ان کے پیش نظر یہ حکمت عملی اچھی ہے اور اس کے اثرات بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔

سر گنگا رام ہسپتال کے ڈاکٹر اتل ککڑ لاک ڈاؤن کی توسیع پر کہتے ہیں کہ یہ پہلے کے لاک ڈاؤن سے مختلف ہے۔ اس بار لاک ڈاؤن کو تین زون میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’گرین زون میں شامل کیے گئے علاقے کھلیں گے، لیکن ریڈ زون وہ ہیں جہاں انفیکشن کے کیسز ابھی بھی آ رہے ہیں۔ ایسے میں وہاں ابھی بھی سختی کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر ککڑ کا خیال ہے کہ انڈیا نے اب تک جس طرح سے کورونا وائرس کے بارے میں سختی کا مظاہرہ کیا ہے اسے جاری رکھنے ضرورت ہے تاکہ انفیکشن کے معاملات جو اب تک نسبتا قابو میں ہیں وہ قابو میں ہی رہیں۔

ڈاکٹر ککڑ نے کہا کہ ’انڈیا جس طرح سے کورونا وائرس سے نمٹ رہا ہے وہ بہت موثر ہے اور یہاں کے بنیادی ڈھانچے کی سطح بھی اچھی ہے۔‘

انڈیا میں سب سے زیادہ انفیکشن کے معاملات مہاراشٹر اور گجرات میں ہیں اور ان دونوں ریاستوں میں دیگر علاقوں سے آنے والے مزدوروں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ کیا اس میں کوئی تعلق ہے اور یہ کتنا بڑا خطرہ ہو سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ککڑ کا کہنا ہے کہ ’دوسرے علاقوں سے آنے والے مزدوروں کی طرز زندگی جس میں کھانے پینے کا طریقہ شامل وہ خطرے کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی دوری اور حفظان صحت بھی ایک مسئلہ ہے۔ ایسی صورتحال میں ممکنہ خطرے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘

ملک کے مختلف اضلاع میں کورونا وائرس کے انفیکشن کے کیسز کی بنیاد پر انھیں سرخ یا ہاٹ سپاٹ، اورینج اور سبز رنگوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

وہ علاقے جو نارنجی اور سبز کیٹیگری میں شامل ہیں وہاں لاک ڈاؤن کے دوران کچھ نرمی دی جائے گی۔ وزارت صحت اور خاندانی بہبود نے 30 اپریل کو ریڈ، گرین اور اورنج زون کے بارے میں تفصیلی معلومات دیں۔ گرین زون وہ علاقے ہیں جہاں پر گذشتہ 21 دن سے کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا ہے۔

ریڈ زون کا فیصلہ کرتے وقت، ایکٹو کیسز کی تعداد، تصدیق شدہ کیسز کے دگنا ہونے کی رفتار، ٹیسٹوں کی تعداد اور اضلاع سے حاصل ہونے والی معلومات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ جو سرخ یا گرین زون نہیں ہیں انھیں اورنج زون کہا جاتا ہے۔ وزارت صحت ہفتہ وار بنیاد پر ریڈ، گرین اور اورنج زون میں تقسیم ہونے والے تمام اضلاع کے بارے میں یا ضرورت پڑنے پر اس سے پہلے، تمام ریاستوں اور مرکزی علاقوں کے ساتھ معلومات شیئر کرے گی۔

نئے رہنما اصولوں کے تحت ملک بھر کے تمام زونز میں کچھ چیزوں پر پابندی ہو گی۔ ان میں ہوائی سفر،ریل، میٹرو، بین ریاستی روڈ ٹرانسپورٹ، سکول، کالج اور دیگر تعلیمی ادارے، ہوٹل، ریستوران، سینما ہال، شاپنگ مال، جم، کھیل کود کے مقامات جہاں لوگوں کی بڑی تعداد جاتی ہو اور کمپلیکس وغیرہ پر مکمل پابندی ہو گی۔

کسی بھی طرح کے سماجی، سیاسی، ثقافتی یا دیگر اجتماعات اور مذہبی مقامات پر عوامی عبادت پر پابندی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp