کیا آپ وبا کے دنوں میں کچھ نیکی کمانا چاہیں گے؟


وبا کے دن چل رہے ہیں۔ سب ہی اپنے اپنے گھروں میں مقید ہیں۔ جہاں اس وبا نے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور ایک دوسرے سے دور رہنے پر مجبور کردیا ہے وہاں سب کو ایک موقع بھی فراہم کیا ہے کہ اپنے ساتھ کچھ وقت گزار لیں۔ کچھ اپنے ماضی کے بارے میں سوچیں، کچھ مستقبل کی فکر کرلیں۔ اس حوالے سے ”موسم“ فلم کا بھوپندر سنگھ اور لتا جی کا ایک گیت بھی یاد آرہا ہے، جس کے بول کچھ یوں ہیں :

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں، تصور جاناں کیے ہوئے

اس وبا نے یہ مشکل تو کم از کم آسان کر دی کہ سب کو ہی فرصت کے ڈھیروں لمحات میسر آگئے۔ اب کوئی ان میں تصور جاناں کو لے کر بیٹھا ہے اور کوئی کچھ اور سوچ رہا۔ انہی فرصت کے لمحات میں کل بیٹھے فیس بک پر ایک پرانی تصویر سامنے آئی تو اس سے وابستہ کیا کیا کچھ یاد آگیا۔ وہ تصویر آج سے تین سال پہلے نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کام کارپوریشن ( این آر ٹی سی ) ، ہری پور کی تھی۔

این آر ٹی سی، وذرات دفاعی پیداوار کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ جو ہری پور کے چھوٹے سے شہر میں واقع ہے۔ وہاں پر افواج پاکستان اور دیگر سیکورٹی اداروں کے لیے کمیونیکیشن اور سرویلنس کے آلات بنتے ہیں۔ وہاں پر میری زندگی کے چھ سال گزرے۔ جہاں بہت سے اچھے دوست ملے۔ ان کے ساتھ گھومنے پھرنے اور ہاسٹل کے لان میں بیٹھ کر کتنی کتنی دیر گپیں مارنا کون بھول سکتا ہے۔ ٹی آئی پی کالونی کے سرسبز اور پرسکون ماحول میں واک کرنا، آفس کے کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر اپنے سینیر افسروں کی چغلیاں کرنا اور ان کے خلاف اپنی بڑھاس نکالنا بھی کیا خوب تھا۔ پھر ہاسٹل میں سب کو چیلنج کرکے کئی گھنٹے ٹیبل ٹینس کھیلنا اور ٹی وی روم میں حالات حاضرہ کے پروگرام اور میچز دیکھ کر ان پر تبصرے کرنا بھی کمال تھا۔

اور سب سے بڑھ کر میرا کمرہ، جو مجھے سب سے زیادہ یاد آتا ہے۔ جس میں رہ کر ایک عجیب سا سکون ملتا تھا۔ اور ایک خوب صورت آزادی کا احساس جسے میں اب بھی محسوس کرسکتا ہوں۔ وہ سب کتنا اچھا تھا۔ مگر اس سب کے باجود مجھے وہاں چھ سال گزارنے کے بعد ایک قلق بھی رہے گا۔ وہ قلق ہے وہیں اسی کالونی میں رہنے والے ایک بہت ہی پیارے انسان سے اس دور میں آشنائی نہ ہونے کا۔ جن سے آشنائی تب ہوئی جب وہاں سے میرا کوچ ہو چکا تھا۔ کاش کہ تب ان سے ملتا تو کتنا ہی لاجواب وقت ان کے ساتھ گزرپاتا۔ مگر کیا کہئیے نگوڑی قسمت کو؟

تو جن پیارے انسان کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ ان کا نام زاہد کاظمی ہے۔ وہ ہری پور میں ٹی آئی پی ہاؤسنگ کالونی میں رہتے ہیں۔ پچھلے سال کے آخر میں جب میں اپنی کلیرنس کروانے این آر ٹی سی، ہری پور گیا تو زاہد صاحب کی محبت کی وجہ سے ان کے پاس قیام کیا۔ تب ان کی مہمان نوازی، محبت اور قابلِ احترام رویے نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیا۔ زاہد کاظمی صاحب کمال کے صاحب مطالعہ انسان ہیں۔ ان کے ساتھ آپ دنیا کے کسی بھی موضوع پر گھنٹوں بات کرسکتے اور آپ کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوگا۔

ان کے کتابوں سے خاص طور پر آپ بیتیوں سے عشق کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے اپنے گھر میں ہزاروں کتابوں کی ایک لائبریری بنائی ہوئی ہے۔ آپ کسی کتاب کا نام لیں۔ وہ جھٹ سے لا کر آپ کے سامنے حاضر کر دیں گے۔ اور آپ بیتیوں کا شاید پاکستان میں سب سے بڑا مجموعہ ان کے پاس ہی ہے جو انھوں نے پچھلے دس سال میں اکٹھا کیا ہے۔ اس کے ساتھ ان کو پاکستان کی مشہور شخصیات کی آپ بیتیاں چھپوانے کا بھی جنون ہے۔ جس کے لیے انھیں چاہے جتنا مرضی لمبا سفر کرنا پڑے اور جتنا عرصہ مرضی اس شخصیت کے پاس قیام کرنا پڑے وہ کرتے ہیں۔ اور آپ بیتی مکمل کروا کر اور اسے چھپوا کر ہی دم لیتے ہیں۔

اس سب کے ساتھ انھوں نے نیکی کا ایک اور کام بھی شروع کیا ہوا ہے۔ وہ ہے ”باب العلم“ سکول کا قیام۔ جس کا آغاز انھوں نے 2016 میں اپنے آبائی گاؤں ”قطبہ“ جو کہ ہری پور سے خان پور کی طرف جاتے ہوئے بارہ کلومیڑ کی مسافت پر ”بریلہ“ کی یونین کونسل میں واقع ہے، سے کیا۔ وہاں پر زیادہ تر مزدور لوگوں کے گھر ہیں جو کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنے بچوں کو پڑھائی کے جھنجھٹ میں ڈالنے کی بجائے ان کو کام پر لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

کاظمی صاحب نے پہلے ان بچوں کے والدین کو قائل کیا کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دیں، ان کے سب اخراجات وہ خود اٹھائیں گے۔ تو ابتدائی طور پر پچاس بچوں کو ایک کرایہ پر کمرہ لے کر نرسری اور پریپ میں داخلہ دیا گیا۔ اور ان کی فیس علامتی طور پر ایک روپیہ رکھی گئی۔ تاکہ بچوں کے والدین کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ سکول میں بچوں کو کتب، سٹیشنری، بیگ، یونیفارم اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ وسائل کی صورت حال مزید بہتر ہونے پر بچوں کو کھانا فراہم کرنے کا بھی مصمم ارادہ ہے۔

سکول کو 2019 میں رجسٹرڈ کروالیا گیا۔ اس وقت سکول ایک کرائے کی بلڈنگ میں منتقل ہو چکا ہے۔ اور اس میں 9 سٹاف ممبران اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ سکول میں ایک کلاس آگے ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔ اور نرسری میں نئے بچے ہر سال آجاتے ہیں۔ اس وقت سکول میں نرسری، پریپ، اول، دوئم، سوئم اور چہارم کی کلاسیں ہیں۔ اور اس تعلیمی سال 2020۔ 2021 میں بچوں کی تعداد 140 ہو جائے گی۔ جن میں پچاس فیصد تعداد لڑکیوں کی ہے۔ جس سے کاظمی صاحب کی لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ کا بھی پتا چلتا ہے۔

بچوں کو مفت فراہم کی جانے والی تمام سہولیات کا تخمینہ ایک بچے کے لیے ماہانہ 3، ہزار اور سالانہ 35 ہزار ہے۔ یہ اخراجات دوست احباب اور مخیر حضرات کے تعاون سے پورے کیے جاتے ہیں۔ سکول کی ہر سال مارچ یا اپریل میں باقاعدہ ایک سالانہ تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے۔ جس میں کلاس میں اچھی پوزیشنز لینے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔ پچھلے سال ہونے والی سالانہ تقریب میں مشہور لکھاری وسعت اللہ خان، مجاہد مرزا، صحافی، سبوخ سید اور کئی دیگر احباب نے بھی شرکت کر کے بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کی تھی۔

اس سال بھی کاظمی صاحب کا سکول کی شاندار سالانہ تقریب کا اہتمام کروانے کا مصمم ارادہ تھا۔ جس کے لیے انھوں نے مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے کورونا کی وبا کی وجہ سے تقریب منعقد نہیں ہو پائی۔ مگر ان کا مشن تو ویسے ہی جاری ہے۔ اور اس کالم کی وساطت سے میری سب دوستوں اور احباب سے اپیل ہے کہ وبا کے ان دنوں میں اور رمضان المبارک کے اس با برکت مہنیے میں جہاں پر ہم اپنے مزدور اور دیہاڑی دار طبقے کی داد رسی کررہے اور مستحق افراد کو عطیات اور زکوٰة دے رہے ہیں وہاں پر زاہد کاظمی صاحب کے ”باب العلم“ سکول کے لیے بھی دل کھول کر مدد کریں اور یہ نیکی بھی کما لیں۔

کیونکہ جس طرح سے کاظمی صاحب ان مستحق بچوں کو معیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے وہ بلا شبہ ایک جہاد ہے۔ کیونکہ کیا پتہ ان ہونہار بچوں میں سے کل کو کوئی ہمارے ملک کی بہترین خدمت کرنے کے قابل ہو جائے۔ عطیات دینے یا سال بھر کے لیے ایک یا زائد بچے سپانسر کرنے کے لیے زاہد کاظمی صاحب کے نیچے دیے گئے فون نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ شکریہ

زاہد کاظمی صاحب
رابطہ نمبر : 03345958597


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments